امریکی جریدے فارن پالیسی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے محکمۂ
دفاع کے اہلکاروں نے حال ہی میں پاکستانی ایف 16 طیاروں کی گنتی کی ہے اور
وہ تعداد میں پورے ہیں۔
|
|
امریکی اہلکار نے فارن پالیسی کو بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کے حالیہ
تنازعے کی وجہ سے کچھ طیارے معائنے کے لیے فوری طور پر دستیاب نہیں تھے اور
اسی وجہ سے تمام طیاروں کی گنتی میں امریکی حکام کو چند ہفتے لگے۔
امریکی عہدیدار کے مطابق اب گنتی مکمل ہو چکی ہے اور 'تمام طیارے موجود تھے
اور ان کا معائنہ کر لیا گیا ہے۔‘
امریکی حکام کی جانب سے یہ بیان اس انڈین اس دعوے کے منافی ہے جس میں انڈین
فضائیہ نے کہا تھا کہ انھوں نے فروری میں ہونے والی جھڑپ کے دوران ایک
پاکستانی ایف 16 طیارہ مار گرایا تھا۔
انڈین فضائیہ کے حکام نے اس فضائی جھڑپ سے متعلق بیانات میں کہا تھا کہ
پاکستانی طیاروں کا نشانہ بننے والے انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن
ورتھمان نے اپنا طیارہ گرنے سے قبل پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ مار گرایا
تھا۔
پاکستان نے اس دعوے کو متعدد بار مسترد کیا ہے۔
دو اپریل کو بھی پاکستانی افواج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ
بیان میں 27 فروری کو ہونے والی اس فضائی لڑائی میں انڈیا کی جانب سے
پاکستانی طیارہ مار گرانے کے دعوؤں کو مسترد کیا گیا۔
فارن پالیسی کی جانب سے دی گئی خبر میں کہا گیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ مِگ 21
بائسن اڑانے والے ابھینندن نے پاکستانی ایف 16 طیارے کو نشانے پر لیا ہو
اور حقیقی طور پر یہ خیال کیا ہو کہ انھوں نے طیارہ مار گرایا لیکن پاکستان
میں امریکی حکام کی جانب سے کی جانے والی گنتی نئی دلی کے بیانات پر سوالیہ
نشان ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شاید انڈین حکام نے اس دن
رونما ہونے واقعات کے بارے میں غیر ملکی برادری کو گمراہ کیا تھا۔
جریدے کا کہنا ہے کہ گنتی کے اس عمل کے بارے میں معلومات رکھنے والے سینیئر
امریکی دفاعی عہدیدار کا کہنا تھا کہ غیرملکی فوجی طیاروں کی فروخت پر
استعمال کے معاہدے کے مطابق پاکستان نے امریکہ کو دعوت دی تھی کہ اس کے
حکام خود آ کر ایف 16 طیاروں کی گنتی کریں۔
عموماً اس قسم کے معاہدوں میں امریکہ کی شرط ہوتی ہے کہ خریدنے والا ملک
امریکی حکام کی جانب سے سازوسامان کا باقاعدگی سے معائنہ کروائے تاکہ
سازوسامان کی گنتی اور حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
’گرا نہیں مگر استعمال ہوا ہو سکتا ہے‘
فارن پالیسی میگزین کے مطابق شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ
پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے انڈین طیاروں سے جھڑپ میں حصہ لیا تھا۔ امریکہ
میں بنے اے آئی ایم 20 میزائل کے باقیات جائے وقوعہ کے پاس سے ملے اور فارن
پالیسی جریدے کے مطابق جنگ میں حصہ لینے والے تمام طیاروں میں سے صرف ایف
16 طیارہ ہی ایسا میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم ایک امریکی دفاعی عہدیدار نے فارن پالیسی جریدے کو بتایا کہ معاہدے کی
شرائط میں ایف 16 طیاروں کے استعمال سے متعلق حدود متعین نہیں کی گئیں۔
'ہمارے لیے یہ خیال کرنا انتہائی بھولی بھالی بات ہو گی کہ ہم اس قسم کا
سازوسامان پاکستان کو فروخت کریں اور وہ وہ اسے لڑائی میں استعمال کرنے کا
ارادہ نہ رکھتے ہوں۔'
امریکی تصدیق کی اہمیت؟
یاد رہے کہ انڈیا میں چند ہی روز میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان
میں پاکستان اور پاکستان کے ساتھ انڈین حکومتوں کا رویہ ایک اہم موضوع ثابت
ہو رہا ہے۔
فارن پالیسی جریدے ہی سے بات کرتے ہوئے امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی میں
سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر وپین نارنگ کہتے ہیں کہ یہ خبر (امریکی حکام
کی گنتی میں پاکستانی طیاروں کا پورا ہونا) انڈین ووٹرز پر خاص اثر نہیں
ڈالے گی لیکن جس طرح واقعات کھُل کر سامنے آئے ہیں، مستقبل میں انڈیا کی
طرف سے پاکستان کو روکنے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
نارنگ کہتے ہیں 'جوں جوں تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، انڈین کے لیے صورتحال
مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ تیزی سے ایسا لگ رہا ہے جیسے انڈیا پاکستان کا کوئی
اہم نقصان کرنے میں ناکام رہا لیکن اس عمل میں اپنا جہاز اور ہیلی کاپٹر
گنوا بیٹھا۔'
|
|
واضح رہے گذشتہ ماہ 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع
میں سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر جیش محمد کے خود کش حملے میں 40 جوانوں
کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے 26 فروری کو پاکستان میں شدت
پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
انڈیا نے یہ کارروائی پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بالاكوٹ میں
جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کی تھی۔
اس کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نے 27 فروری کو یا تو مبینہ طور پر
ایف-16 یا جے اے ایف-17 سے ایک ہندوستانی مگ-21 جنگی طیارہ مار گرایا اور
ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں رہا کر دیا گيا۔
|