ہر شخص با اُصول ہے ہر شخص با ضمیر
لیکن اپنی ذات تک___ذاتی مفاد تک
حد سے زائد مزہبی رحجان نے معاشرے میں صبر ؤ برداشت کو ختم کر دیا ہے ہر
کوئی اپنے عقائد کے لئے ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہے
افسوس ناک رویہ ہے کہ
ایس ای کالج بہاولپور میں انگلش کے سینئر پروفیسر جناب خالد حمید صاحب کو
ایک طالب علم نے چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا ہے،جو خود اسلام کی ابدی
تعلیمات سے مکمل طور پر ناواقف ہے اسکے والدین کو کیا خبر تھی کہ ہمارا
بیٹا آج علم کا قاتل بن کر انکے نام دفن اور شرم و حیا کو داغ دار کر دے گا
پولیس نے قاتل کو گرفتار کر کے حراست میں لے لیا، کالج بند کردیا گیا
ایک جاہل ؤ کم عقل طالب علم نے پروفیسر کو قتل کر کے جو ہر چھوٹے بڑے, عاقل
ؤ بالغ, مسلم ؤ غیر مسلم, ملکی ؤ غیر ملکی ,دوست اور دشمن طاقتوں کے سامنے
پاکستان کا چہرہ رکھا ہے اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے اسکے تعلیمی و اسلامی
نظریاتی حدود کو پامال کیا وہ سوالیہ نشان ہے ؟
اُستاد کےخیالات قاتل طالب علم کے مذاہبی عقائد ,تعلیم ؤ تربیت, اخلاقی
قدروں کے خلاف تھے
یہ کس طرح اسکے دماغ میں نمایاں ھوۓ یہ لمحہ فکریہ ہے اہل علم ؤ دانش اور
اسلام کے لیے ؟
یہ عدم برداشت کا رویہ کب تک کبھی لاہور میں نویں کلاس کا طالب علم رضوان
اپنی ٹیچر شگفتہ کو صرف اس لیے قتل کر دیتا ہے کہ ٹیچر شگفتہ کا گناہ محض
اتنا تھا کہ اس نے صرف اسکی دوسری ٹیچر سے رضوان کی غیر اخلاقی تعلقات کی
شکایت کی تھی اور دوسری جانب یہ ویلکم پاڑئی کو بہانہ بنا کر شاگرد حسین
اپنے ہاتھوں سے استاد پروفیسر خالد حمید صاحب کو قتل کر دیتا ہے
سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات,آئین پاکستان اس طرح قانون
شکن بننے کا اختیار نہیں دیتا,
خود کو معراج کی بلندی پر لے جانا مقصود ہو تو پہلے دوسروں کو عزت کی بلندی
پر لے جائیں کیونکہ دوسروں کو عزت دینے سے ہی انسان کی اپنی عزت بڑھتی ہے
۔لیکن اس بات دل میں اترنا ضروری ہے اور یہ ہی میرے ملک پاکستان کی بد
قسمتی ثابت ہو رہی ہے
اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ آپ کے الفاظ
آ پکی تربیت، مزاج اور خاندان کا پتا دیتے ہیں اور بول چال میں آپکی آواز
کا بلند ہونا ادب کی کمی کو ظاہر کرتا ہے.
آپکے الفاظ زخم بھی بن سکتے ہیں مرہم بھی,اسی طرح آپکا رویہ کسی کو آپکا
دشمن بھی بنا سکتا ہے اور دوست بھی اس لیے میری خیال میں توجہ ؤ ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو اچھی گفتگو کا پابند بنائیں تاکہ
انسانیت ؤ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری پہچان بھی اچھی ہو .
اس ذمہ دار کون ہے, حکومت, تعلیمی ادارے, علم ؤ دانش کے منبر یا میڈیا اس
کی طرف متوجہ ہونے اور حل تلاش کرنے کا وقت ھے.
ہمارا دین اسلام تو صرف دین خیر خواہی ہے !
لیکن تعجب ہے کہ دین دار طبقہ اس فکر سے بے خبر ہے جسکی وجہ سے معاشرہ عدم
برداشت کی دلدل میں غرق ہوتا جا رہا ہے
ہم ایک دوسرے کے خیر خواہ نہیں اور دینداری کے دعویدار بھی ہیں،
استہزاء یہ کہ !
دوسروں کی دینداری پر سوال بھی اٹھاتے ہیں لیکن اگر ہمیں کوئی دیندار یہ
دینداری سمجھائے تو ہم حیوانیت پر اتر آتے ہیں
بےحسوں کے درمیاں رہ کر انسان اتنا بےحس ہوتا جا رہا ہے کہ اُسکی زندگی سے
مخلص دوست ؤ رشتے ختم ہوتے جا رہیں ہیں اور سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے
کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں صرف اور صرف محبت ؤ چاہت کے
سایے پلتے اور بڑھتے ہیں جب دنیا میں پیدا ہونے والا ہونہار اس کائنات میں
بکھرے علوم کو اپنے اندر سمونے کی خاطر اپنی ماں کی انگلی تھام کر جدوجہد
کے تمام امتیازات ؤ تقاضوں سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش ؤ خواہش کرتا ھے تو
براۓ کرم میری والدین سے گزارش ھے کہ ایسی درسگاہوں کی طرف رجوع فرماۓ جہاں
تعلیم ؤ تربیت, بچوں کی تزئین سیرت ؤ کردار, تعمیر مستقبل, اخلاقی ؤ کلامی
میں اعلی معیار, اسلامی تہذیب ؤ ثقافت کا حامل اور قرآن ؤ احادیث کے ساتھ
جدید عصری تعلیمی ماحول کلی طور پر فراہم کیا جاۓ تاکہ ایسے واقعات جنم نہ
لیں.
|