جاوید اقبال غوری
جن لو گو ں نے جنگ نہیں دیکھی وہ جنگ کو ولیمہ سمجھتے ہیں۔جیسا کہ فلموں
میں دیکھایا جا تا ہے۔جن لو گوں نے پاکستان اوربھارت کا کرکٹ میچ دیکھا ہے
وہ پاکستان اور بھارت کی جنگ کو کرکٹ میچ سمجھتے ہیں اور یہی ان کی سب سے
بڑی بھول اور غلط فہمی ہے۔پاکستان اور بھارت کا میچ جنگ جیسا نہیں ہے۔جنگ
اور کرکٹ میچ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔جنگ قطعی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کی
تمنا کی جائے ۔ماضی کی بات اور حالات مختلف تھے۔اس وقت نہ پاکستان اورنہ ہی
بھارت ایٹمی صلاحیت سے مالامال تھے اور اب تو اس صلاحیت میں پاکستان بھارت
سے بہت آگے ہے۔آج اس زمانے کے ایٹم بم ان سے ہزاروں گنا ذیادہ طاقت ور ہیں
جو کہ امریکہ نے جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر گرائے تھے ۔پاکستان
اور بھارت کی جنگ میں ایٹمی اسلحہ استعمال نہیں ہو گا اس کی کوئی گارنٹی
نہیں ہے۔اس لئے پاکستان بھارت کی جنگ میں ایشیا کی تباہی ہو گی اس بات کو
نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔بہت افسوس کی بات ہے کہ مودی سیاسی مفادات ووٹ
بینک اور اقتدار کی ہوس میں نفرت کا جنون پھیلا رہے ہیں اور نفرت اور جنون
میں گرفتار بھارتی میڈیا جنگ جنگ کا شور مچانے لگتا ہے۔وہ اس غلط فہمی میں
مبتلا ہیں کہ پاک بھارت جنگ بھی پاک بھارت کرکٹ میچ کی طرح ہو گی ،دلچسپ
تماشہ ہو گا اور یہی ان کی سب سے بڑی بھول ہے کیونکہ جنگ تو جنگ ہے کرکٹ کا
میدان نہیں ہے۔کرکٹ کے میدان اور جنگ کے میدان میں زمین آسمان کا فرق ہے
کرکٹ میچ ایک منافع بخش کاروبار ہے ہر میچ میں اربوں کھربوں کا بزنس ہو تا
ہے ۔جبکہ جنگ در حقیقت فائدے کا نہیں گھاٹے کا سودا ہے۔ صرف ایک دن کی جنگ
میں کسی کی ایک دن کی کمائی آگ اور بارود میں جل جاتی ہے۔جبکہ کرکٹ کے
میدان میں جب وکٹیں گرتی ہیں تو یہ علامتی نقصان ہو تا ہے جبکہ کرکٹ کے میچ
میں جب وکٹیں گرتی ہیں تو یہ حقیقت میں نقصان ہو تا ہے ۔کئی ماوں کی گود
اجڑتی ہے کئی بیوہ ہو جاتی ہیں بچے یتیم ہو جاتے ہیں بوڑھے والدین بے سہارا
ہو جاتے ہیں۔کرکٹ کے میدان کے قاعدے قانون ہوتے ہیں اسی طرح جنگوں کے بھی
قاعدے قانون ہو تے ہیں ۔جس طرح کرکٹ میچ کے قانون کا پاس کیا جا ئے تو اس
کی نگرانی کے لئے امپائر، لیگ امپائر ،تھرڈ امپائر اور میچ ریفری میدان میں
موجود رہتے ہیں لیکن جنگ میں قاعدے قانون کا کھلواڑ کیا جا تا ہے ۔ا س کی
نگرانی کے لیے کوئی امپائر یا ریفری میدان میں نہیں ہو تا ۔کرکٹ کے میدان
میں جیتنے والی ٹیم کو بھی انعام ملتا ہے اور ہارنے والی ٹیم کو بھی کچھ نہ
کچھ انعام ملتا ہے لیکن جنگ کے میدان میں جیتنے والی ٹیم کو بھی آنسووں اور
خون کے سمند ر سے گزرنا پڑتا ہے ۔جیت ہوتی بھی ہے تو آنسووں کے ساتھ ۔جیتنے
والا بھی اپنے آپ کو ہا را ہوا محسوس کرتا ہے۔کیونکہ جنگ تو پھر جنگ ہے یہ
کرکٹ میچ نہیں ہے ۔جنگ کے میدان میں فتح کا پرچم لہرانے کے لئے کئی جوانوں
کو جان دینا پڑتی ہے ۔ٹینک ،توپ، میزائل ،لڑاکا جہاز،گولے بارود،بندوقیں
سرحد مے دونوں طرف ہیں۔کرکٹ میچ میں ایک بات یقینی ہے کہ تماشائی کھیل سے
محفوظ بھی ہوتے ہیں اور محفوظ بھی رہتے ہیں ۔کوئی ایک آدھ بھٹکی ہوئی گیند
ہی سٹیڈیم میں آگرتی ہے۔جنگ تو پھر جنگ ہے توپ گولے بم تباہ کن بارود کس
گاؤں شہر ،بستی پر گرے کوئی گارنٹی نہیں سے سکتا ۔تباہی بربادی کے یہ سامان
ہیں سارے نہ کہ کرکٹ میچ کے گیند اور بلے ۔کیسی کیسی آباد بستیاں کھنڈر بن
گئی ہیں افغانستان ،عراق،شام اور یمن تک دیکھو پھر فیصلہ کرو، کیا پاکستان
اور بھارت جنگ برداشت کر سکتے ہیں؟
کرکٹ میچ سے دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈ کو کئی برسوں کی آمدنی ہو جاتی ہے
لیکن جنگ کی دلدل میں پھنس جانے والے ملک ترقی کے معاملہ میں کئی برس پیچھے
چلے جاتے ہیں۔جہاں تک بھارت کی بات ہے وہ پاکستان سے ہر لحاظ سے بہت پیچھے
ہے۔پاکستان اور بھارت فاعی و جنگی آلات زیادہ تر مغربی ممالک سے امپورٹ
کرتے ہیں تو پھر پاک بھارت جنگ کا کیا رزلٹ ہو گا فائدہ کس کو ہو گا اس جنگ
سے مغربی ممالک کے ہتھیاروں کے کارخانے خوب پیسے کمائیں گے ہم کیوں خود کو
برباد کر کے مغرب کی اسلحہ کی فیکٹریاں چلائیں ۔یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟اس
لیے ان حالات میں سرحد کے دونوں طرف امن پسند عوام کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا
چاہیئے۔
پاکستان پہلے دن سے جنگ نہیں امن کی بات کررہا ہے ایک طرف بھارت میں جنون
کا طوفان اٹھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی طرف سے ہوش مندی سے کام
لیا جا رہا ہے۔[
جنگ کو نہ کہیے
SAY NO TO WAR
اس طرح کے جملے اب سوشل میڈیا پرفیم بن چکے ہیں ۔امید ہے کہ بھارت بھی اس
جنگی جنون کو چھوڑ کر امن کی راہ اختیارکرے گا۔ |