ضحیٰ پور کے ایک رہائشی آصف خان پٹھان کا کہنا ہے کہ 'کانگریس
والے ہمیں اپنے گھر کی کھیتی سمجھتے ہیں جبکہ بی جے پی ہمیں نظر انداز کرتی
ہے۔'
|
|
بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ گجرات کی گاندھی نگر سیٹ سے بی جے پی کے
امیدوار ہیں۔ ان کے انتخابی حلقے میں احمد آباد کے مغرب میں واقع ضحی پور
بھی آتا ہے۔
تقریباً پانچ مربع کلومیٹر کے دائرے میں آباد ضحیٰ پور پانچ لاکھ لوگوں کا
مسکن ہے جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔
یہ علاقہ پہلے سرخیز اسمبلی سیٹ کا حصہ تھا جہاں سے امت شاہ ریکارڈ ووٹ سے
جیت حاصل کرتے تھے۔ اب یہ ویجل پور اسمبلی حلقے اور گاندھی نگر لوک سبھا (پارلیمانی)
نشست کے تحت آتا ہے۔
گجرات میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں مسلمان
خاندانوں نے سلامتی کی تلاش میں ضحیٰ پور نقل مکانی کی اور اپنی زندگی
دوبارہ شروع کی۔ ان میں سے بہت سے خاندان سنہ 2002 کے فسادات کے بعد یہاں آ
کر آباد ہوئے۔
اگر آپ اس علاقے سے ایک بار گزریں تو آپ کو باآسانی پتہ چل جائے گا کہ یہاں
بنیادی سہولتوں کی کس قدر کمی ہے۔
|
|
'اسے کہتے ہیں غیر محفوظ جگہ'
احمد آباد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اقتصادی، سماجی اور ثقافتی تنوع
کے پیش نظر ذات پات پر مبنی گلیاں اور محلے نظر آئیں گے۔ خیال رہے کہ نقل
مکانی اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے گجرات سمیت ملک بھر میں ایک خاص
ذات اور فرقے کے لوگ ایک جگہ (گھیٹو) رہنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم سے منسلک نذیر شیخ نے کہا: 'ضحی پور میں رہنے کی وجہ
سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا ہمارے لیے عام بات ہے۔'
'آٹو رکشہ ڈرائیور یہاں آنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اگر کوئی آنے کے لیے تیار
ہو بھی جائے تو ہمارا غیر مسلم حلیہ دیکھ کر کہتے ہیں اس طرح کے علاقے میں
کیوں رہتے ہو؟ یہ محفوظ نہیں ہے۔
'اگر آپ اوبر یا اولا ایپ پر ٹیکسی بُک کریں تو تھوڑی دیر بعد ٹیکسی
ڈرائیور خود ہی ٹرپ کو کینسل کر دیتے ہیں۔' گجرات کی سیاست پر گہری نظر
رکھنے والے سرک لالیوالا کہتے ہیں کہ جب یہاں کے نوجوان نوکری کے لیے
انٹرویو دینے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ تعصب ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں 'وہ اپنا اصل پتہ بتانے سے ڈرتے ہیں اور اس لیے وہ اپنے رشتہ
داروں کا پتہ دینا پسند کرتے ہیں۔ 'تاہم گوشت کے شوقین ہندوؤں کے لیے ضحیٰ
پور کے ریستوران اور ٹھیلے کسی 'فوڈ ہب' سے کم نہیں ہیں۔
سوسیالوجی (سماجی علوم) کے ماہر اچيوت ياگنک کہتے ہیں کہ ضحیٰ پور میں
مسلمانوں کی سماجی ہی نہیں بلکہ سیاسی تقسیم بھی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ
'موجودہ سیاسی نظام میں، مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔'
|
|
سب سے بڑی مسلم بستیوں میں سے ایک
سنہ 1973 میں دریائے سابرمتی میں سیلاب آیا تھا۔ اس وقت دو ہزار سے زیادہ
بے گھر ہندو اور مسلم خاندانوں کو بسانے کے لیے حکومت نے احمد آباد شہر کے
مغرب میں ایک جگہ دی تھی۔ اسی بستی کو بعد میں ضحی پور کے نام سے پکارا گیا۔
لیکن گجرات میں سنہ 1985، 1987 اور 1992 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات
کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی اور سنہ 2002 کے
فسادات نے تو اس خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔
شہر کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی انھیں سب سے زیادہ نقصان
پہنچا تھا۔ لہٰذا محفوظ پناہ گاہ کے طور پر مسلم گھرانوں نے ضحی پور کا رخ
کیا۔
یہاں تک کہ احمدآباد کے نورنگ پورہ اور پالڑی جیسے پوش علاقے کے تعلیم
یافتہ اور امیر مسلم خاندانوں نے بھی سکیورٹی کی تلاش میں ضحی پور کا رخ
کیا۔
اس کے علاوہ سنہ 2002 میں دیگر اضلاع میں فسادات کے شکار ہونے والے افراد
نے بھی وہاں کا رخ کیا اور رفتہ رفتہ یہ بستی بڑے 'مسلم گھیٹو' میں تبدیل
ہو گئی۔
بہر حال ضحی پور کی شہر کے اندر ایک دوسرے شہر کے طور پر شناخت ہے۔
احمد آباد ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت آنے والے ضحی پور کو سنہ 2007 میں
احمد آباد میونسپل کارپوریشن میں شامل کر دیا گیا لیکن اب بھی وہاں بنیادی
سہولیات کی کمی صاف نظر آتی ہے۔
|
|
ضحی پور: بی جے پی اور کانگریس
سنہ 2017 کے اسمبلی انتخابات کے اعداد و شمار کے مطابق ضحی پور میں تقریبا
ایک لاکھ سات ہزار ووٹرز ہیں۔
ضحی پور میں قائم کریسنٹ سکول کے ٹرسٹی آصف خان پٹھان کہتے ہیں: 'موجودہ
سیاسی تناظر میں ہم حاشیے پر نہیں بلکہ حاشیے کے باہر چلے گئے ہیں۔ بی جے
پی اور كانگریس دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کو ہماری فکر نہیں ہے، جو کرنا
ہے ہمیں خود ہی کرنا ہے۔'
لیکن گجرات کانگریس کے ترجمان منیش دوشی کہتے ہیں کہ 'اقلیتی اسکالرشپ اور
تعلیم کے حق کے لیے کانگریس نے کئی بار آواز اٹھائی ہے۔ میں خود اس کے لیے
دھرنے پر بیٹھا ہوں۔'
'مقامی غریب طلباء کو سکول میں داخلے میں مدد ملے، اس کے لیے کانگریس نے
انتظام کیا ہے۔ ہم اپنے کام اور 72 ہزار روپے سالانہ امداد کی بات کو لے کر
عوام کے درمیان جائیں گے۔'
گجرات میں کانگریس فی الحال اپوزیشن میں ہے۔ ایسے میں اس کا ضحی پور جانا
سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا ہندوتوا کے نظریات کی حامل بی جے پی کے صدر امت
شاہ اس علاقے میں انتخابی دورے کے لیے آئيں گے؟
اس سوال کو بی جے پی کے ترجمان بھرت پانڈیا نظر انداز کرتے نظر آئے۔
وہ کہتے ہیں: 'بی جے پی سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کی پالیسی پر چلتی ہے۔
ہمارے نمائندے جیتیں یا ہاریں وہ ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے ہیں اور ان کی
خدمت کرتے ہیں، ہم بھی نظر انداز نہیں کرتے اور اپیزمنٹ بھی نہیں کرتے ہیں۔'
سینیئر صحافی منور پتنگ والا کہتے ہیں کہ ضحی پور میں بہت سے تعلیم یافتہ
ڈاکٹر، وکیل اور امرا رہتے ہیں اور بی جے پی کو ان کے ذریعے ان تک پہنچنے
کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔'
.وہ کہتے ہیں: 'بی جے پی سب کا ساتھ سب کی ترقی کی بات کرتی ہے لیکن عملاً
یہ نظر نہیں آتیا۔ لہذا لوگوں کے پاس کوئي متبادل بھی نہیں ہے۔'
ضحی پور میں ایک خصوصی قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہ قانون شہر میں ہندوؤں اور
مسلمانوں کے ایک ساتھ مل جل کر رہنے میں تو رخنہ پیدا کرتا ہی ہے اس کے
ساتھ علاقے کی ترقی میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔
|
|
اس قانون کو ڈسٹرب ایریا ایکٹ کا نام دیتے ہیں جس کے تحت مسلم ہندو اکثریتی
علاقے اور ہندو مسلم اکثریتی علاقوں میں جائیداد نہیں خرید سکتے۔
امت شاہ کے ضحی پور آنے پر منور پتنگ والا کہتے ہیں کہ جب امت شاہ سرخیز سے
انتخابات لڑتے تھے تب بھی وہ ضحی پور نہیں آتے تھے۔
سنہ 2012 میں امت شاہ نے نئے تشکیل شدہ انتخابی حلقہ نارنپور سے میدان میں
اترے تھے۔ نئی حلقہ بندی کی وجہ سے ان کی فتح کا فرق 60 ہزار ووٹ رہ گیا
تھا۔ اس وقت نارنپور کی نشست گاندھی نگر لوک سبھا کے علاقے میں آ گئی ہے۔
اگر گجرات کو ہندوتوا کی لیبارٹری کہا جاتا ہے تو اس تجربے کا مرکز
گاندھرنگر رہا ہے۔
اس انتخابی حلقے کا نتجیہ سنہ 1989 سے یکطرفہ رہا ہے جس میں بی جے پی کے
امیدواروں کی واضح اکثریت سے جیت ہوئی ہے۔
یہ ایک وی آئی پی انتخابی حلقہ رہا ہے جہاں سےسابق وزیر اعظم اٹل بہاری
واجپئی، ایل کے اڈوانی اور شنکر سنگھ واگھیلا (جب وہ بی جے پی میں تھے) جیت
حاصل کرتے رہے۔.
یہاں کی کثیر مسلم آبادی کو دیکھتے ہوئے احمد آباد میں بہت سے لوگ اسے 'منی
پاکستان' بھی کہتے ہیں۔
ٹھاکور اور پٹیدار برادری کے اکثریتی علاقے ویجلپور سے ضحی پور کو علیحدہ
کرنے والے راستے، گلیوں، دیواروں اور میدان کو لوگ سرحد کے طور پر دیکھتے
ہیں۔
یہ سرحدیں جہاں ضحی پور کو جغرافیائي اور سماجی طور پر علیحدہ کرتی ہیں
وہیں یہاں آباد لوگوں کو وہ ذہنی طور پر بھی علیحدہ کرتی ہیں۔
لالی والا کہتے ہیں کہ اگر ہندو مسلم بچے ایک ساتھ پڑھے اور کھیلیں، ان کے
درمیان بات چیت ہو تو ان کے درمیان یہ نہ نظر آنے والی سرحدیں مٹ سکتی ہیں
لیکن ان کا خیال ہے کہ آئندہ دس برسوں تک ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
|