آدم خور

تحریر: محمد اویس بلوچ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور میرے ایک ساتھی جن کا نام حمزہ تھا، ضلع ایبٹ آباد کے روپڑ نامی کسی علاقے میں ایک مدرسے کے طالب علم تھے۔ ہمارے لیے یہ علاقہ بالکل نیا تھا۔ میرپور سے صرف میں اور میرا ساتھی حمزہ ہی تھے جو اجنبی تھے، باقی تمام طلبہ علاقائی تھے۔ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے، پہاڑو ں پر اونچے اونچے اور گھنے گھنے درخت تھے۔ وہاں سے کچھ دور ایک گھنا جنگل بھی تھا۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ یہاں پہ راتوں کو اکثر ریچھ اور ببر شیر جنگل سے نکل کر آبادی کا رخ کرتے ہیں، اس لیے ہم خاص طور پہ میں اور حمزہ زیادہ باہر نہیں نکلتے تھے، رات کو تو بالکل بھی نہیں۔

یہ ایک رات تھی،گیارہ بجے کا وقت تھا،تمام طلبہ سو رہے تھے، میں اور حمزہ مدرسے کے دوسرے ہال میں بیٹھے دن والے اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔اسلام آباد میں دو آدم خوروں کی علاقائی قبرستان میں ایک قبر کھودنے کی کوشش، حمزہ نے سرخی پڑھ کر اخبار میں سے نظریں ہٹا کر حیرانی کے ساتھ میری طرف دیکھا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، اچانک ہمیں ایک زوردار آواز سنائی دی، جیسے کسی ٹن کی چادر پر کسی نے اوپر سے چھلانگ لگائی ہو۔ہم دونوں بہت گھبرا گئے۔

’’یہ کیسی آواز تھی؟‘‘، حمزہ نے سہمتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔’’پتا نہیں‘‘میں نے جواب دیا۔کوئی ریچھ یا ببر شیر وغیرہ تو نہیں آ ٹپکا؟کہیں یہ آدم خور تو نہیں آ گئے؟ڈر کے مارے حمزہ کی زبان لڑکھڑا گئی اور زور زور سے شروع ہوگیا،’’ جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘۔’’کچھ نہیں ہے ڈرو مت‘‘،میں نے حمزہ کی ہمت بندھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’کوئی بلی ہوگی، جس نے باورچی کے چھت پر چھلانگ لگائی ہوگی، جو لوہے کی چادر سے بنا ہوا ہے‘‘۔اندر ہی اندر سے میں خود بھی بہت خوفزدہ تھا، کیونکہ ہم یہاں اجنبی تھے، ہمیں یہاں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گذرے تھے۔ اب ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہم کریں تو کریں کیا؟ ہماری نظریں اس کھڑکی کی طرف ٹکی ہوئی تھیں، جس طرف سے ہمیں یہ آواز آئی تھی ۔ اب تو وہاں سے ہمیں ایک اور آواز بھی آنے لگی، جیسے کوئی جانور کوئی سخت چیز چبا رہا ہو۔

’’یہ آواز تو ہڈی چبانے جیسی ہے‘‘،میں نے حمزہ کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کہا۔’’کہیں سچ مچ میں تو آدم خور نہیں آ گئے؟ ‘‘’’آدم خور؟‘‘ ،حمزہ ہکلایا اور پھر شروع ہو گیا،’’جل توجلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘‘۔’’چلو باہر چل کے دیکھتے ہیں‘‘،میں یہ کہہ کر ہال کے دوسرے کونے کی طرف لپکا، جہاں ایک مضبوط لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا دیوار کے ساتھ لگائے رکھا ہوا تھا، وہ اٹھایا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔’’نہیں احمد!مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے‘‘، حمزہ نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ کر کہا۔خیر، ہم نے حوصلہ کر کے دروازے کی جانب قدم بڑھانے شروع کر دیے۔ ابھی دروازے پہ پہنچنے ہی والے تھے کہ ایک بار پھر وہ زوردار آواز سنائی دی، اس بار اس آواز کے ساتھ کسی مرد کی ایک با رعب اور بھاری آواز بھی ابھری،’’ اوووویےے‘‘۔

ہم ٹھٹھک کر رک گئے۔ حمزہ میرا اور میں اس کا منہ تکنے لگا۔’’آج تو برے پھنسے ہیں‘‘،میں نے کہاپھر اوپر دیکھتے ہوئے میں دل ہی دل میں بڑبڑایا،’’یا خدا! اب کیا کریں‘‘۔حمزہ کی زبان پہ وہی ورد اب تک جاری تھا۔’’ اووویے حمزہ‘‘،ایک بار پھر وہ مردانہ بھاری بھرکم آواز ابھری ۔اس دفعہ تو اس نے حمزہ کا نام بھی لیا۔ یہ سن کر ہم دہل گئے۔’’ اس، اس نے میرا نام پکارا ہے،احمد! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے‘‘،حمزہ نے ڈر کے مارے مجھ سے چپکتے ہوئے کہا۔حمزہ کے چہرے پر ہوائیاں اْڑ رہی تھیں، وہ زور زور سے جل تو جلال کا ورد بھی کیے جا رہا تھا۔میں بھی منہ ہی منہ میں دعائیں پڑ رہا تھا۔ میں پریشانی سے سر کھجا رہا تھا۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟

پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا اور میں حمزہ سے مخاطب ہوا،’’حمزہ! قاری صاحب اوپر چھت پر سوتے ہیں، کہیں یہ آواز ان کی تو نہیں ہے؟‘‘’’ہاں! ہوسکتا ہے شاید‘‘، حمزہ نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ خوف کے مارے ہمارا برا حال تھا۔ یہ خیال آتے ہی جب ہماراکچھ حوصلہ بڑھا تو ہم پھر سے دروازے کی طرف لپکے۔ابھی ہم اسی کش مکش میں تھے کہ دروازہ کھولیں یا نہ کھولیں، وہ آواز پھر سے ابھری،’’احمد! باہر آو، ذرا بکرے کو دیکھو تو، کیا ہوا ہے اسے‘‘۔یہ سن کر میری تو جان میں جان آ گئی، یہ قاری صاحب ہی تھے جو کب سے اوپر سے آوازیں لگا رہے تھے۔ میرا تو خوف جاتا رہا، مگر حمزہ اب تک خوفزدہ تھا۔ کہنے لگا،’’مجھے لگتا ہے یہ آدم خور ہی ہے، یہ ہمیں پھنسانے کے لیے ایسی چال چل رہا ہے‘‘۔ حمزہ کی یہ بات سن کر میں دل ہی دل میں خوب ہنسا۔ میں نے دروازہ کھولا ہم باہر آ گئے۔ جس طرف سے آواز آئی تھی ہم اس طرف چل دیے، میں آگے اور حمزہ میرے پیچھے پیچھے تھا۔جب ہم وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر ہماری ہنسی چھوٹ گئی، ہم اپنے ہی اوپر خود ہنسنے لگے۔

ہم نے دیکھا کہ وہ بکرا، جو آج کسی نے مدرسے کے لیے قاری صاحب کو وقف کیا تھا۔ ایک لوہے کی چادر سے بنے ہوئے ریڑھے سے بندھا ہوا تھا۔ جب بکرا کچھ کھانے کی نیت سے باورچی خانے کی طرف بڑھا تھا تو اس سے بندھا ہوا وہ ریڑھا گرنے اور گھسٹنے کی وجہ سے آواز کرنے لگا تھا اور ہمیں جو ہڈی چبانے کی آواز آ رہی تھی، وہ آج صبح والی سوکھی روٹیوں کے چبانے کی آواز تھی، جو بکرے میاں بڑے سکون کے ساتھ چبا چبا کے لطف اندوز ہو رہے تھے۔


 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1013314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.