پروفیسر خالدحمید اپنے فرائض کی بجا آوری کے لئے
اپنی عادت کے مطابق بروقت تیار ہو کر کالج آئے، ابھی بیٹھنے اور سنبھلنے
بھی نہ پائے تھے کہ ناگہانی حملے کا شکار ہو گئے ، عظیم الشان تعلیمی ادارے
کی 133سالہ تابناک تاریخ استاد کے خون کے دھبوں سے آلودہ ہوگئی۔ زمین کی
پستیوں سے افلاک کی رفعتوں تک پہنچانے والا استاد اپنے ہی شاگرد کے چھریوں
کے پے در پے وار سہہ کر زمین پر گرا اور جان جانِ آفرین کے سپر د کردی۔
زمین لرز گئی، مادرِ علمی کے درودیوار سہم گئے، اساتذہ ششدر ، طلبا حیران ،عوام
پریشان ۔ الہٰی ! ایسی پستی، خدایا! ایسی بے حسی؟ بہاول پور ڈویژن کا سب سے
بڑا ، ایس ای کالج ( صادق ایجرنٹن کالج، واضح رہے کہ بہاول پور ریاست میں
انگریز کے دور میں قائم ہونے والے تعلیمی اور رفاہی اداروں کے نام بہاول
پور کے نوابوں اور انگریز حکمرانوں کے نام پر مشترکہ طور پر رکھے جاتے
تھے،)اپنی گراں قدر تعلیمی خدمات کی وجہ سے ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ اس
وقت یہاں چھ ہزار سے زائد طلبا وطالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، سوشل میڈیا نے ایشو کو ہاتھوں ہاتھ لیا،
ایک طرف خبر لوگوں تک پہنچ رہی تھی تو دوسری طرف معاملہ متنازع ہو رہا تھا،
سفاک قاتل کا مختصر بیان بھی گردش کرنے لگا، جس میں بتایا گیا کہ ’’وہ
اسلام کے خلاف بولتا تھا‘‘۔ جس نے سنا، جس نے دیکھا ، افسوس کیا مگر بہت سے
لوگ شکوک کی دنیا میں بھی اتر گئے، نہ جانے کہاں سے انہوں نے’ گستاخی‘ کا
معاملہ اخذ کر لیا۔ کون سی گستاخی، کس کی شان میں گستاخی؟ مگر جب معاملہ بے
لگام سوشل میڈیا کے ہاتھ میں ہو تو کون قابو کر سکتا ہے،جہالت سے کیسے بحث
ہو سکتی ہے، بے ضمیروں اور پتھر دلوں پر دلائل کہاں اثر انداز ہوتے ہیں؟
مقتول استاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اخلاقیات کے اعلیٰ مقام پر فائز
تھے، بابند صوم و صلوۃ اور دھیما مزاج رکھنے والے فرد تھے۔ طلبا کے ساتھ
انتہائی شفیق اور سرپرستی کا رویہ رکھتے تھے۔انگلش ڈیپارٹمنٹ میں اپنے
کولیگ اساتذہ کو طلبا کی بہبود پر کام کرنے کے لئے زور دیتے، اور کہتے کہ
انہیں تعلیم و تربیت کے ذریعے کم از کم ایسے شہری بنا دیں کہ چند برس بعدا
ٓنے والی عملی زندگی میں وہ معاشی لحاظ سے اپنی زیست کی گاڑی کو چلانے کے
قابل ہو جائیں۔ وہ احساسِ ذمہ داری کا مستقل اہتمام کرتے، بروقت کالج آتے،
پورا وقت دیتے اور طلبا کے ساتھ شفقت ومہربانی سے پیش آتے ۔ کسی مذہبی
الزام لگانے سے قبل یہ جاننا بھی فائدہ مند ہے کہ موصوف دس برس سعودی عرب
میں بھی گزار کر آئے ہیں۔ جس شخص نے دس سال اﷲ تعالیٰ کی واحدانیت کے مرکز
اور وجہ تخلیق کائنات ﷺ کے در پر گزارے ہوں ، اس سے کسی قسم کی ’گستاخی‘ کا
تصور کرنا بذاتِ خود گستاخی ہے۔ وہاں تو عمرہ وغیرہ کی صورت میں ایک چکر
لگا کر آنے والوں کی عبادت میں بھی یکسوئی ، خشوع وخصوع اور ٹھہراؤ پیدا ہو
جاتا ہے، اس کا ایمان بھی پختہ تر ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ ایک شخص اپنی
جوانی کے دس برس دنیا کے مقدس ترین مقامات پر گزار دے اور اس کے بارے میں
اس طرح کی بات کرنا تہمت سے کم نہیں۔
مذہبی تنگ نظری اور انتہا پسندی کے علاوہ تعلیمی اداروں میں ایک بہت بڑی
کشیدگی مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہے، ہمارے حکمران اور بہت سے روشن خیال طبقے
مخلوط نظام زندگی کو ترقی اور بقا کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔ مشرف دور سے
خواتین کو ترقی کی میراتھن دوڑ میں شامل کر کے روشن خیالی کی راہیں کھولی
گئیں، آزادی دے کر حدود میں رہنے کی تلقین کرنا دانائی کی علامت نہیں۔
صدیوں سے طلبا کی تعلیمی ترقی اور خدمات کا تعلیمی ادارے ایس ای کالج میں
اب مخلوط تعلیم ہے، جہاں ایف اے کے بعد ہی نوعمر طلبا و طالبات چار سال کے
لئے بی ایس کورس میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ یقینا مخلوط تعلیم کے حامیوں کی
تعداد بھی کم نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے نقصانات بھی بے شمار ہیں،
جو کہ آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، دانشوروں اور حکمرانوں کے نظریات ایک
طرف اسلام بھی ایسے ماحول کا کبھی حامی نہیں رہا۔ حالیہ سانحہ میں بھی یہ
بات سامنے آئی ہے کہ فیئر ویل میں لڑکیوں کے ڈانس وغیرہ کی ریہرسل ہو رہی
تھی، جس پر تنازع جاری تھا۔ اب ایسی محفلوں کو معمول بلکہ ضروری سمجھا جاتا
ہے، جو کہ نامناسب ہے ۔
قتل کے عوامل کو تلاشنا پولیس کا کام ہے، اﷲ کرے پویس اپنے زبانی دعووں کے
مطابق بہترین تفتیش کر کے معاملہ عدالت میں پیش کرے۔ اس صریح جاہلانہ اور
ظالمانہ اقدام کے محرکات کیا ہیں؟ قاتل کے اس فیصلے کی تائید و حمایت اور
کن طلبا نے کی ہے؟ کون سے غیر طلبا عناصر اس کی پشت پر ہیں؟ یہ سارے کام تو
پولیس کرے گی، مگر اس اقدام کے بعد اب جو خدشات سر اٹھا رہے ہیں، وہ اور
بھی بھیانک اور خطرناک ہیں۔ اگر ایک مادرِ علمی میں محترم و مکرم ہستی ،
استاد بھی محفوظ نہیں، ان کا اکرام نہیں، تو انجامِ گلستان کیا ہوگا؟ مذہبی
انتہا پسندی اور بزعمِ خود کسی کو مجرم قرار دے کر فیصلہ صادر کر دینا اور
اس پر عمل کر گزرنا مذہب اور ریاست دونوں کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اسلام اختلاف رکھنے اور اس کو برداشت کرنے کا قائل ہے، اس کے باوجود اپنے
ہاں مسلمان کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوتے، مخالفین اپنی تنگ نظری کی بنا
پر دوسروں پر الزامات لگا کر اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک
غیر متنازع استاد کو انتہائی اقدام کے ذریعے جاں بحق کردینا انتہائی قابلِ
مذمت اور قابلِ گرفت عمل ہے، اگر اس مقدمے کو ٹال مٹول کے ذریعے طول دیا
گیا اور کسی طریقے سے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے تو مستقبل تاریک ہو
جائے گا، جن لوگوں کی راہوں میں پلکیں بچھانا ضرورت ہو، ان پر ہتھیار
اٹھانا قبیح اور مکروہ فعل ہے۔ اب اساتذہ عدم تحفظ کا شکار ہوں گے، اب طلبا
مشکوک نگاہوں سے دیکھے جائیں گے، استاد اور شاگرد کی تاریخ کا یہ سیاہ دھبہ
شرمناک اور افسوسناک ہے، اب بہتری کا واحد اقدام فوری انصاف اور بہترین
منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ استاد کی جان محفوظ اور احترام قائم رہے۔
|