سوکھے پیڑ کی ہری کوکھ

اس کا اور میرا غم ایک جیسا تھا۔اس لیے اکثر میں گھر کے آنگن میں آکر اس سے باتیں کرتی۔ ـ ہم دونوں کی باتیں کوٖیّی نہیں سن سکتا تھا اور نہ کسی کی سمجھ میں آسکتیں ۔ گھنٹوں گزرجاتے بنا لب ہلاۓ ،دکھ سکھ کہتے ۔لیکن آج اس کی اداسی کا رنگ گہرا غمگین تھا۔ اس کی سوکھی شاخوں پر لگے چیدہ چیدہ ہرے پتوں نے بھی اس کے رنگ میں کمی کی نہ اس کے غم میں جبکہ وہ تو چندہرے پتے اپنی سوکھی شاخوںپر لگنے سے ہی خوش ہوجاتا اور امید کے چراغ کے لو بڑھادیتا پھول لگنے کے سپنے اور پھل لگنے کے خواب بنتا۔ اس سوکھے درخت کی کہانی میں میری کہانی بولتی تھی۔میری شادی کو یہ دسواں سال تھا ،میری کوکھ بھی اس کی طرح سوکھی تھی۔ یوں بھی قہقہے اور ہنسی تو ہماری زندگیوں سے روٹھے ہوۓ تھے ،اداسی کی چادر ہی آنسو پونچھتی تھی۔ امید کی ٹمٹماتی ہوٖٖیّی شمع اندھیروں میں روشنی کا ہلکا سا دائرہ لگاتی تو کہیں ہونٹوں پر مسکراہٹ اور دل پہ گرتے آنسوؤں کو وقفہ ملتا۔

آم کا یہ سوکھا درخت جو اپنے آس پاس ہرے درختوں سے تھوڑا ہٹ کر کھڑ ا تھا صرف خزاں کے موسم میں ہی ان کا ساتھی لگتا اور بہار کے آتے ہی اس کو اپنی کم مائگی کا احساس ہوتا۔ جب گھر کے سب افراد آنگن میں لگے دوسرے دو درختوں کی چھاؤں میں چارپائیاں لگاتے، جب گھر کے بچے پینگیں لیتے اور ان پہ چڑھتے ، ہوائیں ان کے ہرے پتوں سے ٹکرا کر بہار کے گیت گاتیں پرندے بھی ان گیتوں میں حصہ لیتے ،تتلیاں ان کے سروں پر رکس کرتیں اور وہ حسرت سے سب کچھ دیکھتا لیکن ایسے میں اس کے وجود پر چند ہرے پتے اس کو یقین دلاتے کہ بہار مکمل نہ سہی امید بہار تو ہے۔

ویسے تو درختوں پر نیۓ سال کا پھل آتے ہی اماں جان کے طعنے تشنے سننے کو ملتے ہی تھے مگر آج تو اماں نےحد ہی کردی اماں شاکرہ بوا سے کہہ رہی تھیں ، ٌاس بانجھ درخت کو کاٹ ہی دیا جاۓ تو اچھا ہے یونہی آنگن کی جگہ گھیری ہوئی ہے نہ سایا ہے نہ ہی پھل پتا نہیں کس امید پر بڑے میاں کو اس بانجھ کی ہری کوکھ کی امید ہےٌ۔

میں نے کمرے کی کھڑکی سے اس کی طرف دیکھا اس کے آنسو بھی اس کے وجود کی طرح سوکھے پڑ گۓ تھے نہ جانے درختوں پر نیا پھل پڑنے اور گھر میں کسی ننھے مہمان کی آمد پر ہم دونوں کو اس خوشی میں شریک کرنے کی بجاۓ زہر سے لبریز تعنے اور حقارت کے نشتر کیوں لگاۓ جاتے، کیوں ہمیں بانجھ کہہ کر ہماری امیدوں کے چراغوں پر نفرتوں سے اٹی گرد آلود ہواؤں کا رخ پھیرتے ، ہمارے ادھورے وجود کے زخموں کو نوچ کر ان کو کیا ملتا تھا۔ ہمارے ناتواں سوکھے وجود ان طوفانوں کا مقابلہ کرتے کرتے اب تھکنے سے لگے۔

میں نے کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھا اندھیرے میں چاند کی روشنی اس سے گلے مل کر جیسے بین کر رہی ہو۔اب مجھ سے رہا نہ گیا میں کمرے سے نکل کر برآمدے میں آگئ ، اس کی آہیں ،سسکیاں خاموشی میں خاموش زبان کی ترجمان بن گئیں۔ ہم دونوں کے ایک جیسے دکھوں نے اور روحوں پر لگی ایک جیسی برچھیوں نے ہمیں ایک جیسی زبان دے دی تھی۔ میں نے اسی زبان کا سہارہ لیتی ڈوبتی آواز میں کہا ٌ تم فکر نہ کرو ، اماں سے میں بات کرونگی، چند پتے ہیں تو سہی پھل بھی لگ ہی جاۓ گا ٌ۔ یہ سنتے ہی اس نے قہقہہ لگایا اور اس کے بعد یکے دیگرے قہقہوں نے تو میرے جسم میں کپکپی طاری کر دی۔ پہلی بار ایسا تھا کہ وہ میرا مزاق اڑا رہا تھا، اس کے قہقہوں نے وقفہ لیا تو وہ گویا ہوا ٌجو اپنے لیۓ کچھ نہ کر پائی میرے لیۓ کیا کرے گی ۔ مجھے امید دلانے والی تیرے تو اپنے چراغ میں امید کے تیل نے کم وقت کی نوید سنادی۔ خدا وسیلہ کرتا ہے مگر حیلہ تو خود کرنا ہوگا۔ٌ میں تو ایک درخت ہوں نہ تم جیسی طاقت نہ قوت نہ ہمت، نہ ہی میرا علم اتنا نہ ہی عقل ، نہ تو اپنے وجود کے سوکھے پن کو ہرا کرنے کے لیۓ بھاگ دوڑ کرسکتا ہوں ، نہ یہ جان سکتا ہوں کے سوکھا کیوں ہوں اور نہ ہی ہرا ہونے کی ترکیب کرسکتا ہوں۔

نہ طبیب ہے نہ دوا ہے تو
کس امید پہ میں جیا کروں
مگامید ہے
تو دوا کرے ،میں دعا کروں

اس کے قہقہوں کی جگہ ہچکیوں نے لے لی جبکہ خلاف معمول میرے اندر کے اندھیروں کی جگہ روشنی نے لے لی تھی میں اسے چپ کراۓ بغیر کمرے میں آگئ کیونکہ اب مجھے اس کے لیۓ اور اپنے لیۓ عملا کچھ کرنا تھا۔
آج پھر بہار آیئ ہے بانجھ کے طعنے کے بغیر۔ادھوری نہیں بلکہ مکمل۔ میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا اب اس کے سوکھے وجود کی جگہ ہرا بھرا ،مکمل بہار سے کھلتا ہوا وجود تھا ، گہرے ہرے پتوں نے غم کے سب نشان مٹا دیۓ ۔ ہوائیں اس کے بھاری وجود سے اٹھکیلییاں کر رہی تھیں، پرندے چہچہا چہچہا کر مبارکباد ی کے گیت گا رہے تھے رکس کرتی تتلیاں اس کی نظر اتار رہی تھیں ۔

ادھر اماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ گھر میں چہک مہک تھی ۔ بانجھ لفظ نے ممتا کی تصویر اوڑھ لی، پلیٹ میں مٹھایئ کے ساتھ سوکھے درخت کا نیا پھل بھی تھا۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے اسے مبارکباد دی اور اس نے مجھے۔

azra faiz
About the Author: azra faiz Read More Articles by azra faiz: 47 Articles with 93248 views I am fond of writing stories, poetry, reading books.
I love to help and motivate the people who are for some reason helpless. I want to raise the vo
.. View More