جھوٹے مرد

تحریر: ساحر مرزا
جھوٹ بولتے ہو تم!
مجھ سے ہر بات چھپاتے ہو۔۔۔، خود باہر عیاشیاں کرتے ہو اور میں یہاں اس قیدخانے میں تمہارے ان بچوں کے ساتھ پابند رہتی ہوں۔
تم انتہائی گھٹیا انسان ہو!
جھگڑے کی آوازیں گلی میں دور تک جا رہی تھیں۔
حیرت کی بات تھی کہ اس جھگڑے میں آواز ایک ہی تھی۔
میمونہ خاتون ہمیشہ عامرمیاں کے ساتھ اسی انداز سے پیش آیا کرتی تھیں۔
عامر میاں ایک پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے اور بہت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی بہت نیک سیرت انسان تھے۔
شہر سے دور کہیں ملازمت کیا کرتے ہیں اور اوسطاً دو تین ماہ بعد گھر آتے ہیں۔
دونوں میاں بیگم میں یوں تو بہت سلوک ہے مگر اکثر و بیشتر میمونہ خاتون عامر میاں سے بدظن رہا کرتی ہیں۔
میں کہتی ہوں کچھ تو بتاؤ کیا کر رہے تھے اس قدر رات گئے دوستوں کے ساتھ؟
میمونہ خاتون خاصی برہم تھیں،کچھ اس قدر کہ آج بچوں کا لحاظ بھی اٹھ گیا تھا۔
اب خاموش کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں؟، جواب دیجئے مجھے۔
میمونہ خاتون ان کی خاموشی سے مزید غصہ ہوئے جا رہی تھیں ۔
بلآخر عامر میاں بولے، ’’وہ کچھ احباب کے ساتھ بڑے بازار تک گیا تھا‘‘۔
کیا آگ لگی تھی وہاں جو آپ بجھانے چلے تھے؟
بازار کیا رکھا تھا؟
کبھی ہمارے بارے میں سوچا!
ارے ہم تو اک زندگی اسی قیدخانے میں گزار چکے، اک ہمیں ہی رہائی نصیب نہ ہوئی۔
خود تو دوست احباب کے ساتھ عیاشیاں کر آتے ہیں۔
اور اوپر سے جھوٹ پر جھوٹ۔
کیجئے جو کرنا ہے آپ کو، ہم تو نہ روک سکے کبھی، ہوئے جو آپ بھی مرد، جھوٹے، دغا باز۔۔۔۔۔
اب میمونہ خاتون بولے گئیں اور ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ دھلانے کو سفلچی لے آئیں۔
لائیے جناب ہاتھ آگے کیجئے خادمہ آپ کی خدمت کو حاضر ہے!
میمونہ خاتون نے سفلچی آگے کرتے ہوئے طنز سے کہا
ان کی خدمتیں کرو اور صلہ ندارد۔
ہمارے لیے اس دنیا میں کیا رکھا ہے۔
میمونہ خاتون بڑبڑائے گئیں۔
جب کہ عامر میاں ازلی فطرت کے ہاتھوں مجبور خاموشی سے سر نیواڑے کھانا کھانے لگے۔
جب کہ پسِ منظر میں میمونہ خاتون کا بڑبڑانا جاری تھا۔
کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے میمونہ خاتون نے دیکھا خوان کے رومال کے اوپر اک ریشمی گتھلی پڑی تھی۔
کھول کر دیکھی تو کچھ روپے تھے، کچھ دل کو تسلی ہوئی مگر پھر سے غصہ چھا گیا۔
ہاں اب دے لیجیے رشوتیں، ایک تو اﷲ مارے نجانے اس دنیا میں یہ روپے کی قدر زیادہ کیوں ہے!
ہر شخص یوں سمجھتا ہے کہ بس روپے سے ہر معاملہ سیدھا ہو جائے گا۔
عامر میاں نے پھر سے غصہ زور مارتے دیکھا تو ذرا کسمسائے۔
بیگم جان!
انہوں نے بڑے پیار سے پکارا۔
جی بول دیجیے، میرے کان کام کرتے ہیں ابھی اس قدر دور نہیں کہ سن نہ سکوں۔
میمونہ خاتون کو ان کا یوں بلانا اچھا نہ لگا ۔
یہاں آکر بیٹھیے،کچھ کہنا ہے آپ سے۔
عامر میاں نے نرمی سے کہا ۔
میمونہ خاتون آکر پائنتی بیٹھ گئیں ۔
جی حکم صادر فرمائیے، فرمائیے۔
وہ کیا نام لیا تھا اس دن…… امروز، آپ کا بھتیجا، اس کی شادی میں شرکت کے لیے کپڑے بنا لیجیے اور تیاری کیجیے۔
پرسوں ہم جاتے ہوئے آپ کو ان کے یہاں چھوڑ کر ملازمت کے لیے جائیں گے۔
عامر میاں نے ذرا جھجھکتے ہوئے مدعا بیان کیا۔
اچھا۔
مگر پہلے تو آپ کہہ رہے تھے مت جاؤ۔۔۔
اب کیسی دریا دلی دکھائی جا رہی ہے، خیریت ہے نا!
میمونہ بیگم اچھنبے سے کہنے لگیں
جی، وہ۔۔۔۔۔۔۔، کچھ خاص بات نہیں
اپنے فہیم میاں کا لڑکا ہے، اپنے بچوں جیسی بات ہے
بس آپ تیاری کیجیے۔
عامر میاں بس کسی طرح بات کو ٹالنا چاہ رہے تھے
اچھا چلیے جیسا آپ کہتے ہیں۔
بابا آپ واپس کب آئیں گے۔ ننھا اقبال افسردگی سے عامر میاں سے پوچھ رہا تھا۔
عامر جب کبھی ملازمت پر ہوتے اور گھر فون کیا کرتے ننھا ایسے ہی اداس ہو جایا کرتا تھا اور بس اسی ایک سوال کی رٹ لگایا کرتا تھا۔
جب کہ گڑیا بیٹی چہک چہک کر فرمائشیں کیا کرتی تھی۔
بیٹھا ہم اگلے ہفتے گھر آ رہے ہیں۔
عامر میاں نے بیٹے کو بتایا ۔
اچھا بیٹا اپنی اماں جان سے بات کروانا ذرا ۔
عامر میاں نے بیٹے سے کہا تو میمونہ خاتون فون پر آ موجود ہوئیں۔
تسلیم و آداب کے بعد پوچھنے لگیں کیا کر رہے ہیں؟
کچھ خاص نہیں ابھی ذرا بس لیٹنے لگا تھا۔
عامر میاں نے کمال اطمینان سے اپنے اوزاروں کے بستے کی جانب اور میلے کپڑوں پر ہاتھ پھراتے ہوئے کہا
کھانا وغیرہ کھا لیا آپ نے؟
میمونہ خاتون نے پوچھا۔
جی ابھی کھایا ہے۔
عامر میاں نے اپنے بند ٹفن کی جانب دیکھا جس میں صبح کی دال بند پڑی تھی۔
کیا کھایا؟
سوال پر سوال تو جیسے میمونہ خاتون کا خاصہ تھا ۔
گوشت کا سالن تھا اور ساتھ روغنی نان، عامر میاں نے بڑی تسلی سے جھوٹ بولا۔
اچھا وقت بہت ہو گیا آپ سو جائیے۔
صبح آپ نے کام بھی کرنا ہے۔
میمونہ خاتون نے ذرا خیال سے کہا۔
ہاں مجھے بھی غنودگی چھا رہی تھی۔
عامر میاں نے بہانا بنایا۔
اوہو تو آپ سو جاتے پھر بات ہو جاتی آپ کے آرام میں خلل آیا۔
سو جائیے اس طرح صبح نیند پوری نہ ہونے سے سر گرانی رہے گی۔
اپنی صحت کا خیال رکھا کیجیے۔
السلام علیکم میمونہ خاتون نے نصیحتوں کے ساتھ فون بند کر دیا۔
عامر میاں نے اپنی میلی وردی اور اردگرد بکھرے اوزاروں کو دیکھا اور پھر سے کام میں جت گئے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.