بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بسنت کی حقیقت پر روشنی ڈالیں؟
جواب: بسنت ایک غلط رسم ہے جس کا موسم اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اس
کی حقیقت یہ ہے کہ یہ خالصةً ہندوانہ تہوار ہے اور تاریخی حوالے سے یہ
تہوار ایک گستاخ رسول ہندو کی یاد میں ہندوؤں کی جانب سے شروع کیا گیا۔
چنانچہ کتب تاریخ میں ہے: ”یہ 1734سن عیسوی کا واقعہ ہے کہ لاہور کے ایک
ہندو ”حقیقت رائے باگھ مل پوری“ نامی طالب علم نے رسول اللہﷺ اور آپ کی
پیاری لخت جگر سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شان میں ہرزہ سرائی کی۔
یہ مغلیہ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا دور حکومت تھا۔ قاضی نے حقیقت رائے
کے اقرار جرم کے بعد سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ حقیقت رائے کو سکھ نیشنل
کالج کی گراؤنڈ علاقہ گھوڑے شاہ لاہور میں پھانسی دیدی گئی۔ اِس واقعہ پر
پنجاب کی تمام غیرمسلم آبادی نوحہ کناں رہی لیکن خالصہ کمیونٹی نے آخر کار
اس کا انتقام مسلمانوں سے لے لیا اور ان تمام لوگوں کو جو اِس واقعہ سے
متعلق تھے، انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا۔ پنجاب میں بسنت کا میلہ اِسی
ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے۔“ ہندوؤں نے حقیقت رائے کے اس واقعہ کو
تاریخی بنانے کےلئے اِسے بسنت کا نام دیا اور جشن کے طور پر پتنگیں اُڑانی
شروع کر دیں۔ آہستہ آہستہ یہ پتنگ بازی لاہور کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے
شہروں میں بھی پھیل گئی۔ یہ ہے بسنت کی حقیقت، اب اصل حقیقت جان لینے کے
بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایمانی غیرت کا ثبوت دیں اور اس سے احترزا
کریں۔
سوال: میری اولاد، میری جائیداد میں سے اپنا میراث کا حصہ مانگتی ہے کیا
میرے لیے ضروری ہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی جائیداد بطور میراث اپنے
بچوں میں بانٹ دوں؟
جواب:شرعا میراث اس مال وجائیداد کو کہتے ہیں جسے مرنے والا اپنے وارثوں کے
لیے چھوڑ جائے لہٰذا زندہ آدمی کی میراث نہیں ہوتی۔ اور جب زندہ کی میراث
ہوتی ہی نہیں تو بچوں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہی سرے سے غلط ہے۔ ہاں والدین
اگر اپنی رضا سے اپنی اولاد یا کسی کو اپنا مال یا جائیداد دینا چاہیں یا
اس میں سے کچھ دینا چاہئیں تو وہ اپنی زندگی میں دے سکتے ہیں اور یہ میراث
نہیں ہوگی۔ اور بعد از وفات اسے میراث میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
سوال:قبر انور سے آزان سنائی دینے والی حدیث کا حوالہ اور تفصیل درکار ہے؟
جواب: مشکوٰة شریف، صفحہ 538پر حدیث ہے کہ جن دنوں لشکر یزید نے مدینہ
منورہ پر چڑھائی کی ان دنوں تین دن تک مسجد نبوی میں اذان نہ ہوسکی۔ حضرت
سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے یہ تین دن مسجد نبوی میں رہ کر گزارے، آپ
فرماتے ہیں کہ نماز کے وقت ہوجانے کا مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا مگر اسطرح
کہ جب نماز کا وقت آتا قبر انور سے ہلکی سی اذان کی آواز آنے لگتی۔
سوال: آج غیبت ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے اس کے متعلق کچھ رہنمائی
فرمائیں؟
جواب: اس سلسلہ میں حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کا ایک واقعہ بیان کئے
دیتا ہوں امید کہ عقلمنداں را اشارا کافی است کے تحت ےہ کفاےت کرے گا۔
تذکرة الاولیا، صفحہ نمبر 41پر درج ہے کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمة
اللہ علیہ سے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے۔ حضرت حسن بصری نے اسی
وقت تازہ چھوہارے منگوائے اور ایک طباق میں رکھ کر انہیں اس شخص کے پاس
بطور تحفہ بھیجا اور کہلا بھیجا کہ میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے
میری غیبت کر کے اپنی نیکیوں کو میرے دفترِ اعمال میں منتقل کر دیا ہے۔ آپ
کے اس احسان کا بدلہ میں چکا نہیں سکتا، تا ہم یہ حقیر سا تحفہ قبول
فرمائیے۔ وہ شخص حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ کے اس سلوک کو دیکھ کر بڑا
شرمندہ ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی چاہنے لگا۔
خدا سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے!!!
سوال:1۔ کا قبر کے اوپر چڑھ کر بیٹھنے سے قبر والے کو تکلیف ہوتی ہے؟
سوال:2۔ ایک قبر میں یکے بعد دیگرے مردے دفن کرتے جانا یا یوں کہہ لیں کہ
پرانی قبر میں نیا مردہ دفن کرنا کیا اسلامی لحاظ سے درست ہے؟
جواب:1۔”مجمع الزوائد“ جلد 3 صفحہ 61 طبع بیروت میں ”معجم کبیر طبرانی“ کے
حوالہ سے حدیث پاک ہے کہ ترجمہ: ” رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو ایک قبر پر
بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اے قبر پر چڑھنے والے قبر کے اوپر سے اتر جا
تاکہ تو قبر والے کو ایذا نہ پہنچائے، جبکہ وہ تجھے ایذا نہیں دیتا۔“
2۔دوسرے سوال کا جواب یوں ہے کہ ”فتاوی تاتارخانیہ“، ”فتاوی امداد الفتاح “
اور ”فتاویٰ رضویہ“ میں ہے: ترجمہ: ”جب میت قبر میں بالکل خاک ہو جائے جب
بھی اسکی قبر میں دوسرے کو دفن کرنا ممنوع ہے، کیونکہ حرمت اب بھی باقی ہے،
اور اگر مزارات صالحین کے قرب کی برکت حاصل کرنے کی غرض سے انکی ہڈیاں ایک
کنارے جمع کر دیں، اسکے بعد دوسرے کو دفن کریں تو اب بھی ممنوع ہے، جبکہ
دفن کے لئے فارغ جگہ مل سکتی ہو۔“
سوال: کوئی اچھے سے اقوال زریں بتادیں؟
جواب: ٭سکون حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سکون کے حصول کی
تمنا چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔ سکون دینے والے کو ہی
سکون ملتا ہے، کسی کا سکون برباد کرنے والا سکون سے محروم رہتا ہے۔
٭بہتر انسان وہی ہے جو دوسروں کے غم میں شامل ہوکر اسے کم کرے اور دوسروں
کی خوشی میں شریک ہوکر اس میں اضافہ کرے۔
٭نیت بدل جائے تو نیک عمل نیک نہیں رہتا۔ انسان اندر سے منافق ہو تو اس کا
کلمہ توحید، کلمہ توحید نہ ہوگا ہر چند کہ کلمہ توحید وہی ہے۔
٭قرآن بیان کرنے والے اور سننے والے اگر متقی نہ ہوں تو قرآن فہمی سے وہ
نتائج کبھی نہیں پیدا ہوں گے جو قرآن کا منشاء ہے۔
٭خوشی کا تعاقب کرنے والا خوشی نہیں پا سکتا۔ یہ عطا ہے مالک کی جو اس کی
یاد اور اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر پر راضی رہنے سے ملتی ہے۔
سوال: وفات پا جانے والے کے لئے اصحاب رسول نے کن الفاظ سے دعا کی ہے کسی
حدیث کے حوالہ سے بتادیں؟
جواب: ”مصنف ابن ابی شیبہ“ جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 331طبع ھند میں ہے کہ”
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یزید بن مکفف کی نماز جنازہ پڑھی،
تو حضرت علی نے اس پر چار تکبیریں (نماز جنازہ) پڑھیں، پھر چل کر اس کے
قریب ہوئے پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا
ہے جو آج تیرے یہاں حاضر ہوا، تو تو اسے اسکے گناہ بخش دے اور اسکی قبر اس
پر فراخ فرما دے۔ پھر آپ چلے اور اسکے مزید قریب ہوکر یہ دعا کرنے لگے کہ
اے اللہ! آج تیری بارگاہ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا حاضر ہوا، پس
تو اسکو اسکے گناہ معاف فرما دے اور اس پر اسکی قبر فراخ کردے کیونکہ ہم اس
کے بارے میں سوائے بھلائی کے کچھ نہیں جانتے اور تو خود اس کے متعلق بہتر
جانتا ہے۔ |