تحریر۔شہلا نور
زندگی کی بنیاد عمل پر رکھنی چاہیے کیونکہ رد عمل کی سوچ اجتماعی عمل کو
بانجھ کر دیتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو ردعمل کے لیے کسی بڑے حادثے کا انتظار
کرتے ہیں حادثہ ہوتا ہے ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور پھر سوجاتے ہیں۔ایسی قوم
کو خواب غفلت سے پھر کوئی حادثہ ہی بیدار کر سکتاہے۔ ردعمل کا رویہ قوم کے
اعصاب و، ارادے شل کرکے رکھ دیتا ہے۔ نیز ردعمل کمزوری و مغلوبیت کی علامت
ہے۔۔
نبی کریم علیہ الصلوۃوالتسلیم کی مکی زندگی کا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ دور
انتہائی کٹھن رہا ہے۔ لیکن آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم باقاعدہ طورپر احسن
طریقے سے اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتے رہے۔ایک سے ایک رکاوٹ آپکی راہ میں
حائل کی گئی۔ ذہنی و خارجی تشدد اور تکالیف پہنچائی گئیں۔ صادق و امین کا
لقب دینے والی قوم پاگل و مجنون کہنے لگی عفت و پاکدامنی پر گواہ افراد
آپکو مقصد سے ہٹانے لگے خوبصورت مالدار لڑکیوں کی پیشکش کرنے لگے، اس سے
بھی بات نہ بنی تو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا قتل تک کی سازشیں کی
گئیں،اسکے ساتھ ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں پر ایسے ظلم
و ستم کے پہاڑ توڑے گئے جنھیں سن کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ بلال حبشی، خباب بن
الارت، عمار بن یاسر اور عثمان غنی وغیرہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین
نوجوان ہیں۔ بدلہ لے سکتے ہیں ظلم ڈھانے والے اپنے ہی آقا و رشتہ دار ہیں
جن کو اچھی طرح جانتے ہیں۔لیکن خاموشی سے سہتے جارہے ہیں کیوں؟؟؟ کیونکہ
رسول اکرم نور مجسم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی جانب سے ردعمل کی اجازت نہیں
بلکہ آپ علیہ الصلوۃ و التسلیم مصروف عمل ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم عمل
کرتے رہے مخالفین ردعمل دیتے رہے۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن پڑھکر
سنایا انھوں نے شاعری کا الزام لگایا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے توحید کی
دعوت دی انہوں نے شرک کا پرچار کیا آپ نے اسلام کی دعوت دی انہوں نے بت
خانے میں آنے کا کہا آپ نے معاہدے کیے انہوں ں نے عہد شکنی کی آپ حسن اخلاق
سے پیش آئے وہ ہتھیاروں سے سامنے آئے، اسلام پھیلتا رہا وہ روکنے کی کوشش
کرتے رہے پیغمبر اسلام و مسلمان عمل کرتے رہے اور قریش مکہ ردعمل دیتے رہے۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
پھر وقت نے ثابت کردیا کہ ''جیت ہمیشہ عمل کرنے والوں کی ہوتی ہے'' اور
ردعمل دینے والے ناکام رہتے ہیں۔ مگر افسوس آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم فقط
ردعمل دیتے ہیں جب کوئی انہونی ہوتی ہے حرارت ایمان کی چنگاری سلگتی ہے ہم
بیدار ہوتے ہیں، احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں پھر خاموش گستاخانہ خاکے ہوں،
برما شام فلسطین اور کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام ہو یا
نیوزی لینڈ کی مسجد میں نہتے مسلمانوں کی شہادت اور ان سب کے باوجود
دہشتگردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر ہی چسپاں ہو ان جیسے کئی معاملات میں جو
آئے دن رونما ہوتے ہیں قوم صرف ردعمل دیتی ہے۔ کیا ان واقعات و سانحات کے
سدباب کیلیے اقدامات کیے گئے؟؟ کوئی پالیسی، قانون سازی عمل میں آئی؟؟
دشمنان اسلام کی سازشوں کو بینقاب کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟؟ جب طوفان یا
سیلاب آنے کا خطرہ ہو تو حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں ہر ممکن کوشش کی جاتی
ہے کہ جان و مال محفوظ رہیں۔ آج مسلمانوں کے خلاف فتنے اور سازشیں سیلاب کی
مانند چلی آرہی ہیں وہ بھی متواترنبی کریم علیہ الصلوۃ و التسلیم نے پہلے
ہی اس کی خبر دے دی تھی
''حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتیہیں نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم ایک
بڑے گھر میں تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا کیا تم دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ
رہا ہوں؟؟ میں دیکھ رہا ہوں تمہارے گھروں کے درمیان قطرے (بارش کے) گرنے کی
طرح فتنے گررہے ہیں'' (بخاری: رقم الحدیث 1779)ففتھ جنریشن وار کے اس دور
میں ہم سب جانتے ہیں جنگیں صرف میدان جنگ میں ہی نہیں لڑی جائیں گی لیکن
اسکے باوجود ہم صم بکم عمی کی تصویر بنے ہوئے ہیں آج ہمیں زنگی و ایوبی کے
جذبہ و طاقت کی ضرورت ہے۔ جنکا خوف دشمانان اسلام کے سینوں میں رہتا تھا۔
اور جنکی عظمت کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا اب کوئی ایوبی نہیں بن سکتا؟؟
ایسا نہیں ہے کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تو اے ملت کے ستارو!! اٹھو اور میدان عمل میں آؤ۔۔۔کیونکہ
اﷲ کریم اس قوم کی حالت نہیں بدلتا یہانتکہ وہ خود حالت نہ بدلنے کی کوشش
کریں۔اپنی مذہبی اقدار کو زندہ کرو۔ یاد رکھو پاکستان کی بنیاد لاالہ الااﷲ
محمد رسول اﷲ ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسکی بقا و سلامتی
اسلام کے ساتھ ہے۔ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں جب تک مسلسل عمل نہ ہوہمارے
اسلاف نے جو انتھک محنت و جدوجہد کی ہمیں اسے آگے لیکر چلنا ہوگا۔اﷲ رب
العزت ارشاد فرماتاہے
اور اس کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑدیا
(نحل:92)
مسلسل عمل پر نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کا یہ ارشاد گرامی بھی رہنمائی
کرتا ہے کہ:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اس شخص کی طرح نہ ہوجانا جو
رات کو قیام کیا کرتا تھا پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا''(متفق
علیہ)اسلامی تعلیمات پر عمل کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ آج ہمارے نام
مسلمانوں والے ہیں مگر دلوں سے اسلام و پیغمبر اسلام کی محبت ختم کرنے کی
کوششیں کامیاب ہوتی جارہی ہیں کہ ہمیں مغربی کلچر و محبت پر فریفتہ
کردیاگیا ہے۔اور جب دینی محبت خطرے میں ہو تو اسکے نام پر بننے والے ملک کی
سلامتی خود خطرے میں پڑجائے گی ہمیں مذہب سے رشتہ پھر سے مضبوط کرنا ہوگا
اور ساتھ ساتھ مذہب وملک دشمن عناصر کو ہر محاذ پر بے نقاب کرنا ہوگا چاہے
سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک گلی محلے ہوں یا ہمارے اسکول کالج و یونیورسٹیز
ان سب کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہوگا فوج سرحد کی محافظ ہے لیکن اندر کی حفاظت
ہمیں خود کرنی ہوگی۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں |