برصغیر پاک و ہند میں اولیائے عظام کی تبلیغی جدو
جہد سے جس قدر دین اسلام کی اشاعت ہوئی مسلمان تاجداروں کی حاکمیت و غلبہ
سے نہیں ہو سکی یہ درست ہے مسلما ن حکمرانوں کے ساتھ جو علماء اور دانشور
یہاں آئے انہوں نے بھی اشاعت دین کی خدمات انجام دیں مگر خدا رسیدہ اولیائے
اکرام کی بات ہی کچھ اور ہے -
اسلام کی تبلیغ واشاعت کیلئے صوفیائے عظام کی مساعی و جمیلہ تاریخ کا ایک
روشن باب ہیں ۔لق و دق صحراؤں وسیع ، عریض بیابانوں ، فلک بوس پہاڑوں اور
زرخیر مواج دریاؤں کو عبور کرکے شرک و کفر کے گہواروں میں کلمہ حق بلند
کرنا اپنے نقوش قدسیہ کا سرمایہ حیات ہیں ۔مردان باصفا جہاں جہاں پہنچے قلب
و ضمیر کی کایا پلٹتے رہے اور دنیاکا نقشہ بدلتے رہے ۔ ان کی نقوش قدسیہ کی
چمک دمک آج تک ان کی شہادت دے رہی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ کبھی ملتِ اسلامیہ کا
سفینہ موجوں کی ستائش سے دوچار ہوا۔ انہی کی ناخدائی نے اسے ساحل آشناء کیا۔
حضرت سید غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مجدد اعظم ؒ،شیخ احمد سرہندی ؒ،
حضرت داتا گنج بخش، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، بابا فرید الدین گنج
شکرؒ ، پیر حافظ سید جماعت علی شاہؒ، محدث علی پوری ؒ، خو اجہ سید محمود
شاہ محدث ہزاروی ؒوحضرت اما مِ علی الحق شہید ؒو پیر سیّد مہر علی شاہ
گولڑوی ؒوخواجہ نور محمد مہا روی ؒو خواجہ سلیمان تونسوی ؒ کے کارنامے اس
حقیقت کا کھلا ثبوت ہیں۔ ڈیڑھ صدی قبل جب برصغیر پاک وہند فرنگ کے منحوس
سائے کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ انہی جوانان صفا کش نے گلشن کی نگہبانی کا
فریضہ سرانجام دیا۔
کچھ لوگ قدرت کاملہ کا عطیہ ہوتے ہیں اور قدرت مہربان ہو کر انہیں انسانوں
میں بھیجتی ہے ۔ یہی لوگ انسانیت اور شرافت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔انسانوں کو
دیکھ کر فرشتے رشک کرتے ہیں ۔ایسی نادر ، نایاب اور گراں قدر ہستیوں میں سے
ایک ہستی حضرت سیّد اولاد حسین نقوی قادری ؒ کی تھی ۔ آپ اس ملک کے لئے
تزکیہ اصلاح ِنفس اور ہدایت کا مینار تھے ۔خلق خدا کو زندگی و تابند گی
بخشنے والی کرن تھے۔ اس تاریک دنیا میں روشنی کی شمع تھے۔
آپ ؒاپنے وقت کے شمس الہند حضرت سید غلام نبی شاہ ؒ قدس سرہ العزیز المعروف
بودیاں والی سرکار ؒکے گھر 1928ء میں جلوہ فرما ہوئے آپؒ مادرزاد ولی تھے۔
فیضان نظر نے ولایت کو نکھار ا اور علم نے سنوارا ٓپ کے والد ماجد شمس
الہند حضرت سید غلام نبی شاہؒ قدس سرہ العزیز اپنے وقت کے عظیم، صوفی، سالک
اور قطب گزرے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے حضرت قبلہ عالم کو شاید صرف قوم کی رشد و
ہدایت کیلئے پیدا کیا تھا۔ دنیا سے کوئی غرض نہ تھی اور نہ اس سے کوئی تعلق
تھا۔ جس سے حضرت سید اولاد حسین ؒ بچپن کے وقت بھی اپنے ہم عمر بچوں سے
علیحدہ رہتے تھے ۔ ذکر و اذکار عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ۔احکام شریعت
کی پابندی سختی سے کرتے تھے۔ حسن اتفاق سے اس زمانے میں محدث اعظم پاکستان
حضرت علامہ مولانا سردار احمد بانی مدرسہ مرکزی دارالعلوم جامعہ رضوریہ
مظہر اسلام فیصل آباد(لائل پور)میں رونق افروز تھے۔ آپ کو انہی کے حلقہ درس
میں داخل کرا دیا گیا۔ آپ نے قرآن مجید باترجمہ اور فقہ تصوف کی چیدہ چیدہ
کتابیں پڑھیں ۔ تدبر فی القرآن سے شغف تھا اور طریقت سے فطری لگاؤ۔ مردان
حق کے تذکروں نے سوز دردوں کی آگ تیز تر کر دی اور یہیں سے جہاد باالنفس کے
مشکل ترین مرحلوں کا آغاز ہو گیا ۔ مگر یہ تو ظاہرکی بات ہے علم باطن کتاب
وسنت کے نور سے روشن ہو کر حقائق آشنا جاننے بلکہ دیکھنے کا نام ہے آپ تصوف
اور طریقت کی عظیم اور مکمل تاریخ آپ معتبر عالم دین تھے بلند پایہ طبیب
ہونے کے باوجود جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کو اپنا شعار بنایا دلائل
عقلی کی بجائے توجہ باطنی سے لوگو ں کی اصلاح فرمائی ذکرو مراقبہ کے زریعے
ہزاروں افراد کو شک و شبہات کی کیفیت سے نکال کر مقام یقین کی طرف، مجاز سے
حقیقت کی طرف اور کثرت سے وحدت کی طرف رہنمائی فرماتے رہے۔آپ طالبان حق کو
تزکیہ نفس ، صبر و توکل، کسب حلال ، حق گوئی ، خدا شناسی ، اور خدا ترسی کی
تعلیم دیتے رہے شریعت و طریقت کی تبلیغ آپ کو ورثہ میں ملی تھی آپ کوعلوم
ظاہری و باطنی میں کمال حاصل تھا تصوف کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہی تھی
اپنے انہی عوامل کی وجہ سے عوام میں اور خاص طور پر روحانی حلقوں میں آپ کی
شہرت اور قابلیت کے چرچے ہوتے ۔آپ لوگوں کو روحانی تربیت دینے اور خدمت خلق
کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے آپ صاحب مقام تھے تلوین کی منزل کو بہت پیچھے
چھوڑ کر مقام تمکین پر فائز تھے آپ کے فیوض برکا ت عظیم اور ہمہ گیر تھے جس
سے خلق خدا فیض یاب ہو رہی ہے آپ مسلق محبت کے علمبردار تھے اور سرورکائنات
ﷺ کے خلق عظیم کے وارث تھے اپنے مریدوں کو سالوں کی منزلیں دنوں میں طے
کرواتے اور نہائیت مختصر وقت میں لطائف خمسہ کی بیداری کے بعد ولائیت صغر ی
کی منزل تک پہنچا دیتے تھے آپ کو دنیا کے متعدد علوم پر دسترس کے علاوہ
مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا آپ لسانیا ت کے بڑے عالم تھے ۔ پنجابی ،
اردو ، پشتو ، سندھی ، فارسی ، عربی ، انگریزی ، ہندی ، عبرانی زبانوں پر
ملکہ حاصل تھا اسی وجہ سے آپ کو قرآن پاک ، تورات ، زبور، انجیل کے علاوہ
ہندؤں کی گیتا اور سکھوں کی گرنتھ صاحب پر مکمل عبور تھا ۔ اس طرح آپ کی
روحانی تربیت نے عوام کو مسخور کر دیا تھا حضرت سید اولاد حسین ؒاس میں کس
مقام پر فائزتھے ۔ ہم سب کی سمجھ سے بالاتر ہے چشم ظاہر نے تو اس قدر دیکھا
کہ علماء فضلاء کا ایک وسیع حلقہ آپ سے سیراب و شاداب ہوا۔ جوانی کا جوش
وخروش ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔مگر حضرتؒ نے شباب کی ساری زندگی
راہ ِ خدا اور تذکیہ نفس میں صرف کر دی۔ آپ شمس الہند حضرت سید غلام نبی
شاہ قدس سرہ کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے جانشینی کے بعد آپ کا
تمام وقت تبلیغ و تعلیم اصلاح تذکیہ نفس اور تلقین ذکر میں صرف ہوتا جو بھی
آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوتا اسے نماز اور ذکر کی خصوصی تعلیم فرماتے
انفرادی تلقین کے ساتھ حلقہ ذکر منعقد کرنے کا بھی خصوصی حکم دیتے ۔ جہاں
جہاں کہیں بھی اپنے ارادت مندوں کے ہاں تشریف لے جاتے وہاں مجلس ذکر کا
انتظام لازماً ہوتا چنانچہ ایک زمانہ سیلاب اشتیاق بن کر ان کی بارگاہ فیض
کی طرف اُمڈ آیا۔ شب وروز طا لبانِ نظر کی بھیڑ رہنے لگی اور غرباء و امراء
کی وسیع تعداد حلقہ بگوش رہ کر منزل آشنا ہوئی۔ اگر غور کیا جائے تو تکمیل
باطن کا ایک اعلیٰ مقصد تبلیغ دین ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اشاعت حق اور تذکیہ
قلب و روح ناممکن ہے ۔ وہ لوگ جو نفاست کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ کسی
اور کو ساحل آشنا کیسے کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تبلیغ دین کا حق اس کو
پہنچتا ہے ۔ جو خلوص کا پیکر ہو دنیاوی حرص سے بالاتر ہو۔ حضرت سید اولاد
حسین ؒنے صرف اہل اسلام کی ایک کثیر تعداد کو منزل مقصود سے روشناس نہیں
کیا۔ بلکہ ہزاروں غیر مسلم افراد کے دل میں بھی عظمت اسلام کی شمع روشن کی
جن میں بعض نے اعلانیہ اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ مرد مومن جوں جوں قرب کے
فاصلے طے کر تا جاتا ہے کہ کتاب سنت کے انوار اس کے رگ و پے میں سماتے جاتے
ہیں اس کے ظاہر باطن منور ہوتے جاتے ہیں اور اس کی عادات و خصائل بشریت کی
بجائے قدریت کی آئینہ دار بنتی جاتی ہے ۔ آپؒ اس مقام پر فائز تھے۔ یہاں آپ
کی چند عادات و خصائل نہایت اختصار سے پیش کی جاتی ہیں ۔ کتاب وسنت سے محبت
شرف ایمان دلیل ایمان بلکہ عین ایمان ہے ۔ آپ کا جیتا جاگتا ثبوت آپ ؒ کی
داستان حیات ہے ۔ آپ کا عشق وظائف تک محدود نہیں تھا۔بلکہ آتش سوزاں کی
حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ چنانچہ سرد ترین راتوں میں بھی گھر سے نکل کر
باہر جا کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہو جاتے ۔ حدیث پاک کی مدد سے ذکرِ
محبت کی ایک اہم علامت ہیں ۔ آپ کے دل میں خدا وند کریم اور حضور ؐ سے جو
والہانہ محبت تھی ۔ وہ آپ کی سرگرمی ذکر سے بھی ظاہرہے ۔آپ خود بھی غفلت سے
محفوظ رہے بلکہ جسے دیکھتے اسکی غفلت کا پردہ چاک کر دیتے ۔آپ کے عقیدت
مندآج بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حیران ہیں کہ خدایا یہ کیسا
مقبول شخص ہے کہ کسی وقت بھی اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ آپ بعض دفعہ اخلاق
کی تلقین کرتے ہوئے کہتے کہ
"کسی کا دل نہ دُکھائیں اس کا دل اسرار بوبیت کا محل ہے ــ"
جن لوگو ں کے دلوں میں شک ہوتا ہے قبول حق سے محروم رہتے ہیں جو شخص اﷲ
تعالی کو پہچان لیتا ہے اﷲ تعالی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں رکھتا ۔ اپنے آ
پ کو عبادت الہی کے لئے وقف کر دو لیکن جب تک عبادت پر یقین نہیں ہوگا
عبادت قبو ل نہیں ہو گی لوگو ں کے لئے غائبانہ دعا کر نا ان کی ملاقات سے
بہتر ہے کیونکہ اس سے ریا کے پیدا ہو نے کا خدشہ ہے
تعظیم و توقیر حضورؐرسالت مآب اور حب اہل بیت کے ضمن میں آپ کا کردار مثالی
تھا۔ اتباع شریعت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ احکام شرعی انسان کی فطرت کے
سانچے میں ڈھل جائیں اور اس سے بے تکلف خود بخود پاکیزہ افعال صادر ہوں ۔
آپ ؒ کی سیرت کے کئی درخشاں باب ہیں ۔آپ کی مجلس میں بڑے بڑے صاحبان جاہ و
جلال آتے مگر فقر وغیور کی ہیبت سے لب کشائی کی جرأت نہ کر سکتے اس کے
برعکس عاجز و بے کس قسم کے لوگ جو چاہتے عرض کر سکتے ۔ غریب و امیر سے
یکساں سلوک ہوتا۔لا علاج بیمار جن کے پاس بیٹھنے سے دوسروں کو گھن آتی تھی
۔انھیں ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے ۔ آخری ایام میں طبیعت کچھ ناساز رہنے
لگی اور بروز جمعرات 12ربیع الاول 27اپریل 1972 ء کو طریقت و معرفت کا
آفتاب عالمتاب ہزاروں افراد کو روشنی دیکر غروب ہو گیا ۔ اگلے روز نماز
جنازہ ادا کی گئی اور اتنا ہجوم ہوا کہ جتنا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے ۔
دیہات کے مشرق اور جنوب کے کونے میں نہایت سرسبز شاداب قطعہ زمین اس قطعہ
کے مغرب کے کونے میں کبھی کبھی آپ استراحت فرمایا کرتے تھے۔ وصال سے کچھ
روز پہلے ہی آپ نے وضا حت سے فرمایا تھا کہ یہ جگہ بہت اچھی ہے ۔ اسی جگہ
پر آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ وہاں روضہ مقدس پر نہایت حسین و جمیل گنبد
تیار کیا گیا ۔مغرب شمال کے کونے میں ایک خوبصورت مسجد ہے ۔ یہ آپ کے سجادہ
نشین صاحبزادہ سید فیض الحسن نقوی قادری کے حسن و سعی کا منہ بولتا ثبوت ہے
۔ امسال بھی آپ کا عرس مبارک 10، 11اپریل بروز بدھ ،جمعرات 2019 ء کو زیر
صدارت سجادہ نشین سید فیض الحسن نقوی قادری ، زیر قیادت انجینئر سید زین
الحسن نقوی قادری ، زیر نگرانی سید زعیم الحسن نقو ی قادری سیدانوالی مشرقی
کنگرہ روڈسیالکوٹ میں نہائیت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے-
پہلے روز شام 5:00 بجے مہمانان خصوصی سابقہ صوبائی وزیر جیل خانہ جات
چوہدری خوش اختر سبحانی ، ممبر قومی اسمبلی چوہدری ارمغان سبحانی ، میاں
فاروق نذیر ممبر انکوائری بورڈ جیل خانہ جات ،مرکزی سیکرٹری جنرل مشائخ
وعلماء کونسل ایس اے حکیم القادری ،سیکرٹری اطلاعات و نشریات پیرملک مظہر
حسین اعوان نقشبندی ،سید تطہیر الحسن گیلانی ، سید احمد حسن بخاری ، سید
جعفر حسین نقوی، سید سرفراز الحسن گیلانی ,سید امتیاز حسین ، سید علی
الصباح ، سید شیراز نواز ، چوہدری عنائیت اﷲ وریا ، سید غلام سرور نقوی،
سید عباد حسین نقوی ، چیئرمین یونین کونسل سید انوالی ملک محمد صدیق اعوان،
وائس چیئر مین سید خرم عباس ایڈ ووکیٹ ، چوہدری نوید ثناء چیئرمین یوسی
لنگڑیالی ،اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس جی ۔ایم گھمن عقیدت مندوں کے ہمراہ رسم
چادر پوشی ادا کریں گے تلاوت کلام پاک قاری محمد ارشد ضیاء ، نعت غلام
مصطفی قادری اور خطاب سابقہ وزیر اوقاف آزاد کشمیرو جانشین شیخ الحدیث
صاحبزادہ محمد حامد رضا کریں گے ۔ ختم شریف ہو گا جبکہ بعد از نماز عشاء
باقاعدہ محفل کا آغاز ہوگا سٹیج سیکرٹری کے فرائض ماسٹر جمیل احمد گورائیہ
ادا کریں گے تلاوت کلام پا ک زینت القراء قاری حبیب اﷲ چشتی اپنی پر سرور
آواز میں کریں گے جبکہ ثناء خوان مصطفی ﷺریحان حبیب سہروردی ،راجہ شہباز
حسین کیانی، علی حیدر قادری ،محمد ندیم بگا، احمد رضا قادری ، محمد عدیل
آفریدی نارووال ، نعت رسول مقبول ﷺ پیش کریں گے جبکہ خطاب انجینئر صاحبزادہ
سید زین الحسن نقوی قادری اور خصوصی خطاب علامہ محمد لیاقت سعیدی آف لاہور
کریں گے۔ 11 اپریل بعد از نماز عصر ملکی سلامتی ، استحکام پاکستان ، مقبوضہ
کشمیر کی آزادی اور عالم اسلام کے لئے سجادہ نشین کی دعا سے عر س مبارک کی
دو روزہ تقریبات اختتا م پذیر ہوں گی۔ |