حامد نے سوچا کہ ایک دن تو سانولی سے جدا ہونا ہی ہے ،
کیوں نہ آہستہ آہستہ اس کی عادت ڈالی جاے اور ملاقات اور دیدار میں کمی لای
جاے۔
اس نے دوسرے کمرے میں رہنا شروع کر دیا ۔ پردے کے پیچھے سے بات چیت اور چاے
جب وہ کمرے میں رکھ جاتی تو پھر کمرے میں داخل ہوتا ۔
یہ تجربہ بھی عجیب ثابت ہوا۔ پیار تو کم نہ ہوا لیکن شکل بدل رہی تھی اور
ایک خوبصورت نیا احساس جنم لے رہا تھا۔
اسے سانولی کا آس پاس ہونے کا احساس ہی اچھا لگنے لگا ۔ اس کو دیکھے بنا
اور اس کی آواز سنے بغیر بھی صرف اس کی موجودگی کی اطلاع ہی سکون کا باعث
تھی ۔ شائد یہ امید کہ جب چاہے مل لوں ، کا قائم رہنا ، جدای کے احساس کو
کم کررہی تھی اور امید کے ساتھ پیار بدستور قائم تھا حالانکہ دائم نہ تھا ۔
اس کو دیکھنے اور اپنی پسند کے لباس اور انداز میں دیکھنے کے شوق کی شدت
میں کمی آئ اور محبت میں نمی آی لیکن نہ پیار میں کمی آئ نہ جدای کی غمی آئ
۔ نہ سانولی کے مزاج میں برہمی آئ نہ حامد کے پیار میں کمی آئ بلکہ ہلکی
آنچ والی گرمی آئ ۔
اور وہ تھوڑا تھوڑا عورت کے اندر پیار کے احساس کو کچھ کچھ سمجھنے لگا اور
لڑای کا امکان کم اور دھیمی آنچ والے پیار کا دم ، دم پکڑنے لگا اور محبت
کے لیے وقت کم پڑنے لگا۔
غیر موجودگی میں پیار کا تجربہ اور احساس والدین سے دوری کا بھی شدید ہوتا
ہے۔ اس طرح کے رشتوں کا احساس موت کے بعد بھی دو طرفہ قائم رہتا ہے۔
حامد اپنے کمرے میں غزل سن رہا ہے
زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا
تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے
ایک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے
|