ٍبسم اللہ الرحمن الرحیم
متن قانون توہین رسالت 295/C:
”جو کوئی عمداً زبانی یا تحریری طور پر طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ
اشارةً یا کنایةً نام محمد ﷺ کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے وہ سزائے
موت کا مستوجب ہو گا ۔“ یہ قانون وفاقی شرعی عدالت اسلامی جمہوریہ پاکستان
نے منظور کیا پھر اسے قومی اسمبلی پاکستان نے فوجداری قانونی (ترمیمی )
ایکٹ نمبر 3سال 1986ء کی صورت میں منظور کیا ۔
شرعی حیثیت:
یہ قانون قرآن مجید حدیث پاک واجماع امت سے ثابت ہے، جبکہ گزشتہ مذاہب کی
الہامی کتب توریت، انجیل، موجودہ بائبل وغیرہ میں بھی گستاخ کے لئے یہی سزا
بیان کی گئی ہے۔ جبکہ شرعی دلائل درج ذیل ہیں:قرآن مجید سے: ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ”بےشک جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ
تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت میں اپنے رحمت سے محروم کر دیا اور اُن کے لئے
ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔“حوالہ: قرآن مجید، سورہ احزاب، آیت: 57۔
پھر آگے فرمایا: ”وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں ،جہاں کہیں بھی پائے جائیں
پکڑ لئے جائیں اور وہ گن گن کر خوب قتل کئے جائیں۔“حوالہ: قرآن مجید، سورہ
احزاب، آیت: 61۔
احادیث صحیحہ سے: حدیث نمبر 1”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون ہے کعب بن اشرف کے لئے (
یعنی اسے کون قتل کرے گا) کیونکہ اس نے اللہ اور اسکے رسول کو اذیت پہنچائی
ہے تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، عرض کیا یارسولﷺ! کیا آپ پسند
فرماتے ہیں کہ میں اسے قتل کروں؟ فرمایا: ہاں چنانچہ انہوں نے اسے قتل کیا
پھر آپ ﷺ کو اطلاع دی۔“ حوالہ: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن
اشرف، حدیث: 4037، ترقیم فتح الباری
تشریح: کعب بن اشرف یہودی تھا اور یہودِ مدینہ نے نبی اکرم ﷺ سے معاہدہ کیا
ہوا تھا لیکن اس کے باوجود جب کعب بن اشرف نے گستاخی کی تو اسے قتل کرنے کا
حکم دیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ غیر مسلم گستاخ رسول کو بھی قتل کیا جائے
گا۔ نیز یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے کعب بن اشرف کی اذیت کی بنیاد پر اسے قتل
کرنے کا حکم دے کر درج بالا سورہ احزاب کی آیات کی تفسیر وتشریح فرما دی۔
حدیث نمبر 2 ”حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے ایک جماعت کو ابو رافع کی طرف بھیجا چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی
اللہ عنہ رات کے وقت اسکے پاس پہنچے وہ سو رہا تھا تو آپ نے اسے قتل کردیا
کیونکہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچاتا تھا حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں
میں چاندنی رات میں گر گیا میری پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی، میں نے پنڈلی کو
عمامے سے باندھ دیا اور چلا پس جب میں رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں پہنچا اور
آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: اپنی ٹانگ پھیلاﺅ۔ میں نے اپنی ٹانگ
پھیلائی تو آپﷺ نے ٹانگ پر اپنا ہاتھ پھیرا (میں ٹھیک ہو گیا ) گویا کہ
پہلے کوئی شکایت نہ تھی۔“ حوالہ: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن
اشرف، حدیث: 4038، ترقیم فتح الباری
تشریح: بخاری شریف کی یہ مرفوع متصل صحیح حدیث سورہ احزاب کی 57اور 61 نمبر
آیت کی تفسیر بھی ہے اور گستاخی رسول کا حکم واضح کرنے کےساتھ ساتھ عظمت
شان مصطفی بھی واضح کررہی ہے۔
حدیث نمبر 3”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح
کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا ۔ پس جب آپ ﷺ نے خود اتارا
تو ایک شخص حاضر ہوا، عرض کیا : بےشک ابن خطل (گستاخِ رسول) کعبہ کے پردوں
سے چمٹا ہوا ہے تو ارشاد ہوا اسے قتل کر دو۔“ حوالہ: صحیح بخاری، کتاب
الحج، دخول الحرم ومکہ بغیر احرام، حدیث: 1715، ترقیم العالمیہ
تشریح: نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر تمام قریش مکہ کو معاف فرما دیا
لیکن چند گستاخ مردوں اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن میں سے ایک ابن
خطل تھا جو کہ رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں خود بھی اور اپنی باندیوں سے
بھی گستاخی کرواتا تھا ۔ لہٰذا ابن خطل کے ساتھ اسکی دو باندیوں کو بھی قتل
کرنے کا حکم دے کر واضح کردیا گیا کہ اس جرم میں مرد اور عورت کے لئے یکساں
سزا ہے۔
حدیث نمبر 4”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مشرک
نے نبی ﷺ کی گستاخی کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کون ہے جو میرے دشمن کو قتل
کرے؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں یہ کام کرونگا۔ پس آپنے اس کو
للکار ا اور اسے قتل کیا۔“حوالہ:مصنف عبد الرزاق، جلد5 صفحہ: 307
حدیث نمبر 5ترجمہ: ”حضرت ابی برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں نازیبا گفتگو کی، تو میں
نے عرض کیا: اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟تو آپ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: یہ (قتل کی سزا) اس شخص کے لئے جو نبی ﷺ کی گستاخی
کرے۔“حوالہ: مستدرک حاکم، جلد 4، صفحہ 395۔
حدیث نمبر 6”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷺ
نے فرمایا جو مسلمان اپنے دین کو بدلے تو اس کی سزا قتل ہے۔“حوالہ: صحیح
بخاری، کتاب الجہاد، باب لاےعذب بعذاب اللہ، حدیث 2794، ترقیم العالمیہ۔
تشریح: مرتد اس شخص کو کہتے ہیں جو دین اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار
کر لے یا پھر کلمہ گو ہو اور اپنے آپ کو مسلمان کہے اور اس کے ساتھ کفر کا
ارتکاب کرے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس پر اسلام پیش کیا جائے اگر اسلام میں
واپس آجائے تو درست وگرنہ اس کی سزا قتل ہے لیکن عورت مرتد ہو جائے تو اس
کے لئے سزا قتل نہیں بلکہ اسے قید کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔
جبکہ گستاخ رسول کا ارتداد، ارتداد غلیظ (یعنی سخت ترین ارتداد) ہے۔ اس میں
مرد اور عورت دونوں کے لئے سزائے موت ہے۔
یاد رہے کہ شریعت میں ذمی (وہ غیر مسلم جو اسلامی ممالک میں ریاست کی اجازت
سے قیام پذیر ہے) کے مال جان کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہے اور جنگ میں عام
خواتین کا قتل ممنوع لیکن وہ ذمی یا وہ عورت جو گستاخی رسول کا ارتکاب کرے
اس کے لئے کوئی رخصت نہیں بلکہ وہ واجب القتل ہے جیسا کہ بالا دلائل سے
واضح ہورہا ہے۔
گستاخ رسول کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے متعلق احادیث:
اسلام کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی گستاخ رسول
جو کہ واجب القتل ہے کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن چونکہ
اسلام میں مسلمانوں کے قلوب واذہان میں نبی اکرم ﷺ کی محبت بھر دی گئی ہے
اور اسلام نے مسلمانوں کی تربیت اس انداز میں کی ہے کہ مسلمان چاہیے کتنا
ہی گناہگار کیوں نہ ہو ،اپنے آقا و مولا ﷺ کے بارے میں بے حد غیور ہوتا ہے
اور وہ گستاخی رسول کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا اگر کوئی مسلمان
کسی گستاخ کو محض گستاخی رسول کی بنیاد پر قتل کر دے اور ثابت ہو جائے کہ
اس نے محض گستاخی رسول کی بنیاد پر قتل کیا ہے تو اسلام اسے جرم قرار نہیں
دیتا ۔اس سلسلہ میں چند احادیث درج ذیل ہیں:
حدیث نمبر 7ترجمہ: ”حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہمیں
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ ایک نابینا کی ام ولد
(وہ لونڈی جس سے اولاد پیدا ہو جائے ) تھی جو نبی ﷺ کی گستاخی کرتی تھی اور
آپکے بارے توہین آمیز باتیں کرتی تھی۔ وہ (نابینا صحابی ) اسے منع کرتے تو
باز نہ آتی، اسے ڈانٹتے تو وہ ڈانٹ کو قبول نہ کرتی۔ چنانچہ ایک رات وہ
نبیﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے لگی تو انہوں نے چھرا لے کر اسکے پیٹ
میں کھونپ دیا اور اسے قتل کردیا صبح آپﷺ کو قتل کے متعلق بتایا گیا تو
نبیﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ
جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے میرا اس پر جو حق ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ تو
نابینا صحابی کھڑے ہو گئے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے ،گرتے پڑتے (آگے
آئے) حتیٰ کہ نبیﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور عرض کیا میں اس کا قاتل ہوں یہ آپکی
گستاخیاں کرتی تھی میں اسے منع کرتا تھا تو باز نہیں آتی تھی اور میں اسے
ڈانٹتا تھا یہ ڈانٹ ڈپٹ کی پرواہ نہیں کرتی تھی اور میرے اس سے دو بیٹے ہیں
جو موتیوں کی مانند ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی۔ گزشتہ رات آپﷺ کی
گستاخیاں اور توہین آمیز باتیں کرنے لگی تو میں نے چھرا لے کر اس کے پیٹ
میں گھونپ دیا اور میں نے چھرے کو زور سے دبایا حتیٰ کہ میں نے اسے قتل کر
دیا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: خبردار گواہ بن جاﺅ کہ اس کا خون رائیگاں ہے
(یعنی اس کا قتل جرم نہیں اور اس میں قصاص ودیت بھی نہیں )۔ حدیث کی اسناد
کے متعلق تحقیق کرنے والی بہت بڑی شخصیت امام حاکم نے اس حدیث کو اپنی کتاب
”مستدرک حاکم“ میں درج کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ صحیح الاسناد حدیث
ہے۔“حوالہ: سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، باب فی من سب النبی، حدیث 4002،
واللفظ لابی داؤد۔
حدیث نمبر 8تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی ،تفسیر روح المعانی، تفسیر مدارک،
تفسیر مظہری اور دیگر کتب تفاسیر میں سورة نساء کی آیت نمبر 60کے تحت حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بشر نامی کلمہ گو اور ایک یہودی کے
درمیان جھگڑے میں رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو باہر نکل کر
بشر نے رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے پاس جا کر اُن سے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا تو یہودی
نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اس مقدمے کا فیصلہ قبل ازیں
حضرت محمد ﷺ میرے حق میں کر چکے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بشر سے پوچھا کیا یہ ٹھیک ہے؟ اس نے کہا
ہاں۔ تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ٹھہرو میں واپس آتا ہوں حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تلوار نکالی اور بشر کی گردن پر مار کر اسے قتل
کردیا اور فرمایا:”جو شخص اللہ اور اسکے رسول کا فیصلہ نہیں مانتا میں اس
طرح اسکا فیصلہ کرتا ہوں۔“ چنانچہ اس قتل کو بھی رائیگاں قرار دیا گیا۔
حوالہ: تفسیر روح المعانی، جلد 5، صفحہ 67
حدیث نمبر 9 ”حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیشک ایک یہودی عورت نبی ﷺ
کی گستاخی کرتی تھی اور توہین آمیز باتیں کرتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا
گھونٹ (کر مار) دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے قصاص یا دیت طلب نہیں
فرمائی۔“حوالہ: سنن ابوداؤد، کتاب الحدود، الحکم فی من سب النبی، حدیث نمبر
3796، ترقیم العالمیہ۔
تشریح: درج بالا دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے کہ گستاخ رسول کو
اگر کوئی مسلمان غیرت اسلامی کی بنیاد پر قتل کردے تو یہ جرم نہیں بلکہ سنت
صحابہ ہے جس کی توثیق اللہ اور اسکے رسول نے فرمائی ہے ۔
اجماع امت کی رو سے:
دوسری صدی ہجری کے امام محمد بن سحنون، تیسری کے امام ابوبکر بن منذر
نیسابوری، چھٹی کے قاضی عیاض مالکی اندلسی اور ساتویں کے قاضی القضات امام
تقی الدین سبقی شافعی رحمہم اللہ ودیگر اکابر ائمہ اسلام اور مختلف صدیوں
کے مجتہدین اپنی تصنیفات میں تحریر کرتے ہیں کہ ”علماء اسلام اس پر متفق
ہیں کہ نبی ﷺ کی گستاخی کرنے والا اور آپ ﷺ کی توہین وتنقیص کرنے والا کافر
ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعید گستاخ رسول کے لئے وارد ہے اور امت
مسلمہ کے نزدیک گستاخ رسول کو قتل کرنے کا حکم ہے اور جو بھی ایسے شخص کے
کفر اور عذاب میں شک کرے وہ کافر ہے۔“حوالہ: الشفائ، جلد 2، صفحہ:190۔
بارہویں صدی ھ امام ابن عابدین شامی حنفی رحمة اللہ گستاخ کے متعلق اجماع
ذکر نے کے بعد فرماتے ہیں:”سید الاولین والآخرین ﷺ کی شان اقدس میں گستاخ
لعنتی کے متعلق صاحب ایمان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا جب تک کہ تکلیف دینے اور
مارنے کے بعد اسے قتل نہ کرے یا سولی نہ چڑھائے کیوں کہ یہی اسکے لائق
ہے“حوالہ: رسائل ابن عابدین، ج 2، ص 190 وفتاویٰ
امام مالک سے خلیفہ ہارون الرشید نے گستاخ رسول کے شرعی حکم کے بارے میں
سوال کیا تو آپنے فرمایا: ”اس امت کے نبی کو گالی کے بعد اس امت کو زندہ
رہنے کا کوئی حق نہیں جو انبیاء عظام کی گستاخی کرے اسے قتل کیا جائے
گا۔“حوالہ: الشفائ، جلد 2، صفحہ:196۔
تیرہویں ہجری کے ابن تیمیہ حنبلی نے بھی لکھا ہے:”اہل علم کا اجماع (اتفاق)
ہو چکا ہے کہ جو بھی نبی ﷺ کی گستاخی کرے اسکی حد (شرعی سزا ) قتل
ہے“حوالہ: الصارم المسلول، صفحہ: 31۔
اس طویل موضوع کو سمیٹتے ہوئے آخر میں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز
تابعی کا فیصلہ کن ارشاد سنن کبریٰ بیہقی و دیگر کتب کے حوالے سے پیش خدمت
ہے:”خلیفہ اسلام حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں گورنر کوفہ نے آپ کو خط
لکھا کہ ایک ایسے شخص کو کناسہ بازار میں سے گرفتار کیا گیا ہے جو آپکو
گالیاں دیتا ہے اور گواہی موجود ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ میں اسے قتل
کردوں یا اسے سخت سزا دوں پھر سوچا کہ آپ سے مشورہ کرلوں؟ تو سیدنا عمر بن
عبد العزیز نے سلام کے بعد لکھا کہ اے گورنر! اگر تو اسے قتل کرتا تو میں
تجھے قتل کردیتا میرا خط پہنچنے کے بعد اسے واپس کناسہ چھوڑ دو مجھے یہ بات
سزا دینے سے زیادہ پسند ہے اور یاد رکھو کسی انسان کو گالی نکانے والے کا
قتل جائز نہیں ماسوائے رسول اللہ کی توہین کرنے والے کے کیونکہ جب وہ توہین
رسالت کرتا ہے تو اسکا خون حلال ہوجاتا ہے۔“ حوالہ: سننن کبریٰ بیہقی جلد8
صفحہ 184 |