اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبے سندھ میں جہاں تمام
ترادارے تباہی، بربادی اور بدعنوانی ، لاوٹ مار، اقربہ پروری، رشوت ستانی
کی تصویر بنے ہوئے ہیں وہیں سب سے معتبر اور با عزت و با وقار ادارہ بھی
انتہائی پستی، بدنامی اور عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے، محکمہ تعلیم سندھ
عرصہ گیارہ سالوں سے جس قدر کرپشن اور لوٹ مار کیساتھ بد انتظامی کا شکار
رہا ہے دنیا بھر میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی، کسی بھی قوم کی ترقی کا
دارومدار اس کی تعلیم و ہنر پر منحصر ہوتا ہے لیکن یہاں اہلیت، قابلیت کو
گویا گناہ سمجھا جاتا ہے اور اہل اور حقدار ملازمین کی جس قدرتزلیل کی جاتی
ہے شاید اس کی بھی کہیں کوئی مثال نہیں ملے گی، سابقہ گیارہ سالوں سے قائم
پاکستان پیپلز پارٹی کے وزرا اور سیکریٹریز ،ڈائریکٹرز، ڈی ای اوز نے کرپشن
، لوٹ مار، بدعنوانی جس قدر کی وہ کوئی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، سپریم کورٹ
کے حکم کے بعدایف آئی اے اور نیب وفاقی اداروں نے جب ان کا محاسبہ کیا اور
احتسابی عمل شروع کیا تو ایف آئی اے اور نیب کی ابتدائی رپورٹ نے کھربوں ،
نربوں رقوم کی کرپشن اور لوٹ مار کا انکشاف کیا ،بات یہی ختم نہیں ہوئی
کیونکہ خون میں رسی بسی حرام اب بھی دوڑ رہا ہے اور اب بھی حرام کھانے سے
باز نہیں آرہے ہیں، صرف دس فیصد ایماندار افسران موجود ہیں مگر انہیں کام
کرنے نہیں دیا جارہا کیونکہ حرام خور جانتےہیں کہ اگر انہیں کام کرنے دیا
گیا تو مزید ان کے کیس سامنے آجائیں گے ، یہاں اگر بات کی جائے کہ گزیٹیڈ
آفیسرز ایسوسی ایشن سندھ، اسکولز ایڈمنسٹریشن کیڈرمحکمہ اسکول ایجوکیشن کی
تباہی کا اصل ذمہ دار کون؟ تو فیصلہ آپ خود کیجئے!!کسی بھی عمارت کا
بنیادی ڈھانچہ ہو یا کسی بھی نظام ؛ انتہائی اہمیت کا حامل اور بہتری و
مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے، غیرپیشہ ور اورمفاد پرستانہ روز کے تجربات اور بے
کار کی ٹوٹ پھو ٹ اسے بے پناہ نقصان پہنچا کر اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی،
گزشتہ بیس سال میں یہی حال محکمہ تعلیم کا بھی ہو ا ہے، ریفارم سپورٹ یونٹ
کے نام پر شروع کئے جانے والے بقراطی ادارے نے گزشتہ بارہ سال میں اپنے بے
تکے اور احمقانہ تجربات کے ذریعے کرپشن ، تعلیمی بگاڑ، اقرباء پروری، سفارش
کے وہ ریکار ڈ قائم کیے ہیں کہ حکومت سندھ اربوں ڈالرز کے قرضے اور گرانٹ
وصول کرنے کے بعد بھی تعلیمی میدان میں اتنا پیچھے کھڑی ہے جتنی بیس سال
پہلے بھی نہیں تھی، ایسے ہی کچھ مکروہ ، جاہلانہ یہاں تک کہ مجرمانہ فیصلوں
میں سرفہرست وزیراعلی سندھ اور ورلڈ بینک کے منظور کردہ پلان کے برعکس،
مینجمنٹ کیڈر کو افسر شاہی کا اسے اپنے مفاد میں اس شرمناک طریقے سے نافذ
کرنے کی کوشش ہے ۔ سپریم کورٹ پاکستان کی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے، مسخ
شدہ پلان کے تحت افسر شاہی کےسابقہ پی سی ایس، پی سی ایس، پی اے ایس افسران
کا فیلڈ تعلیمی افسران کی نشستوں پر کوٹہ مقرر کردیا گیا نیز ان افسران کو
جو کہ تعلیمی انتظام کی پیشہ ورانہ ڈگری بھی نہی رکھتے ان کو پوسٹنگ سے لطف
اندوز ہونے کے لئے انہی کے بھائی بندوں نے اجتماعی مفاد کے لئے تنخواہ اور
گاڑی و دیگر مراعات کے علاوہ پچہترہزار سےدولاکھ روپے کے اضافی االاؤنس کا
فیصلے کیا گیا اب چونکہ یہ افسران نہ تو تعلیمی انتظام کی قابلیت و تجربہ
رکھتے ہیں اور نہ ہی جذبہ لیکن لاکھوں روپے کے اضافی الاوئنسز اور تعلیم
افسران کی سیٹوں پر پروموشن کی لالچ میں پہلے تو بطور تعلیمی افسر پوسٹنگ
کرا لیتے ہیں لیکن احساس برتری اور مطلوبہ معیار و صلاحیت نہ ہونے کی وجہ
سے ساتھ ہی ساتھ سیکریٹریٹ پوسٹوں کا بھی چارج رکھوا لیتے ہیں اس طرح مالی
و سروس مفاد کے ساتھ ساتھ یہ اسکے بھی افسر بنے ہوئے ہیں جس کے ماتحت ہیں ،
اس صورتحال سے جہاں ایک طرف قابل، تجربہ کار، صحیح حقدار لیکن موجودہ
صورتحال سے مایوس تعلیمی افسران کی شدید حق تلفی ہورہی ہے وہیں یہ کلرک اور
تپہ دار جیسے عہدوں سے ترقی پانے والے لاتعداد نان ایجوکیشن کیڈر افسران
تعلیم نظام کا بیٹرہ غرق کرتے ہوئے بدحال سرکاری خزانے کے نکھٹو ، نکمے اور
نااہل داماد بنے ہوئے اس پر سوار ہیں یعنی آج سندھ کی تعلیم کی صحیح
صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے معصوم طلباء تعلیمی نظام کی ایسی بس پر سوار ہیں
جنہیں ایسے ڈرائیور چلارہے ہیں جنہیں نہ تو ڈرائیونگ آتی ہے اور نہ ہی
انکے پاس لائسنس ہے، ایسی شرمناک صورتحال سوائے سندھ کے نہ تو پاکستان کے
کسی اور صوبے میں ہے اور نہ ہی افریقہ کے کسی پسماندہ اور کرپٹ ترین ملک
میں جس میں ایسے لوگوں کو تین گُنا تنخواہ پر تعینات کیا جائے جو نہ کام سے
واقف ہوں اور نہ ہی سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہوںلیکن ایٹمی طاقت کے ایک صوبے
سندھ میں مفاد پرست اور پیٹی بھائیوں کہ پالنے والی افسر شاہی کی موجودگی
میں یہ ممکن ہے، گزیٹیڈ آفیسرز ایسوسی ایشن (اسکولز ایڈ منسٹریشن کیڈر) ان
تعلیمی انتظام سے منسلک ایسے کوالیفائید افسران پر مشتمل ہیں جو کہ نہ
تعلیمی انتظام کی تعلیمی و یپشہ ورانہ قابلیت و تجربہ رکھتے ہیں بلکہ سپریم
کورٹ پاکستان کے وضع کردہ سروس کیڈر سینیاریٹی و پرومشن اصولوں کی تحت یہی
افسران تعلیمی انتظام کو لاگو کرنے کے لئے براہ راست اہل اور حقدار ہیں ان
میں براہ راست سندھ پبلک سروس کمیشن سے ابتدائی طور پر بھرتی کئے جانے والے
ہی نہیں بلکہ سینئر اساتذہ سے ترقی پا کر تعلیمی افسر بننے والے افسران بھی
شامل ہیں، موجودہ صورتحال میں سفارشی و بے شرم گھُس بیٹھیوں کا شکار ہونے
والے اصل تعلیمی افسران کے حقوق اور ان کی موجودگی سے پیدا ہونے والے
تعلیمی نظام کے بگاڑ و عملہ کی بے چینی، سرکاری فنڈز کا ضیاں کے بارے میں
بالخصوص ریفارم سپورٹ یونٹ کے کردار کے حوالے کی باربار با ضابطہ طور پر
اعلی حکام کو آگاہ کیا گیا لیکن بار بار احساس دلانے کے باوجود صورتحال
روز بروز بگڑتی جارہی ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ ملکی اور غالبا ًدنیا کی
تاریخ میں پہلی بار ایسے افراد کو تعلیمی افسران اور اساتذہ کو بھرتی ہونے
کی دعوت دی گئی ہے جن کا پیشی ورانہ ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں، خدشہ ہے
کہ سندھ حکومت کے تحت یقیناًاب ڈاکٹر اور انجینئرز بھی بنا ایم بی بی ایس
اوربی ای بھرتی ہوں گے، موجودہ مایوس کن صورتحال کے سبب اساتذہ تنظیمیں ہی
نہیں بلکہ گزیٹیڈ ایسو سی ایشن بھی احتجاج کا اعلان کرتی ہے جو کہ مندرجہ
ذیل مطالبات کے پورے ہونے تک جاری رہے گامینجمنٹ کیڈ ر کی موجودہ شکل کو فی
ا لفورختم کرکے غیرقانونی طور پر برآمد شدہ سابقہ پی سی ایس، پی سی ایس،
پی ایس ایس اور پی اے ایس افسران کو محکمہ تعلیم کی فیلڈ و انتظامی پوسٹوں
سے فوری طور پرہٹا کر ان کے کیڈر کے مطابق پوسٹ کیا جائے اور ان سے غیر
قانونی طور پر وصول کردہ کروڑوں روپے پر مشتمل انسینٹیو الاؤنس واپس ری
کور کیا جائےفوری طور پر نیب میں محکمہ کی جانب سے شکایت درج کرائی کی کس
طرح منظور شدہ سمری کو تبدیل کرکے من پسندریٹائرڈمنٹ قانون دو ہزار چودہ
متعارف کرائے گئے اور اس کے ذمہ دار افراد کو فوری طور پر قانون کے کٹہرے
میں لایا جائے، تعلیم کے انتظامی افسران کی پوسٹوں پر ترقی کا فائد ہ
اٹھانے والے افراد کی جگہ انہی پوسٹوں پربی پی ایس اٹھارہ، انیس اور بیس
گریڈمیں تعلیمی افسران کو ترقی دی جائے جو کہ کئی سالوں سے غاصبوں اور گھس
بیٹھیوں کی وجہ سے ترقی سے محروم ہیں، ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کالج ایجوکیشن
کا مینڈیٹ ہے پس اسے باقائدہ طور پر کالج ایجوکیشن سے منسلک کرکے سیکنڈری
اسکولوں کو مزید تباہی و بربادی سے بچایا جائے اور ایسے تمام ہائیر سیکنڈری
اسکولوں کو ختم کیا جائے جو محکمہ کی واضع پالیسی کے خلاف قائم کئے گئے ہیں
، ہائر سیکنڈری اساتذہ کی بجٹ تناسب سے انتہائی زیادہ اور غلط ترقیوں کے
معاملات کی انکوائری کے جائے نیز ان اساتذہ کو انتظامی کے بجائے تدریسی
پوسٹوں پر قانون کے مطابق ترقی اور پوسٹنگ دی جائے ایسے اسکولز جنہیں
کنسولیڈیشن پالیسی کے تحت ایک کیمپس قرار دیا ہے، میں سے اسکول ہیڈزگریڈ
سترہ، اٹھارہ کی پوسٹوں کو بالکل بھی ختم یا شفٹ نہیں کیا جاسکتا، اسکول
کیڈرز پرنسپلگریڈ انیس کی موجودگی میں اسکول کیڈرز کے ایسے ا فسران انہیں
اسکولو ں میں لیول ہیڈز کے طور پر کام کرنے کے اہل ہیں، ایک سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت اچھے ور بہترین چلتے ہوئے سیکنڈری اسکولوں کہ ہائر سیکنڈری
اساتذہ کی پوسٹنگ کی مدد سے غیر ضروری اور ناکام ہائرسیکنڈری اسکول میں
تبدیل کرنے سے باز رہا جائے، سفارش کی بنیاد پر اسکول کیڈر انتظامی افسران
کی جگہ تعیناف غیر انتظامی اور تدریسی عملہ کو اپنی اصل جگہ پوسٹ کیا جائے
حال ہی میںٹی ای او اور اے ڈی ای اوکی پوسٹوں کے لئے دیئے گئے سندھ پبلک
سروس کمیشن کے اشتہار کو فوری طور پر واپس لے کر پیشہ ورانہ قابلیت کی ڈگری
کی موجودگی اور تعلیم قابلیت کو ضرورت کے مطابق درست کیا جا ئے آر ایس
یوکو فوری طور پر بند کرکے لاکھوں روپے بٹورنے والے اپنے تئیں ما ہرین
تعلیم کو فوری طور پر فارغ کیا جائے، اس امر کی محکمانہ انکوائری کرائی
جائے کہ کس طرح ورلڈ بنک کی جانب سے کنسلٹنٹس نے کس طرح سیکریٹری تعلیم کی
آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو سندھ حکومت کے کنٹریکٹ ملازمین ظاہر کر
کے غیر قانونی توسیع حاصل کی جس سے سندھ حکومت کو لاکھوں روپے کا چونا
لگایا؟ سیکریٹری تعلیم آر ایس یو اور اپنے منظور نظر افسر کے اُوٹ پٹانگ
مشوروں پر دوسرے کیڈرز کے منظور نظر افراد کو فائد ہ دینے کے لئے اور محکمہ
تعلیم کا مزید ڈھانچہ بگاڑنے کے لئے ، اسکول ایڈمنسٹریشن کیڈرکی کسی بھی
پوسٹ کوتبدیلی کرنے یا نامزد کرنے سے باز رہیں، ان کی خود ساختہ دانشوری سے
محکمہ کا مزید بیٹر ہ غرق ہو رہا ہے، واضع رہے اگر کوئی افسر بظاہر روپے
پیسے کی کرپشن نہ کرے بلکہ جی حضوری، اپنے منظورِ نظر لوگوں کو فائد ہ
پہنچانے یا اپنی حماقتوں سے قوم کا پیسہ ضائع کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ
بھی اتنا ہی داغ دار جتنا کہ ایک کرپٹ افسر اسکول کیڈر کی انتظامی پوسٹوں
پر صرف اسکول کیڈر کے افسران کو میریٹ کے مطابق تعینات کیا جائے کیونکہ اب
محکمہ تعلیم کسی سرچ کمیٹی کے نام پر کسی نئے فلسفے یا ٹوپی ڈرامے کا متحمل
نہیں ہو سکتا، اسکول ایڈمنسٹریشن کیڈر کے افسران کے حوالے سےٹیئر فور
فارمولے کے تحت فوری طور پر محکمانہ کاروائی کر کے محکمانہ خزانہ کو بھیجا
جائے اور تاخیری ہتھکنڈے استعمال نہ کئے جائیں اسکول کیڈرز کی خالی پوسٹوں
پر فوری طور پر پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل افراد کی قانون کے مطابق بھرتی
کی جائے خا ص طور پر اسکول ہیڈز کی دو ہزار نئی پوسٹوں پر فوری طور بھرتی
کا عمل شروع کیا جائے۔ آئی ٹی دیٹا سینٹربشمول محکمہ تعلیم کے گزشتہ پانچ
سال کے تمام پروجیکٹس کی اثر انداز تشخیصی رپورٹ جاری کی جائے تاکہ غریب
عوام اچھی طرح جان سکیں کہ کس طرح عوام کے پیسے ریفارم اور ترقی کے نام پر
ضائع کیا یا لوٹا گیا ہے جس کا واضع ثبوت تعلیم میں بہتری کے بجائے ابتری
ہونا ہے، آئی بی اے ٹیسٹ کے ذریعے بھرتی ہونے والے کنٹریکٹ اسکول ہیڈز جو
شاندار کار کردگی انجام دے رہے ہیںانہیں فوری طور پر مستقل کیا جائے، حال
ہی میں انکشاف ہو ا ہے کہ محکمہ تعلیم کی سفارش اور منظوری کے بغیرمحکمہ
خزانہ سندھ کی بجٹ بک میں ہائر سیکنڈری اسکولز کی پوسٹوں اور وسائل میں ہوش
رُبا اور انتہائی مشکوک اضافہ شدہ اعدادو شمارموجود ہیں جبکہ ہائر سیکنڈری
اسکول اسکیم بری طرح سے فیل ہونے کی وجہ طلباء کا کالجز میں داخلہ کی
دلچسپی ہے ایسے تمام اعداد و شمار کی مکمل جانچ پڑ تال کرائی جائے اور اس
کے ذمہ دار و ں اور اس میں تعاون کرنے والے افسران کو کڑی سزا دی جائے صرف
ایسے ہائیر سیکنڈری اسکولز کو تسلیم کیا جائے جس کے قیام کی سفارش محکمہ کی
جانب سےپی ڈی اینڈ آر اور متعلقہ ڈائریکٹریٹ کی تصدیق کے بعد کی گئی ہے۔
محکمہ تعلیم سندھ میں ، اسپیشل سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری،
سیکشن افسر، ایکیڈیمک ٹریننگ اور دیگر سیکریٹیریٹ کی ٹیکنیکل پوسٹوں پر
اسکول ایڈمنیسٹریشن کیڈ افسران تعینات کئے جائیں تاکہ تعلیم دوست مناسب
فیصلوں میں مدد ممکن ہو، اسکول ایڈمنسٹریشن کے افسران کو مزید ایڈ منسٹریشن
ٹریننگ اعلی انتظامی اداروں سے کرائی جائے نہ کہ تدریسی اداروں سے، صرف
پیشہ و رانہ ڈگری یافتہ افراد کو ہی محکمہ تعلیم کے تدریسی اداروں اور
انتظامی عہدوں پر بھرتی اور تعینات کیا جائے، روشن خیال اور نوجوان تعلیم
یافتہ وزیر تعلیم ، خوشامدی افسر شاہی کی بے تکی ، خود غرضی پر مشتمل اور
بے سروپا علمیت و دانش سے خود کو بچاتے ہوئے اساتذہ اور تعلیمی افسران کو
اعتماد میں لیتے ہوئے ، تعلیمی بگاڑ کو درست کرنے کی جانب پہلا قدم اٹھاتے
ہوئے فوری طور پر اقدامات کیئے جائیں۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!! |