مرغی کی ڈوڈری

مرغی کی ڈوڈری

انسانی تاریخ کے بڑے نام آغاز سے اب تک تصور کیے جانے والوں کا کمال یہ ہے کہ ان سب نے اپنی فکر و نظرسے انسانوں کی بھلائی کیلئے تحقیق و محنت سے ایجادات کیں جس میں ملک نظام نظریے اور سہولیات کے اعتبار سے ہوائی جہازوں سے لے کر سوئی تک شامل ہیں جن کو مزید زیادہ آسانیوں ‘ سہولیات اور گھنٹوں سے منٹوں کم سے کم وقت میں لانے کیلئے ہر دور کے تازہ دماغوں نے کام جاری رکھا ہوا جو آئندہ بھی جاری رہے گا جس کا محور مرکز قدرت کے شاہکاروں کو دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے غور فکر ہے تو کلام الٰہی و اس کے عجائبات رہبر و رہنمائی ثابت ہوتے رہے ہیں ترقی و آسانیوں کے لیے کام کرنے والے اپنی اپنی ایجادات کی تاریخ حوالوں سے معزز معتبر نام ہوتے ہیں جن کے کام کے اعتراف میں ان کو مذہب ‘ ملک ‘ تہذیب ‘ زبان سمیت ہر طرح کے حوالوں سے بالاتر ہو کر یاد کیا جاتاہے ‘ چاہے ان کا تعلق جس بھی مذہب ‘ ملک ‘ رنگ و نسل ‘ زبان ‘ تہذیب سے ہو‘ تاہم ایٹم بم اور ایٹمی ہتھیار ایسی ایجادات ہیں جن کے حق اور مخالفت میں دلائل ‘ حقائق کے انبار لگائے جا سکتے ہیں تاہم جنگوں کا سرحدوں اور میدانوں سے نکل کر تمام تر انسانوں اور مخلوقات کو خطرات سے دوچار کر دینا اس کا خوفناک حقیقی پہلو ہے اسی طرح تخلیقات میں خوبصورت جذبوں ‘ احساسات کو شاعری کے رنگوں میں بیان کرنا سب سے حسین زبان ہے جو تمام مذاہب قوموں رنگ نسل تہذیبوں میں مشترک ہے تو ضرب المثل علم ‘ریاضت ‘ تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں ‘ صدیوں بڑی بڑی عمروں اوربار بار کے تجربات کو ایک دو جملوں میں بیان کر کے ساری بات سمجھا دی جاتی ہے تاہم برصغیر کے معاشرے میں جگت بازی بھی بطور فن اپنا وسیع وجود رکھتی ہے جس کے دلفریب انداز بھی ہیں اور چبھتے چبھتے ترنگ بھی ہوتے ہیں جن میں اختراع کو بالادستی بلکہ مکمل قبضہ حاصل ہوتا ہے یعنی جس چیز یا خیال کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ہے وہ بنا کر چند الفاظ یا جملے کی صورت میں زبان سے ادا کر دی جاتی ہے اور یہ ایک زبان ہے دوسری زبان تک سفر کے تسلسل میں مشہور ہو جاتی ہے ایسے ہی کرتب کو ہمارے اردگرد ’’کٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے یعنی کسی کی کٹ لگا دی جاتی ہے جیسے بچپن میں بچے کسی ایک کے کرتے یا قمیض کے پیچھے کھیل کھیل میں دامن پر کاغذ کو سوراخ کر کے یا گانٹ (گرہ) لگا کر پونچھ کا نام دیتے تھے اور پونچھ والے کو پتہ چلتے ہی اس کے غصے کا انجوائے کرتے تھے جس کی جدت کو ہاتھ ہلائے بغیر صرف زبان سے دوچار لفظ یا جملہ چھوڑ دینے کو کٹ کیا جاتا ہے ‘ جس کے حوالے سے آزاد کشمیر کی سیاست میں سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات ‘ موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر ‘ سابق وزیر خواجہ فاروق احمد نمایاں نام ہیں ‘ اور بھی بہت سارے بڑے بڑے نام ہیں جن کے اپنے اپنے انداز ہیں بیرسٹر سلطان محمود خالصتاً سیاسی ‘ اخلاقی حدوں کے اندر خوبصورت مزاح کے انداز میں ایسی بات کر دیتے ہیں مگر سردار سکندر حیات ‘ راجہ فاروق حیدر خان ‘ خواجہ فاروق احمد ایسے نمایاں نام ہیں جو اپنی کٹ کے ساتھ ایسے کیل کانٹوں کا اوجل سلاد بھی لگا دیتے ہیں جیسے مرغوں کی لڑائی کے ظالمانہ کھیل میں ان کے پنجوں کے ساتھ کیل کانٹے لگا دیے جاتے ہیں مگر کٹ میں زخمی ہونے کا نشان نہیں ہوتا ہے جناب سردار سکندر حیات نے حالیہ بیاناتی جھڑپوں کے دوران کٹ کا ہتھیار بہت دلچسپ اور نئی ایجاد کے ساتھ استعمال کیا جو سیاست اور سیاسی نظام کے زیر سایہ سرکاری نظام کے دفاتر میں بیٹھنے والوں کے مابین بطور خوشگوار گپ شپ موضوع بنا ہوا ہے اور وہ ’’مرغی کی ڈہوڈری ہے ‘‘ ڈہوڈری لفظ ہے یا ڈہوڈری ہے مگر یہ نئی اختراع ہے جو کسی بھی زبان کی ڈکشنری میں موجود نہیں ہے اور مقامی یا مادری زبانوں میں بھی دیکھا سنا نہیں گیا تاہم ایک مرحوم بابا کے متعلق ہے کہ وہ اولڈ سیکرٹریٹ اس کی تکہ سیخ کی طرح سیخ بنا کر بیچا کرتے تھے جن کے مخصوص گاہک ہوتے تھے تاہم اس کا راز بھی وہ اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں اور گاہک راز داری والے ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی میسر نہیں ہیں کہ ان سے پوچھا جائے اگرچہ کٹ لگانے میں نمایاں مقام والے تینوں نام اپنی تقریری انداز میں بہت مطابقت رکھتے ہیں کہ بہت سارے پہلوؤں پر ایک ساتھ بات کرتے ہوئے موضوع جملوں کو نامکمل اور بے ترتیب چھوڑ دیتے ہیں کہ کسی کو کچھ نہ سمجھ میں آئے یا پھر کچھ اور مقاصد ہوتے ہوں گے گو کہ سردار سکندر حیات نے مرغی کی ڈوڈری کے ساتھ اشارہ دیا ہے کہ یہ مرغی سے کاٹ کر گندگی میں پھینک دی جاتی ہے لہٰذا دیسی یا فارمی کا مسئلہ نہیں ہے بل کہ یہ ہے کون ہے جس کو بطورکٹ اس طرح متعارف کرانا چاہتے ہیں اور آج کل کسی کے ساتھ ہے مگر جس کے ساتھ بھی ہے اس پر غصہ نکالنے کی وہی کیفیت ہے جو گھر کے بھیدی پر ہوتی ہے مگر اس کی آج والوں کے ساتھ ڈوڈری جیسی پوزیشن دیکر فرازنگ ٹیکنالوجی کے ٹیسٹ جیسی مشابہت بیان کر دی ہے جس کی تحقیق متاثرین ہی بتا سکتے ہیں تاہم اس کیس میں ایسا لگتا ہے رپورٹ آنے سے پہلے جلا دی جائے گی یا اسے دبانے کیلئے جو کچھ ہوتا ہے وہ ہو جائے گا اگر ہوا تو کم از کم پانامہ یا اقامہ نہیں ہو گا کچھ نیا ہی ہو گا شاہد صرف انڈا ہی ہو ؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 131755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.