کراچی کی سڑکیں

تحریر:عظمی ظفر
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے ضمیر جعفری کی اس نظم نے سچائی پر سو فیصد اترتے ہوئے تاحال مقبولیت حاصل کی ہے،مگر آج درد دل رکھتے ہوئے اس میں جزوی ترمیم نثر میں موجود ہے کہ،کراچی کی سڑکوں پر سفر ہو رہا ہے۔بس آپ تصور کرتے جائیے اور سفر کرتے جائیے۔اپنی پتلی گلیوں کے اونچے نیچے رستوں پر بمشکل گزر کر ہم بڑی سڑک پر آتے ہیں اگر تو آپ کی چپل دوپٹی والی سروس یا ایرو سوفٹ کی ہے پھر تو ٹھیک ہے وگرنہ لاہوری چپلوں میں بہت ہی زیادہ سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ اب خدا جانے عمر کا تقاضا ہے کہ ہم سے چلا نہیں جاتا ان پتھروں پر، ورنہ تو ایسی حسینائیں بھی دیکھیں ہیں جو پینسل ہیل پہن کر ان ہی ٹوٹی پھوٹی اونچی نیچی سڑکوں پر کھٹ کھٹ چلتی چلی جاتی ہیں خدا جانے کون سی نادیدہ قوت انھیں خراماں خراماں کراچی کی سڑکوں پر چلاتی ہے وﷲ عالم۔

بڑی سڑک یا چوڑی سڑک کہنے میں تو پورا نام لے کر کہا جاتا ہے ورنہ دن کے بارہ بجے سے رات کے دوبجے تک وہ سڑک فٹ پاتھ مافیا ،ٹھیلے والوں، خوانچہ فروشوں، فقیروں سے آگے تک اوور لوڈ ہوتی ہے۔ مزید برآں موٹر سائیکل حضرات، گاڑی والوں کی گاڑیاں اور رکشہ برادران کے پارکنگ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بڑھتے بڑھتے وہ چوڑی سڑک پتلی گلی ہی نظر آتی ہے البتہ صبح صادق میں دیکھیں تو سڑک کی چوڑائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بڑی شاہراہوں کے موڑ کاٹیں کنارے کنارے ٹھیلے والے آج ہر شے سجائے کھڑے ہیں آپ کو بازار جانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
لنڈا بھی سڑک پر
برگر بھی سڑک پر
ہے سامان زندگی
میسر ہی سڑک پر

ایک زمانہ تھا جب نوجوان طبقہ سائیکلوں پر چند کتابیں کیرئر میں دبائے صبح کالج اور شام میں لائبریری کو جاتے نظر آتے ،آفس جانے والے مرد حضرات ٹفن بکس ہاتھ میں لٹکائے بس اسٹاپ پر نظر آتے، اکا دکا ڈبو کی دکانیں تھیں یا پان والوں کے کیبن تھے۔ جس کے آس پاس ناکام عاشق سوٹے مارتے نظر آتے ۔موٹر سائیکلیں بھی کم تھیں۔ فضائی آلودگی بھی ایسی نہ تھی کہ اب تو سگریٹ کے دھوئیں سے زیادہ گاڑیوں اور ٹرکوں کے دھوئیں ہی ٹی بی کا مریض بنا ڈالتے ہیں۔ اب تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے پاس موٹر سائیکل ہے گویا گیم شو میں ملنے والے موٹر سائیکلوں کی کراچی میں بارش برس گئی ہو اور ہر گلی سے پانی کے کین لے کر واٹر پلانٹ کی دکانوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ پانی والوں کے کاروبار ٹینکر مافیا سے زیادہ چمک اٹھے ہیں۔ اب اتنے پنکچر ٹائروں میں نہیں ہوتے جتنے جوانوں کے پانی سے بھرے کولر گیلن اٹھا اٹھا کر ہوگئے ہیں ۔

کس کی کمر میں چک آتی ہے، کسی کی ناف ٹلی تو کسی کا گردہ گیا۔سڑک پر طائرانہ نظر ڈالیں تو دور دور تک دھول مٹی، روڑے کنکر، کچرا تھیلیاں ہی تھیلیاں جا بجا بکھری ہوتی ہیں پہلے پہل تو ہم ’’پچی کاری‘‘کو ہی وہ نادر نمونے سمجھتے تھے جو پان والے حضرات سڑکوں کو اگلدان سمجھ کر نقش ونگار بناتے ہیں مگر جب مطالعہ رواں ہوا تو معلوم ہوا کہ پچی کاری تو لکڑی کے فرنیچر میں کی جاتی ہے جب کہ جو سڑکوں پر کی جاتی ہے وہ ’’پچ کاری‘‘ ہوتی ہے۔کھڈے تو اتنے ہیں کہ جہاں سڑک ہموار ہو تو وہ دکھنے میں اچھی نہیں لگتی اور خوامخواہ ہچکولے لینے کا دل کرتا ہے یا کھودنے کا دل کرتا ہے۔ شاید یہاں سے پانی نکل آئے مگر کچرے اور تھلیوں کے سوا کچھ نہیں نکلنے والا،کبھی کبھی دل یہ بھی کرتا ہے کہ !
بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی

والے دور میں چلے جائیں جہاں سڑکیں کشادہ تھیں البتہ پرفیوم والوں کی اتنی دکانیں نہیں تھیں کہ ہم ایسی سڑکوں پر گزر بسر کرتے ۔جہاں جگہ جگہ ٹم ٹم والے گھوڑے اپنا جانوری حق رکھتے ہوئے سڑک پر گندگی کرتے جائیں اور ہمارا سانس لینا محال ہو جائے۔ ویسے یہ کام اب جگہ جگہ مچھلی فروشوں نے ٹھیلے کھڑے کرکے شروع کردیا ہے یا پھر اگر کچرے سے بھرا ٹرک ٹریفک میں ہمارے ساتھ ہی پھنس جائے تو جہان فانی سے قبل از وقت کوچ کرنے کا دل کرتا ہے۔

سڑکوں پر کھمبے کم اور زیادہ نظر آتے ہیں جن جھنڈوں کی بہار ہو ہم مہینے کا اندازہ انہی سے لگا لیتے ہیں۔کسی عقلمند نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر یہ ملک کبھی کھدائی میں دریافت ہوا تو موہن جوداڑو اور ہڑپہ کی طرح تہذیب وتمدن کی چیزوں برتن ہتھیار اور زیورات کے بجائے وال چاکنگ کے نمونے نکلیں گے جس سے یہ یقین آجائے گا کہ اس قوم کے جوان باہر ملک کے اقامے، ویزوں،گرین کارڈ کے انتظار میں اور مرد مردانہ کمزوریوں میں ختم ہوئے جب کہ عورتیں بنگالن مائی ،عامل جادوگر کے ایک تعویز سے سوکن کا کام تمام کرنے اور محبوب کو اپنے قدموں کو کرنے کے چکر میں گزر گئیں ۔کچھ عورتیں نئی ریسپیز اور فیشن کی دوڑ میں آگے نکل گئیں، جب کہ بچے پولیو کے قطرے ہی پیتے رہے اور بڑے نہ ہوسکے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے صاحب کہ اب بچوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چلو راستے میں دیواروں پر لکھے اشتہار پڑھ کر سناو اردو اچھی ہوگی،مگر آہ،آگے سے وہ سوال پوچھ بیٹھتے ہیں کہ نارمل ڈیلیوری پیکیج انتہائی سستا ہے آپریشن سے تو ایک پیکج میں بھی لوں گا!کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟بس یہ سفر ختم ہو جائے یہی اچھی بات ہے دعا مانگنی پڑتی ہے کہ اگلی دیوار پر کچھ نا لکھا ہو۔اگر پیٹرول ختم ہو جائے تو ادھر آپ پمپ پہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ادھر ما نگنے والے اور مانگنے والیوں کا رش لگ جاتاہے غلطی سے کسی کو خیرات دے دیں تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے کہ ’’تو نے اس کو دیا مجھے بھی دے‘‘ اور یوں سب کو دیتے دلاتے خود دوسروں سے ماگنے کی نوبت آجاتی ہے اور فقیروں سے بچے تو لٹیروں میں پھنسے والی بات ہوتی ہے۔

جن دنوں آفس جانے کے لیے بس کا بے زاری سے انتظار صبح اور بے چینی سے انتظار شام میں کرتے تھے وقت گزاری کے لیے اخبار کے اسٹال کے قریب کھڑے ہوجاتے اور گنتی کے چند اخبار تھے جن کی شہ سرخیاں پڑھ لیا کرتے تھے۔ دنیا جہان والوں کی خیر خبر وہاں سے مل جاتی ،بقیہ صفحہ نمبر والی خبروں کو بقیہ زندگی کے لیے چھوڑ دیتے ۔ورنہ مفت میں اتنی خبریں کون دیتا ہے پڑھنے کو ۔اب تو اخبارات کی تعداد اتنی زیادہ کہ ان کے نام ہی پڑھتے پڑھتے متعلقہ چنگ چی آجاتی ہے جس میں ہم ٹھس کر پھنس کر بیٹھ جاتے ہیں اور اب تو پیسے خرچ کرکے بھی اپنی دسترس میں موجود پنڈورا باکس کو ایک ٹچ سے کھولنے پر بھی خبریں نہیں پڑھتے باقی سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔

خدا خدا کرکے کنٹینروں کی رکاوٹوں،دھرنوں کیاحتجاجیوں سے بچ بچا کر منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں اور چٹھی لکھ دیتے ہیں کہ میں یہاں خیریت سے پہنچ گیا ہوں شام میں سلامتی سے واپس آجاؤں دعا کیجیے گا۔ اگر شہر بھر کے نیٹ سروس بند نہ ہوں تو میسج مل جاتا ہے باقی رہے نام اﷲ کا! ہم تو گزر ہی جائیں گے جانے سڑکوں کی قسمت اور حالت کب بدلیں گیں؟

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.