عافیہ قَُوم۔ کی بیٹی ہے یا ملالہ

19مارچ 2019 کو عافیہ اس قوم کی بیٹی نہیں ہے کہ عنوان سے شاذیہ چھینہ نے ہم سب کی ویب سائٹ پر ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کو قوم کی بیٹی اور پاکستان کی بیٹی کہنے والے اتنا جان لیں کہ وہ امریکی شہری ہیں ، وہی کی پڑھی ہوئی ہیں ، وہی انکی کی شادی ہوئی ہے دہشت گرد تنظیموں سے اس کے روابط اور ان کی سہولت کارہیں افغانستان سے پکڑی گئی ہیں ۔

تو میں رائٹر صاحبہ سے ایک بات کہوں گی کہ اگر کوئی مجرم ہو یا پھر اس پر الزام ہو اور الزام کے بعد اس کے خلاف ثبوت پیش کیے جائیں تو وہ مجرم قرار دیا جاتا ہے ۔ان ثبوتوں کو مدعا بنا کر اگرآپ اپنے کالم میں پیش کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا کہ لوگ آپ کی زبانی کہی ہوئی باتوں سے زیادہ آپ کے پیش کردہ ثبوتوں کے تحت آپ کے آرٹیکل کو تحقیقی اور حقیقت پر مبنی آرٹیکل مانتے ۔

جہاں تک تعلق ہے کہ وہ امریکی شہری ہیں، وہی کی پڑھی ہوئی ہیں اور شادی بھی وہی کی ہے تو ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ وطن آ کر خدمت خلق کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں موجود ہے ان میں پاکستان کے نامور اور مشہورشخصیت ادیب رضوی، ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب اور جرمنی سے آنے والی غیر مسلم ڈاکٹر روتھ فاؤ قابل ذکر ہیں ۔

رہی بات طالبان سے تعلق اور ان کی مدد گار کی تو2003 میں بقول آپ کے عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کیا تو 2003 سے لے کر 2019 تقریبا سترہ سال بنتے ہیں 17سال تک رائیٹر صاحبہ کو تحقیق کے لیے 17 سال کا دورانیہ استعمال کرنا پڑا صرف یہ معلوم کرنے کے لئے کہ عافیہ طالبان کی پیداوار ہے ۔یا پھر طالبان نے عافیہ کی رہائی کی جب بات کی تو کالم نگار کو خیال آیا کہ عافیہ کا تعلق طالبان سے ہے آگے کالم نگار لکھتی ہیں کہ مذہبی جماعتوں کا کام عافیہ کو قوم کی بیٹی کہہ کر مذہب کارڈ استعمال کر کے صرف اور صرف ووٹ بٹورنے اور سیاست چمکانے کا کام سر انجام دینا ہے تو موصوفہ کے علم میں اضافے کے لیے بتاتی چلوں کہ عافیہ صدیقی کا علمی کیریئر و طرز زندگی پر مہربانی کر کے آپ مطالعہ کریں وہ اسی قوم کی بیٹی ہیں اور ان کے لیے ہر ایک شخص نے آواز اٹھائی ہے ہماری اقلیت برادری بھی عافیہ صدیقی کے حق میں کہتی ہے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی غیر ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو کیا سارے مرد اور خواتین جو بیرونی ممالک میں روزگار ،تعلیم اور رہائش کی غرض سے قیام پذیر ہیں وہ سارے کے سارے قوم کے فرد نہیں ہیں کیا ؟؟؟رائٹر عافیہ صدیقی پر بات کرتے کرتے برصغیر پر بات لے جاکر آرٹیکل کو مزید شک و شبہات میں ڈال دیتی ہیں انہوں نے برصغیر کی تاریخ کو اپنے کالم میں جس طرح بیان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو غلط کہہ رہی ہیں اور ان کے نظریات برصغیر کے تمام مسلم حکمرانوں کے خلاف منفی ہیں جس کا ذکر واضح اور صاف طور پر ان کے آرٹیکل میں موجود ہے انہوں نے ساتھ ہی غیر مسلم حکمرانوں کی بھی بات کی ہے وہاں میں ان سے معمولی طور پر متفق ہوں مگر پھر بھی موصوفہ کو کہوں گی کہ انہوں نے اپنے آرٹیکل کو منفی رخ دے کر آرٹیکل کی اہمیت سفر کردی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ عافیہ صدیقی اگر قوم کی بیٹی ہے تو پھر ارفع کریم ،مریم شہید اور ملالہ یوسف کہاں کھڑی ہیں ؟‏موصوفہ مہربانی کرکے ملالہ کی زندگی اور کارناموں پر آپکو مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ قوم کی بیٹیاں غدار نہیں ہوتیں اور ملالہ یوسفزئی غداری کی ایک مثال ہے ۔

10 اکتوبر 2013کو ڈان نیوز پیپر میں ندیم پراچہ صاحب نے ایک آرٹیکل ملالہ یوسفزئی کے متعلق لکھا ہے جس کا عنوان Malala:the real story with evidence ہے ایک اور بات بتانا چاہوں گی کہ ارفع کریم کی موت کی وجہ ہم جانتے نہیں اور عافیہ صدیقی کو غلط کہتے ہیں۔ عرفہ کریم رندھوا کا اس دنیا سے جانا حادثاتی تھا یا مکمل پلیننگ تھی ؟؟رائٹر کے مطابق مذہبی وابستگی کی اندھا دھند تقلید کرنے سے اسلام نے منع فرمایا ہے انسان کو انسانی اقدار اور اصول کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے تو میں ان سے یہ کہنا چاہوں گی کہ مہربانی فرما کر تحقیق کر کے اصل حقائق عوام کو بتانے والا صحافی ہی نیوٹرل اور سچا صحافی ہوتا ہے مندرجہ بالا جملہ تو آپ نے لکھ دیا مگر آپ نے اس پر خود عمل نہیں کیا خدارا عوام کے سامنے حق سچ کو پیش کیجئے ۔

حضرت علی کا ایک قول ہے کہ :
یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے
آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ عافیہ صدیقی چاہے امریکن شہری ہو ،ہے تو وہ اسی قوم کی بیٹی کیونکہ میرے مطابق بیٹیاں سسرال جاکر پرای نہیں ہوا کرتی وہ اپنی ہی بیٹی رہتی ہیں ۔۔۔

اور عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کیا یا پھر ایئرپورٹ سے ان کے تین بچوں سمیت اغوا مہربانی فرما کر اس پر دوبارہ تحقیق کیجیے گا ۔۔۔۔۔
 

Hameeda
About the Author: Hameeda Read More Articles by Hameeda: 25 Articles with 21004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.