کتاب خرید کر پڑھیں

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتناطوطےکو پڑھایا پروہ حیواں ہی رہا

پاکستان میں کتب فروشی دن بہ دن کم ہورہی ہے جسکی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتب بینی کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ہمیں ٹیکنالوجی ہاتھ میں تھما کر لا علمی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ہم اس بات سے لا علمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ کتب خانوں اور کتابوں کا ہماری معا شرتی اور تعلیمی زندگی میں مقام ختم ہونے پر ہے اور ہم کرپٹ مافیا سے فری کی پی۔ڈی۔ایف فائلز ڈاؤنلوڈ کر رہے ہیں لیکن با طریقہ خرید کر کتاب نہیں پڑھ سکتے۔اس سے لکھنے والے کی محنت ضائع ہورہی ہے ذرا سوچیے ہر وہ شخص جس کی کمائی اس کتاب سے منسلک ہو چاہے وہ مصنف ہو،کاتب ہو یا ناشر ہو اُسے کیا معاوضہ ملے گا جب کتاب ہی کوئی نہیں خریدے گا۔

پاکستان میں اور خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں پی۔ڈی۔ایف کی صورت میں کتابیں با آسانی فری میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ اور عموماً لوگ یہی کرتے ہیں۔جسکی وجہ سے کتاب بہت کم لوگ خریدتے ہیں۔کتابیں نہ بکنے کی وجہ سے بہت سی کتابوں کی دکانوں پر تالے لگ گئے ہیں۔

ای۔بُکس یا پی۔ڈی۔ایف غیر قانونی طور پر شیئر کی جائیں تو اسے چوری کہا جاتا ہے، حق مارنا بھی کہہ سکتےہیں۔ حق مارنے مراد ہے کہ جس نے اِس کتاب کو اس اس کی منزل مقصود تک پہنچانے کی محنت کی ہے اُسے کچھ حاصل نہ ہوا اُسکی روزی روٹی تو اسی سے جڑی ہے۔ اس طرح ہم اُس حقدار کا حق مارتے ہیں۔

پاکستان میں کتابوں کی پائرسی کی وجہ سے گزشتہ برسوں میں امریکی بُک انڈسٹری کو 30 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے جسکی وجہ سے بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کو بُک پائرسی کا گڑھ کہتی ہیں اور اِس بات پر زور دیتی ہیں کہ پاکستان میں کاپی رائٹس (حقوق دانشمندانہ) کے قانون پر عمل کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔کاپی رائٹس ایک قانونی اصطلاح ہے جو ادبی اور فنکارانہ تخلیق کاروں کے حقوق کو واضح کرتا ہے۔

کاپی رائٹس آرڈیننس آف پاکستان 1962 کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق کاروں کو اطمینان ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص اُنکے کام کو بلا اجازت استعمال نہیں کر سکتا۔ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کرنے پر 5 سال قید کی سزا اور جرمانہ عائد ہوسکتا ہے۔

مفت پی ڈی ایف یا ای۔بُک ڈاؤنلوڈ کرنا اُس وقت جائز ہوگا جب مصنف خود اُسے فری پبلش کرے لیکن اگر مصنف کا مقصد اُسے فروخت کرنا ہے اور کوئی اُسے غیر قانونی طور پر شیئر کر رہا ہے تو یہ جرم ہے نا جائز ہے۔

پی ڈی ایف دراصل اِس لیے ایجاد کی گئی ہیں کہ انہیں پرنٹ کر کے پڑھا جائے نا کہ انہیں سکرین پر دیکھ کر پڑھا جائے۔ اس سے ہماری بینائی کمزور ہو سکتی ہے۔

لہٰذا حکومت کی جانب سے اِس معاملے میں نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے نونہالان جدید کی تربیت میں کتابوں کو شامل کریں۔ ہم خود بھی کتابوں کا مطالعہ کریں تو جائز طریقے سےخرید کر کتاب پڑھیں۔
کیونکہ،
~ ہم نشینی اگر کتاب سے ہو تو
اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں


 

Mehwish
About the Author: Mehwish Read More Articles by Mehwish: 10 Articles with 10700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.