خطہ زمین پر سب سے پہلا میلاد انبل

خطہ زمین پر میلاد النبی ﷺ کا پہلا جلوس شاہِ یمن تُبع الحمیری کی زیر قیادت نکلا

یمن سر زمین حجاز کا وہ قریبی ہمسایہ ملک ہے جس میں عجیب الفطرت حکمران پیدا ہوئے ان حکمرانوں میں سلیمان بن داﺅد علیہ السلام کے دور میں یمن کی حکمران ایک نہایت حسین وجمیل خاتون تھی جس کا نام بلقیس تھا اس کی قوم سورج پرست تھی جو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتی تھی جب سلیمان علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اپنے درباری پرندے ہد ہد کے ذریعے اس خاتون کو مکتوب تحریر فرما کر اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ملکہ سبا بلقیس اپنے مصاحبین کے ہمراہ سلیمانی دربار میں پہنچی اور کئی چیزوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگئی۔

ولادت رسول اکرم ﷺ سے چند ماہ قبل اسی ملک کے ایک عیسائی بادشاہ ابرہہ نے بیت اللہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا اس نے صنعاء شہر میں ایک کینسہ (عبادت خانہ ) تعمیر کر رکھا تھا تاکہ زائرین مکہ معظمہ میں واقع بیت اللہ کی بجائے اس عبادت گاہ میں آکر مناسک حج ادا کیا کریں۔ اہل عرب کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہیں یہ بات بڑی گراں گزری چنانچہ قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے موقعہ پا کر اس عبادت گاہ میں رفع حاجت کر دی اس پر ابرہہ کو بہت طیش آیا اور یہ ارادہ کر لیا کہ میں مسلمانوں کے خانہ کعبہ کو مسمار و منہدم کردوں گا۔ چنانچہ ایک بڑا لشکر لے کر وہ یمن سے جانب مکہ روانہ ہوگیا اس لشکر میں سپاہیوں کے علاوہ بڑے بڑے قد آور ہاتھی بھی شامل تھے جن کا پیشرو ایک عظیم الجثہ کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا ابرہہ نے مکہ شہر سے باہر مقام مزدلفہ پر پہنچ کر اہل مکہ کے جانوروں کو پکڑنا شروع کر دیا ان میں عبدالمطلبؓ کے 200 اونٹ بھی شامل تھے جب انہیں پتہ چلا تو وہ فوراً ابرہہ کے پاس آئے ، ابرہہ نے ان کا بڑا احترام کیا اور آنے کی وجہ پوچھی ۔ عبدالمطلبؓ نے بتایا کہ تم نے میرے جو اونٹ پکڑے ہیں وہ واپس کردو ، وہ بولا اے عبدالمطلبؓ مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ میں تو عنقریب خانہ کعبہ پر حملہ کر کے اسے مسمار کرنے والا ہوں مگر تم صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہو کیا تمہیں خانہ کعبہ کی فکر نہیں ؟ آپ ؓ نے ابرہہ کو جواب دیا یہ اونٹ میری ملکیت ہیں میں تو انہی کا مطالبہ کروں گا ۔ کعبہ اللہ کی ملکیت ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ ابرہہ یہ بات سن کر حیران تو ہوا مگر اس نے اونٹ واپس کر دئیے ، عبدالمطلبؓ نے واپسی پر یہ سارا ماجرہ قریشان مکہ کو بتایا اور مشورہ دیا کہ تم لوگ قریبی پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں پر چلے جاﺅ اور خود وہ باب کعبہ پر پہنچ کر بارگاہ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کی دعا کرنے لگے ۔ ابرہہ نے جونہی کعبہ کو مسمار کرنے کا ارادہ کیا ۔ جلال و جبروتِ الٰہی جوش میں آگیا پھر وقت کی کھلی آنکھ نے وہ عبرت ناک منظر دیکھا جب وادی محسر میں کھلے آسمان کی وسعتوں میں ننھے منے پرندوں ( ابا بیل) کے غول درغول نمودار ہوئے جنہوں نے اپنی چونچوں میں پکڑی ہوئی کنکریوں کو مسلسل موسلا دھار بارش کی طرح ابراہی لشکر پر برسانا شروع کر دیا یہ کنکریاں اتنی تیز تھیں کہ جس ہاتھی یا سپاہی پر گرتیں اس کے بدن کے آرپار ہو جاتیں۔ اس اچانک پڑنے والی آسمانی اُفتاد سے پورے لشکر میں کھلبلی مچ گئی ہاتھی چنگھاڑنے لگے اور فوجی بھاگنے لگے لیکن عذاب الٰہی سے بھلا کون بھاگ سکتا ہے ابرہہ معہ اپنے لشکر تباہ و برباد ہوگیا ، قرآن پاک کی سورة الفیل اس عبرتناک منظر کو یوں بیان کرتی ہے ۔
الم ترکیف فعال ربک........
ترجمہ:اے محبوب ﷺک یا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا، کیا ان کا داﺅ تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں ( غول) نہ بھیجے کہ انہیں کنکریوں سے مارتے تو انہیں کر ڈالا کھائی کھیتی کی پتی (بھوسہ ) سورة الفیل 5-1/
یہ سورة مکی ہے اس میں ایک رکوع 5 آیات 20 کلمے اور 96 حروف ہیں۔

حضور علیہ تحتیہ والسلام کی عالم آب و گل میں تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار چالیس سال پہلے یمن کے ایک بادشاہ تبع الحمیری نے بھی خانہ کعبہ کو مسمار کر کے اہل مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اسے اچانک ایک زبردست اور مہلک آسمانی بیماری نے آن لیا۔ تبع الحمیری یمن سے یہ جنگی مشن لے کر نکلا تھا کہ بیشتر علاقوں کو زیر نگیں کر کے اپنی سلطنت کو وسیع کروں گا چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے اپنا سب سے پہلے ہدف ( Target) مکہ معظمہ کو بنانا چاہا اس کے پاس ان گنت جنگی سپاہی ماہر نشانہ باز ، تیر انداز اور ہزاروں کی تعداد میں مشیر وزیر اور دیگر اراکین سلطنت موجود تھے بعد از مشاورت تبع الحمیری نے اپنا ارادہ بدل کر جنگی سفر کا آغاز یمن سے مصر کی طرف کیا جہاں پہنچ کر اس نے کئی علاقوں کو اپنے قبضہ میں لیا اور پھر بحیرہ الاحمر کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا وہ سر زمین حجاز کے مقدس شہر مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں داخل ہوا جب شہر کی حدود میں پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اہل شہر اس کے جلال و جبروت سے متاثر ہوئے اور نہ ہی اس کی آمد پر انہوں نے اس کا والہانہ استقبال کیا جب اس خلاف ِمزاج صورتحال کی بابت اس نے مشیران خاص سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس شہر میں چونکہ بیت اللہ موجود ہے جس کی خدمت کا فریضہ یہ لوگ خود انجام دیتے ہیں اور اس خدمت کو وہ بڑا اعزاز و اکرام سمجھتے ہیں اسی لیے وہ کسی بڑی شخصیت یا حکمران کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ مشیران کا یہ جواب سن کر الحمیری کو بے حد غصہ آیا وہ غضب ناک ہو کر گرجدار آواز میں بولا تو پھر میں ایسے کعبہ کو مسمار کردوں گا اور اس کے خدمت گاروں کو بھی قتل کردوں گا ، اس نے دیوانہ وار حملہ کرنے کا حکم دیا اس سے پیشتر کہ اس حکم کی تعمیل ہوتی اچانک تبع الحمیری کے بدن میں ایک شدید درد کی لہر اٹھی اس کا جسم لکڑی کی طرح اکڑ گیا اور پورا جسم جیسے حرکات و سکنات سے عاری ہو۔ شاہ یمن کی یہ بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر لشکریوں نے اپنی برہنہ تلواریں میان میں رکھ لیں ۔ گھوڑوں کی ہنساہٹ آہستہ آہستہ مدھم پڑتی گئی اور تیز اندازوں نے اپنے تیر ترکش کے اندر اتار لیے سارے ماحول پر جیسے سناٹا چھا گیا۔ تبع الحمیری کا درد میں لپٹا ہوا جسم ایک زندہ لاش کی مانند پڑا تھا ہر کوئی فکر مند تھا کہ اب کیا ہوگا؟ جوں جوں وقت گزرتا تشویش کا دائرہ پھیلتا جاتا کافی دنوں تک یہ لشکر شہر مکہ میں ہی پڑا رہا دنیا کو فتح کرنے کا سارا منصوبہ دم توڑ کر رہ گیا لشکر میں طرح طرح کی چہ مہ گویاں شروع ہوگئیں پھر ایک دن مشیران شاہی نے یہ فیصلہ کیا کہ شاہ یمن کے علاج کے لیے کسی حاذق حکیم کو تلاش کیا جائے چنانچہ کافی تگ و دو کے بعد کئی حکیموں کو بلایا گیا مگر ہر حکیم نے علاج سے معذوری کا اظہار کیا اور یہی کہا کہ بادشاہ کی بیماری عقل و فہم سے باہر ہے ۔ بعض نے کہا یہ بیماری جسمانی نہیں بلکہ آسمانی ہے اس کا علاج صرف واحدہ لاشریک کے پاس ہے ۔ جب ہر طرف سے نا امیدی کے کالے بادل چھانے لگے تو خوش قسمتی ایک دن کسی صاحب بصیرت حکیم نے چپکے سے آکر تبع الحمیری کے کان میں کہا ۔ اے شاہ یمن میں اس بیماری کا علاج صرف اس شرط پر کروں گا کہ میں جو پوچھوں اس کا سچ میں جواب دینا اگر غلط بیانی سے کام لیا تو یاد رکھو یہ خطرناک بیماری جلد تمہیں موت کے منہ میں دھکیل دے گی۔ بادشاہ کو امید کی ایک کرن دکھائی دی اور اس نے سچ کہنے کا وعدہ کر لیا۔ حکیم صاحب نے جو جو سوالات پوچھے بادشاہ نے انکا درست جواب دیا۔ دوران گفتگو جونہی تبع الحمیری نے حکیم کو کعبہ پر حملہ اور مکہ مکرمہ کو نیست ونابود کرنے کی بات بتائی تو حکیم صاحب ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور بلند آواز میں کہا بس بس شاہ یمن بس ۔ یہیں رک جائیے آگے کچھ مت بولیں۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جس نے تم کو اس بیماری میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا صرف یہی علاج ہے کہ فوراً اس خیال اور اپنے مذموم ارادے کو دل و دماغ سے نکال دو ، شاید تم نہیں جانتے کہ یہ عظیم گھر بیت اللہ کہلاتا ہے وہ مالک کائنات جو زندگی موت ،بیماری اور صحت کا مالک ہے وہ خود ہی اپنے اس گھر کا محافظ ہے آج تک جس نے بھی اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا وہ کسی نہ کسی آفت میں گرفتار ہوگیا ۔ یاد رکھو تم بھی ایک ایسے ہی جرم اور گناہ میں مبتلا ہو کر اس بیماری کا شکار بنے ہو حکیم صاحب کی یہ بصیرت آموز بات سن کر تبع الحمیری کے لاغر بدن میں گویا بجلی لہرا گئی اس کا رگ و ریشہ کانپنے لگا پیشانی پر پسینہ اور چہرہ پر ندامت و شرمندگی کے قطرے ٹپکنے لگے اس نے اسی حالت میں ارحم الرحمعین سے سچے دل سے معافی طلب کی اور اپنے ارادہ کو دل سے نکال دیا ۔ رب ذی الجلال کی رحمت خاص سے شاہ یمن کو صحت عطا فرما دی گئی پھر اس نے خود کو پاک و منزہ کر کے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور تمام اہل شہر کو چند دنوں کے بعد ایک عظیم الشان ضیافت میں مدعو کیا جس میں بلا تخصیص ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو دعوت دی گئی ان کاموں سے فارغ ہو کر تبع الحمیری نے اپنی عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نہایت قیمتی دیدہ زیب ، مرصع اور خوبصورت غلاف تیار کرا کے کعبہ پر چڑھایا اور اس کی عمارت کو خوب سجایا اس نے اظہار تشکر کے طور پر اللہ کریم کی بارگاہ عظیمیہ میں ہزاروں اونٹ کی قربانی بھی پیش کی مکمل صحت یاب ہونے کے بعد شاہ یمن کی باطنی حالت میں بڑی واضح تبدیلی آچکی تھی اسکا جارحانہ مزاج معتدل اور متوازن ہوگیا، تاہم اس نے اپنے جنگی مشن کو جاری رکھا مکہ سے روانہ ہو کر اس نے کئی علاقوں کو زیر تسلط کیا بالاخر جب وہ شہر یثرب(مدینہ ) پہنچا تو اہل یثرب نے دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ پناہ گاہوں میں محصور کر لیا یہ صورت حال کئی ماہ تک بدستور قائم رہی اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آیا اس نے اپنے مشیروں سے رائے طلب کی جس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اہل یثرب کے معزز لوگوں سے رابطہ کیا جائے چنانچہ یمنی فوج کا ایک وفد اہل یثرب کی با رسوخ شخصیات سے ملا، انہوں نے کہا ہم اہل یثرب مختلف نسلوں ، قوموں اور علاقوں کے باشندے ہیں اور ہم اپنے اوطان چھوڑ کر اس شہر میں اس لیے آکر آباد ہوئے ہیں کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یثرب سر زمین عرب کی وہ وادی ہے جہاں وقت کے آخری نبی ( ﷺ) مکہ سے ہجرت فرما کر آباد ہوں گے اور پھر اسی شہر کو اپنا دارالسکونت بنالیں گے چنانچہ ہم ایک عرصہ سے اسی نبی برحق ﷺ کی ذات گرامی کا انتظار کر رہے ہیں جب یمنی وفد کے ارکان نے واپس جا کر یہ بات تبع الحمیری کو بتائی تو وہ بے حد متاثر ہوا نبی آخر الزماں ﷺ کی آمد کا تذکرہ سن کر اس کا دل گداز ہوگیا اور آنکھوں میں اشکوں کی نمی ظاہر ہونے لگی اس کا دل اس خواہش سے مچلنے لگا کہ کاش وہ بھی اس برگزیدہ نبی کی زیارت کا شرف حاصل کر سکے حضور ﷺ کے اشتیاق زیارت نے اس میں ایک اضطراب کی لہر دوڑا دی وہ شب اس کی زندگی میں آنے والی سب سے مضطرب شب تھی جس کی صبح کو بیدار ہو کر شاہ یمن نے اپنے فوجیوں کے ہمراہ شہر یثرب کے گلی کوچوں اور بازاروں میں ایک بڑے جلوس کی شکل میں گھومنا شروع کیا یہ جلوس اتنی شاندار روایات اور نظم و ضبط سے شہر کے علاقوں میں گھوم رہا تھا کہ اہل یثرب ان کے ذوق و شوق عقیدت کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے ۔ تبع الحمیریبہ نفس نفیس الحانی اور سوزو گداز سے دل میں اتر جانے والے اشعار بلند آواز سے پڑھتے جا رہے تھے ۔ ذیل میں چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
شہدت علی احمدانہ

رسول من اللہ باری النسیم
ولد مدالی عصرہ

لکنت وزیرالہ وابن عم
وفرجت عن صدرہ کل غم

پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے ضیاءالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا یوں ترجمہ کیا ہے ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفےٰ ﷺ اللہ کے برحق رسول ہیں وہ اللہ جو ارواح کو پیدا فرمانے والا ہے اگر میری عمر آپ ﷺ کی تشریف آوری کے زمانہ تک باقی رہی تو میں ضرور آپ ﷺ کے چچا زاد بیٹے کی طرح ممدو معاون بنوں گا اور شمشیر بکف ہو کر آپ ﷺ کے دشمنوں سے ایسا جہاد کروں گا کہ آپ ﷺ کے تمام دلی غم دور ہو جائیں گے ۔

عالمی تاریخ کا یہ ایک حیرت کناں واقعہ ہے کہ ولادت مصطفےٰﷺ سے دس صدیاں پہلے میلاد کا ایک عظیم الشان جلوس شاہ یمن تبع الحمیری کی زیر قیادت اسی شہر میں تزک و احتشام سے نکالا گیا جس کے باسی نبی آخر الزماں ﷺ کی آمد کی آس لگائے ان کی راہ دیکھ رہے تھے ۔ تاریخی شواہد اس بات کی بھی شہادت پیش کرتے ہیں کہ یہ جلوس اتنا وجد آفرین تھا کہ حلاوت و عقیدت میں ڈوبے ہوئے اشعار کے علاوہ اس کے شرکا ء یا محمد یا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ایمان افروز نعرے بھی لگا رہے تھے ۔

مؤرخین رقمطراز ہیں کہ تبع الحمیری کے ہمراہ اس جلوس میں علماءفصحاءاور اہل علم کی ایک کثیر تعداد بھی شریک تھی ان میں سے علماء کی ایک جماعت نے بادشاہ سے یہ درخواست کی کہ ان کو اسی شہر میں مستقل قیام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ زیارت بہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سرفراز و فیض یاب ہو سکیں۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ میں خود بھی ایک سال تک یثرب میں قیام کروں گا ممکن ہے اس دوران آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مژدہ جاں فزا سن لوں ، مگر رب کائنات کو ابھی یہ منظور نہ تھا ابھی رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مسعود میں ایک ہزار چالیس (1040 ) برس باقی تھے، جب پورا سال گزر گیا تو شاہ یمن نے روانگی سے پہلے ایک مکتوب بحضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کیا اور ڈبہ میں بند کر کے شامول نامی ایک عالم کو امانتاً یہ کہہ کر دے دیا کہ اگر آپ کو یہ زیارت نصیب ہو تو میرا یہ عاجزانہ نامہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کر دینا ورنہ اپنی آنے والی نسلوں کو امانتاً منتقل کرتے رہنا حتیٰ کہ یہ اس خوش نصیب تک پہنچ جائے جسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہو ۔ تبع الحمیری کے مکتوب کا عکس درج ذیل ہے ۔

مکتوب محمد ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں جو خاتم النبین اور رسول رب العالمین ہیں تبع الحمیری کی جانب سے ۔

اما بعد !؛ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی کتاب پر ایمان لایا آپ ﷺ کے رب پر جو تمام جہانوں کا مالک و مولیٰ ہے میں ایمان لایا آپ ﷺ کے رب کی طرف سے ایمان اور سلام کی جو فضیلتیں نازل ہوئیں میں نے انہیں قبول کیا اگر میں نے آپ ﷺ کو پایا تو میں نے گویا نعمت حاصل کر لی اور اگر آپ ﷺ کو نہ پا سکا تو آپ ﷺ میرے لیے روز قیامت شفاعت فرما دیجئے اس لیے کہ میں آپ ﷺ کی اولین امت میں سے ہوں ۔ للہ اس روز مجھے فراموش نہ کیجئے گا کیونکہ میں نے آپﷺ کی اتباع تشریف آوری اور اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ یہ تاریخی خط شاہ یمن کی ہدایت کے مطابق شامول کی نسل میں مسلسل سفر کرتا ہوا ابو ایوب انصاری ؓ تک جا پہنچا تو ہجرت مدینہ پر یہ صدیوں پرانا راز کھل گیا جب ناقہ مصطفےٰ ﷺ نے اپنے گھٹنے ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے سامنے ٹیک دئیے اور یہی گھر آقا علیہ الصلوٰة والسلام کی قیام گاہ بنا کیونکہ تبع الحمیری کا وہ مکتوب 21 ویں پشت سے انہی کے پاس موجود تھا۔ جب یہ خط انہوں نے بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو حضور ﷺ نے علیٰ ؓ کو اسے پڑھنے کا حکم دیا تعمیلِ حکم ہوئی اور یہ خط سماعت فرما کر حضور ﷺ نے نہ صرف تبع الحمیری کا مسلمان ہونا قبول فرمایا بلکہ شفاعت کی عرضداشت بھی منظور فرمائی ۔ حضور ﷺ اس پیام محبت سے اتنے متاثر ہوئے کہ بے ساختہ زبان مبارک سے تین بار مرحبا باالاخ الصالح کے الفاظ ادا ہوئے یعنی میں اپنے صالح بھائی کو مرحبا کہتا ہوں۔ مذکورہ مضمون میں درج حقائق سے یہ ثابت ہوا کہ بعثت نبوی سے 1040 سال قبل شاہ یمن تبع الحمیری نے عقیدت و محبت میں ڈوب کر یثرب کی گلیوں بازاروں میں میلاد کا جو پہلا ارضی جلوس نکالا تھا اسی وقت اپنے ساتھیوں سمیت رسالت و نبوت پر ایمان لا کر ایمان اور اسلام کی دولت سے مشرف ہوگیا تھا اس طرح یہ تمام یمنی مسلمان سابقون والا وّلون میں شمار ہوں گے ۔ اللہ کریم ان خوش نصیبوں کی قبروں پر اپنی لاکھوں نعمتیں اور رحمتیں نازل فرمائے۔
سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61822 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More