صدف نایاب
’’ہیلو، ہیلو! ہاں ثانیہ تم کل صبح آٹھ بجے ہی گھر سے نکل آنا۔ میں نے کریم
والوں کا اشتہار دیکھا ہے۔ شادی والے دن دلھن کے بھاگنے میں مدد گار ہیں‘‘،
وقار نے کہا۔ ’’مگر وکی یہ مشکل ہے، لیکن تمھاری محبت کی خاطر یہ بھی کروں
گی‘‘، ثانیہ نے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے کہا۔’’اری او ثانیہ! اٹھ جا
بیٹی کب تک سوئے گی؟ غضب خدا کا دن کے بارہ بج رہے ہیں‘‘، اماں نے یہ کہا
اور دھڑ دھڑ دروازہ پیٹنے لگیں۔ ’’سونے دیں امی ثانی کو کچھ دیر اور نوید
بھائی کے خواب دیکھ لے گی‘‘، ثانیہ کی چھوٹی بہن نے ہنستے ہوئے کہا۔ امی اس
وقت تو چلی گئیں مگر جب کافی دیر تک دروازہ نہ کھلا تو امی کو پریشانی ہونے
لگی۔ خیر امی ابو دونوں نے مل کر جب کمرے کے دروازے کو زور کا دھکا دیا تو
کنڈی چٹخ سے کھل گئی۔ مگر یہ کیا جیسے ہی امی ابو نے دروازہ کھولا کمرہ
خالی پایا، الماریاں کھلی پڑیں تھیں اور خالی تھیں۔ جب کہ کمرے کی کھڑکی
بھی کھلی ہوئی تھی جس سے ایک دوپٹے کی رسی نیچے لٹک رہی تھی۔
’’اجی! میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ یہ کیا ہو گیا۔
خاندان بھر میں ہماری عزت کی دھجیاں اڑ گئیں‘‘، امی ایک سانس میں ہی سب کچھ
کہہ گئیں۔ ابو نے کمرے کا جائزہ لیا تو ایک خط بستر پر پڑا ہواپایا۔ ’’ابو
مجھے نوید بھائی نہیں پسند مجھے ان سے شادی نہیں کرنی۔ میرا محبوب کوئی اور
ہے۔ میری فکر نہ کیجیے گا۔ یہ خط پڑھنا تھا کہ ابو جی کے آنسو تھے کہ تھمتے
نہ تھے۔ کئی روز تک گھر میں ماتم کا سماں رہا۔ کسی کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ
کیا کرے کیا نہ کرے۔’’یہ دیکھو وقار میں آگئی ہوں تمھارے لیے اپنا سب کچھ
چھوڑ کر تمھاری محبت میں اب تو مجھے اپنا لو گے ناں؟ تم نے مجھ سے میری
محبت کا ثبوت مانگا تھا۔ کریم کی بائیک نے میری یہ مشکل چٹکیوں میں حل کر
دی‘‘۔ ’’اچھاکیا تم آگئیں زیور اور پیسے لائی ہو؟ ہاں ہاں سب کچھ لائی ہوں
جب تک تمھاری نوکری، ہمارے رہنے کا بندوست اور کھانے کا مسئلہ حل نہیں ہوتا
تب تک ہم ان پیسوں پر گزارا کر لیں گے۔ چلو اب جلدی سے مولوی کو بلوا لو‘‘،
ثانیہ نے عجلت میں کہا۔
’’مولوی!‘‘ یہ کہہ کر وقار نے ایک زور دار قہقہ لگایا جس سے ایک گونج پیدا
ہوئی کے سارے پرندے ہوا میں غوطہ کھا گئے۔ ’’اب تم آہی گئی ہو تو زیادہ دیر
نہیں لگاؤں گا۔ تم تو صرف ایک ٹشو پیپر ہو میرے لیے۔ لاو یہ سارا زیور پیسے
میرے حوالے کرو۔ اتنا کہہ کر وقار نے ثانیہ سے سب کچھ چھین لیا۔ آج ثانیہ
سر تا پا اجڑ چکی تھی نہ مال رہا تھا نہ ہی عزت بچی تھی۔آج کی رات اس پر
بہت بھاری تھی جب شہر سے دور ایک کالی کوٹھڑی میں رسیوں سے بندھا ہوا اس کا
بدن بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ اس کا ذہن ابھی تک ماؤف تھا کہ کیا واقعی یہ وہ
وقار ہے جو اس کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتا تھا۔ ثانیہ کو رہ رہ کر
رونا آرہا تھا اپنی حالت پر کہ کیا میں وہی ہوں جسے کبھی بابا نے ٹھنڈی ہوا
نہیں لگنے دی اور امی نے کبھی سوئی تک نہ چھبنے دی۔
ثانیہ تین دن تک بھوکی پیاسی اس کوٹھڑی میں پڑی رہی پھٹے ہوے کپڑوں میں تن
کھلا جا رہا تھا۔ ایک دن اس کی آہ و بکا ایک عورت نے سن لی۔ جس کاگزر گھر
کے باہر سے ہوا۔ اس نے آج چوتھے دن ثانیہ کو رسیوں سے آزاد کروایا اسے
کھانا کھلایا اور سارا ماجرا دریافت کیا۔ثانیہ روتی جاتی اور وقار کی بے
وفائی اور بھاگنے کا سارا قصہ سناتی جاتی۔ اجڑی ہوئی ثانیہ جیسے تیسے گھر
پہنچی۔ گھر پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی۔ معاشرے نے بھلا کب ثانیہ کو زندہ
رہنے کی اجازت دینی تھی۔ کئی ماہ بیت گئے۔ ثانیہ دنیا کی باتیں برداشت کرتی
رہی اور پھر ایک دن آیا۔ جب۔۔۔ ’’ثانیہ باجی اٹھ جائیں دن کے بارہ بج گئے
ہیں، ہانیہ نے دروازہ زور سے کھولا تو ثانیہ کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی۔
ثانیہ کی موت کا ذمے دار کون یہ معاشرہ، کریم کی بائیک کا وہ اشتہار جس نے
اسے شہہ دی یا پھر وقار اس کا فیصلہ اب اﷲ کی عدالت میں ہی ہو گا۔ مگر ایک
بار اپنے ضمیر کی عدالت لگائیے یقینا ثانیہ کی موت کے پیچھے والدین کی ناقص
تربیت اور دین اسلام سے دوری ایک بڑی وجہ ہے۔ مسئلے کی جڑ اﷲ اور اس کی دی
ہوئی تعلیمات سے دور ہونا ہے۔ لبرل ازم کے نام پر آج عورت کو یہ ہی سمجھایا
جارہا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد عشق وعاشقی ہی رہ گیا ہے نہ کہ آخرت کی
فلاع اور اﷲ کی رضا۔ |