تحریر۔۔نرجس بتول علوی
دھیرے دھیرے سویٹو بھی چوہدری کی محبت میں گرفتار ہوتی گی .وہ لڑکی جو ناک
پر مکھی نہ بیھٹنے دیتی وہ چوہدری کی ڈانت تک سن لیتی .دونوں کو ایک دوسرے
کو سمجھنے میں کافی وقت لگا. چوہدری اپنے معمول کے کام کرتا رہتا اور سویٹو
کو وقت نہ دے پاتا.یہ بات سویٹو سے برداشت نہ ہوتی کیونکہ چوہدری پہلے چند
دن سارا دن سویٹو سے بات کرتا اور سارا وقت سویٹو کو دیتا .اب سویٹو یہ
سمجھتی کے چوہدری شاید بدل گیا ہے جو مجھ سے بات نہیں کرتا .پہلے بھی تو
یہی چوہدری علی تھا جو میرے ساتھ صبح کرتا اور میرے ساتھ ہی اس کی شام ہوتی
.سویٹو اپنے آپ سے لگی رہتی .لیکن چوہدری علی کو معمول کے کاموں سے جیسے ہی
فرصت ملتی وہ سویٹو کو میسج کرتا ہے .لیکن سویٹو کا سارا دن کا غصہ آگ کی
طرح بھڑکا ہوتا اور وہ چوہدری کو بے رخی سے جواب دیتی اور ان دونوں کی
لڑائی ہو جاتی .اس طرح ہر رات کو یہ لڑ کر سوتے ہر صبح مناتے لیکن جس صبح
ان کی صلح نہ ہوتی تو شام کو ان کے دل موم ہو کر ایک دوسرے کے لیے بے قرار
ہو جاتے .ایک دوسرے کو گلے شکوے دے کر مان جاتے صلح کر لیتے .اب دونوں ایک
دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے لیکن نا جانے کیوں چوہدری ہر محبت کے جواب میں
کہہ دیتا ہم اچھے دوست ہیں .ایک دن سویٹو چوہدری کو کال کرتی ہے تو چوہدری
باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا میں اپنی گرل فرینڈ بناؤں گا جس سے بہت پیار
کروں گا .اسے اپنے ساتھ شوپنگ پر ساتھ لے کر جاؤں گا اور پھر ہمLong drive
پر چلوں گے .سویٹو نے اس کے جواب میں کہا کے ابھی تک نہیں بناء بنا لو نا
کس نے روکا ہے.چوہدری علی نے جواب میں کہا کے نہیں ابھی نہیں ملی آپ جیسی
لڑکی کی تلاش ہے .سویٹو اچھا جی .ایک دن چوہدری علی سویٹو کو صبح صبح اپنی
ایک تصویر بھجتا ہے .سویٹو اسے دیکھ کر شرارت سے جواب میں کہتی یہ کون ہے
موٹو کوجھو.یہ بات کی کرنی تھی کے چوہدری علی کی زبان کے سارے تالے کھل گے
.چوہدری علی سویٹو کی اچھی خاصی دھلائی کر دی اس نے سویٹو کو کہا کے آج کے
بعد کوئی تصویر نہیں بھجوں گا اور نہ ہی بات کروں گا اﷲ حافظ .سویٹو پریشان
ہو گی اور سمجھی کی شاید چوہدری نے پکا اﷲ حافظ کر گیا شاید یہ صرف وقت پاس
کر رہا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن سویٹو کی آنکھیں ایسے برسی جیسے ساون کے بادل
.شام ہوتے ہی محبت کے دیے پھر سے جلنے شروع ہو گئے. سویٹو بھی ٹکٹکی باھندے
چوہدری کے میسج کا انتظار کر رہی تھی .چوہدری اسی شام لاہور شوپنگ کرنے
جاتا ہے اور سویٹو کوایک گھڑی کی تصویریں بھجتا ہے اور سویٹو سے پوچھتا ہے
یہ گھڑی لے لو ں کیسی لگ رہی ہے لیکن سویٹو کو تو صبح کا غصہ تھا کہنے لگی
مجھے نہیں پتہ پہلے آپ میری پسند سے شوپنگ نہیں کرتے تھے لینی ہے تو لے لو
ورنہ نہیں .اس پر چوہدری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا میں نہیں لے رہا اور
چوہدری نے وہ گھڑی نہیں خریدی اور آج دن تک سویٹو کے دل میں یہ دکھ ہے کے
اس نے میری وجہ سے وہ گھڑی نہیں لی تھی .
سویٹو اور چوہدری کی پھر سے لڑائی لیکن دونوں پھر ایک دوسرے کو منا لیتے
ہیں .سویٹو چوہدری علی کی شوپنگ والی تصویر پر مر مٹی تھی .اس نے چوہدری کی
جب ان تصویروں میں ایسے کھو کے اس کی آنکھوں پر شاعری کر ڈالی ،میری آنکھوں
میں رہتی ہیں تیری بے خوف سی آنکھیں
مجھے یہ مار ڈالیں گی تیری بے رحم سی آنکھیں
مچلتی ہیں نگاہوں میں سمبھلنے پھر نہیں دیتیں
سیدھی دل پے لگتی ہیں تیری یہ تیر سی آنکھیں
پوچھوں گی نہیں تم سے نگاہیں صاف کہتی ہیں
مجھ ہی سے پیار کرتی ہیں تیری جھیل سی آنکھیں
محبت کر کے تم سے نہیں ہے خوف دنیا کا
زمانے پر تو کافی ہیں تیری یہ شیر سی آنکھیں
امانت ہیں یہ تیرے پاس بس نرجس کی امانت ہیں
انہیں میں زندگی سمجھو تیری رنگین سی آنکھیں
یہ غزل سویٹو نے چوہدری کو سنائی اور خوب داد وصول کی اس غزل کو سن کر
چوہدری بھی بے حد خوش ہوا.ایک شام چوہدری علی اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹی وی
اسٹیشن جاتا ہے اور وہاں بہت سی ماڈلز کے ساتھ تصویریں بناتا ہے .چوہدری
علی ان میں سے ایک فیس بک پر پوسٹ کرتا ہے .سویٹو جب صبح فیس بک اوپن کرتی
ہے تو وہ تصویر دیکھ کر بھڑک جاتی اور وہ تصویر چوہدری کو بھجتی ہے اور
کہتی ہے یہ کیا ہے چوہدری علی او یار کچھ نہیں مر گے ۔ (جاری ہے) ۔ |