سورہ فاتحہ کا مقام

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
فاتحہ دور نزول مکی اور نبوت کے ابتدائی سال میں نازل ہوئی,
نام کے معنی آغاز، افتتاح کے ہیں,
دیگر نام ام الکتاب، ام القرآن،
اعداد و شمار کے اعتبار سے
عددِ سورت 1,عددِ پارہ 1,تعداد آیات 7
سجود کوئی نہیں,الفاظ 27,حروف 140
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں۔ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلے کے دن (یعنی قیامت کا) مالک ہے۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سچی اور سیدھی راہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا
سورہ فاتحہ سے تقدیر بدلتے دیکھی "دنیاوی اور روحانی معاملات حل کرنے کا سب سے بہترین عمل آپ بھی جانئے
انسان جب بیماریوں سے عاجز آجاتا ہے تو اب ڈاکٹر بھی اسے روحانی علاج کا مشورہ دیتے ہیں ۔اب تو بہت سے ہسپتالوں میں قرآن تھیراپی شروع ہوچکی ہے ۔کئی بار لوگوں کو اللہ کے کلام سے شفا پاتے دیکھا اور سنا ہے جن کا اب عقیدہ ہے کہ جو کام ادویات نہیں کرسکتیں وہ اللہ کا کلام سب سے بہتر کرتاہے اور یہ سب سے بہترین اور افضل علاج ہے جس میں شفائے کاملہ موجود ہے
انتہائی پرسکون حالت میں پوری یک سوئی سے سورہ فاتحہ کو ٹھہر ٹھہر کر اکیس بار پڑھنا معمول بنایا اور چند ہفتوں بعد ان کے بدن اور دماغ میں چستی پیدا ہو ۔ان کا ہر کام میں دل لگتا ہے ۔ بلکہ ہر کام سے پہلے یا کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہونے پر سورہ فاتحہ کا سہارا لیتے ہیں تو ان کی مشکل دور ہوجاتی ہے ۔ان کی بیٹی کا رشتہ نہیں ہورہا تھا جس کے لئے انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اللہ سے دعا کی تو انتہائی معقول رشتہ آگیا ۔ان کا ایمان ہے کہ سورہ فاتحہ کی برکت سے ان کی زندگی بدل گئی ہے ۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ سورہ فاتحہ کی برکات اور فیوض سے بے شمار لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
سورہ فاتحہ سے شفا کے بارے صحیح بخاری میں ایک جامع حدیث موجود ہے جو یوں بیاں کی گئی ہے ”مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے معبد بن سیرین نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاو¿ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابوسعید) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہو گئی۔ اس نے اس کے شکر انے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورہ الفاتحہ پڑھ کراس پر دم کر دیا تھا۔
تفسیر:
(١) ﺳﻮﺭہ ﺍﻟﻔﺎﺗﺤﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻛﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﻮﺭﺕ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﻛﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺘﺪاء ﻛﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ الفَاتِحَةُ ﯾﻌﻨﯽ فَاتِحَةُ الكِتَابِ ﻛﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻧﺎﻡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﺜﻼﹰ : أُمُّ القُرْآنِ ، السَّبْعُ المَثَانِي ، القُرْآنُ العَظِيمُ ، الشِّفَاءُ ، الرُّقْيَةُ ( ﺩﻡ ) وَغَيْرهَا مِنَ الأسْمَاءِ- ﺍﺱ کا ﺍﯾﻚ ﺍﮨﻢ ﻧﺎﻡ "الصَّلاة" ﺑﮭﯽ ﮨﮯ, ﺟﯿﺴﺎ ﻛﮧ ﺍﯾﻚ ﺣﺪﯾﺚ ﻗﺪﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ, اللہ تعالٰی ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي " ۔ الحديث (صحيح مسلم -كتاب الصلاة ) ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﻼۃ ( ﻧﻤﺎﺯ ) ﻛﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﻛﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﻛﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ, ﻣﺮﺍﺩ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ کا ﻧﺼﻒ ﺣﺼﮧ اللہ تعالٰی ﻛﯽ ﺣﻤﺪﻭﺛﻨﺎء ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻛﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﻭﺭﺑﻮﺑﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺪﻝ ﻭﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﻛﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﻒ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﻭﻣﻨﺎﺟﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮦ اللہ ﻛﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﺲ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺻﺎﻑ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ کا ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻧﺒﯽ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ﻛﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺧﻮﺏ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻛﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ, ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ " ( صحيح بخاري وصحيح مسلم ) ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ۔ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ( ﻣﻦ ) کا ﻟﻔﻆ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻛﻮ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ۔ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ, ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﻘﺘﺪﯼ ۔ ﺳﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺟﮩﺮﯼ, ﻓﺮﺽ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﻔﻞ ۔ ﮨﺮ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔
ﺍﺱ ﻋﻤﻮﻡ ﻛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﯾﻚ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻓﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻛﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻗﺮﺍءﺕ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﻮﮔﺌﯽ, ﻧﻤﺎﺯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "لا تَفْعَلُوا إِلا بِأُمِّ الْقُرْآنِ؛ فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا" ۔ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺖ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﻭ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺖ ﭘﮍﮬﺎ ﻛﺮﻭ ) ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﻛﺮﻭ, ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﺍﺱ ﻛﮯ ﭘﮍﮬﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ۔ ( اﺑﻮﺩﺍﻭﺩ, ﺗﺮﻣﺬﯼ, ﻧﺴﺎﺋﯽ ) ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "مَنْ صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ -ثَلاثًا - غَيْرُ تَمَامٍ" ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﺎﻗﺺ ﮨﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ۔ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ رضی اللہ عنہ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ : "إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ (ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﯾﮟ؟) ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮہ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ (اِقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ) ( ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﻮﺭﺊ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻮ ) ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ۔
ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺪﯾﺜﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺍ ﻛﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا ( الأَعراف ۔ ٢٠٤) ﺟﺐ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﻨﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻮ ﯾﺎ ﺣﺪﯾﺚ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ( بشرط صحت) ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺮﺍءﺕ ﻛﺮﮮ ﺗﻮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻮ کا ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﮩﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﺎﻗﯽ ﻗﺮﺍءﺕ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﮟ ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮧ ﭘﮍﮬﯿﮟ ۔ ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﻭﻗﻔﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﮯ ﺗﺎﻛﮧ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﺳﻜﯿﮟ, ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻜﺘﮧ ﻛﺮﮮ ﻛﮧ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺁﯾﺖ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺤﻤﺪللہ ﻛﻮﺋﯽ ﺗﻌﺎﺭﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﺐ ﻛﮧ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺧﺎﻛﻢ ﺑﺪﮨﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﻜﺮﺍؤ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﺍﯾﻚ ﭘﺮ ﮨﯽ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺳﻜﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺑﯿﻚ ﻭﻗﺖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻣﻤﻜﻦ ﻧﮩﯿﮟ ۔ فَنَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا ( ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﻛﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮ ﻛﺘﺎﺏ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺍﻟﻜﻼﻡ ﺍﺯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﻣﺒﺎﺭﻙ ﭘﻮﺭﯼ ﻭ ﺗﻮﺿﯿﺢ ﺍﻟﻜﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺍﻟﺤﻖ ﺍﺛﺮﯼ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﹴ , ﻭﻏﯿﺮﮦ )۔ ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ﺭﺣﻤت اللہ ﻋﻠﯿﮧ ﻛﮯ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﺳﻠﻒ ﻛﯽ ﺍﻛﺜﺮﯾﺖ ﰷ ﻗﻮﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺍﻣﺎﻡ ﻛﯽ ﻗﺮﺍﺈﺕ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻧﮧ ﭘﮍﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮍﮬﮯ ( ﻣﺠﻤﻮﻉ ﻓﺘﺎﻭﱝ ﺍﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ ٢٣ / ٢٦٥ )
(٢) ﯾﮧ ﺳﻮﺭﺕ ﻣﻜﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﻜﯽ ﯾﺎ ﻣﺪﻧﯽ ﰷ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﻮ ﺳﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﺠﺮﺕ ( ١٣ ﻧﺒﻮﺕ ) ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﻜﯽ ﮨﯿﮟ, ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻥ کا ﻧﺰﻭﻝ ﻣﻜﮧ ﻣﻜﺮﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ , ﯾﺎ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻭﺟﻮﺍﻧﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﻧﯽ ﻭﮦ ﺳﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﺠﺮﺕ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯿﮟ, ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﯾﺎ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﯾﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ۔ ﺣﺘﲐ ﻛﮧ ﻣﻜﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮﮞ ۔
(٣) ﺑﺴﻢ ﺍللہ ﻛﯽ ﺑﺎﺑﺖ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺁﯾﺎ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺁﯾﺖ ﮨﮯ, ﯾﺎ ﮨﺮ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﯽ ﺁﯾﺖ ﰷ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ, ﯾﺎ ﯾﮧ ﺻﺮ ﻑ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﯽ ﺍﯾک ﺁﯾﺖ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻛﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺁﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ, ﺍﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻛﺮﻧﮯ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﺮ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﻜﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﻗﺮﺍء ﻣﻜﮧ ﻭﻛﻮﻓﮧ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﯽ ﺁﯾﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ, ﺟﺐ ﻛﮧ ﻗﺮﺍۃ ﻣﺪﯾﻨﮧ, ﺑﺼﺮﮦ ﻭﺷﺎﻡ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺭﺕ ﻛﯽ ﺁﯾﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ, ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺳﻮﺭﺊ ﻧﻤﻞ ﻛﯽ ﺁﯾﺖ ٣٠ ﻛﮯ, ﻛﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻻ ﺗﻔﺎﻕ ﺑﺴﻢ اللہ ﺍﺱ کا ﺟﺰﻭ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﮩﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮨﮯ ۔ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻛﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺳﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ( ﻓﺘﺢ ﺍﻟﻘﺪﯾﺮ ) ﺍﻛﺜﺮ ﻋﻠﻤﺎ ﻧﮯ ﺳﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻛﻮ ﺭﺍﺟﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﮩﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔
(٤) ﺑﺴﻢ اللہ ﻛﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ أَقْرَأُ، أَبْدَأُ ﯾﺎ أَتْلُوا ﻣﺤﺬﻭﻑ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽاللہ تعالٰی ﻛﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ, ﯾﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻛﺮﺗﺎ ﯾﺎ ﺗﻼﻭﺕ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﮨﺮ ﺍﮨﻢ کاﻡ ﻛﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﻛﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺴﻢ اللہ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻛﯽ ﺗﺎﻛﯿﺪ ﻛﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻜﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻛﮭﺎﻧﮯ, ﺫﺑﺢ, ﻭﺿﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﺎﻉ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺴﻢ اللہ ﭘﮍﮬﻮ ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﻛﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (النحل-٩٨) ﺟﺐ ﺗﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ اللہ ﻛﯽ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺭﺟﯿﻢ ﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺎﻧﮕﻮ ۔
(٥) ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﻝ, ﺍﺳﺘﻐﺮﺍﻕ ﯾﺎ ﺍﺧﺘﺼﺎﺹ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ, ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﻌﺮﯾﻔﯿﮟ اللہ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ, ﯾﺎ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺎﺹ ﮨﯿﮟ, ﻛﯿﻮﮞ ﻛﮧ ﺗﻌﺮﯾﻒ کا ﺍﺻﻞ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍﻭﺍﺭ ﺻﺮﻑاللہ تعالٰی ﮨﮯ ۔ ﻛﺴﯽ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻛﻮﺋﯽ ﺧﻮﺑﯽ, ﺣﺴﻦ ﯾﺎ ﻛﻤﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ الله تعالٰی کا ﭘﯿﺪﺍ ﻛﺮﺩﮦ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺣﻤﺪ ( ﺗﻌﺮﯾﻒ ) کا ﻣﺴﺘﺤﻖ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ اللہ ﯾﮧ اللہ تعالٰی کا ﺫﺍﺗﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ, ﺍﺱ کا ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻛﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﯾﻚ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ لا إِلَهَ إلا اللهُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ ﺍﻭﺭ الْحَمْدُ للهِ ﻛﻮ أَفْضَلُ الدُّعَاءِ ﻛﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ( ﺗﺮﻣﺬﯼ, ﻧﺴﺎﺋﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ) ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﻧﺴﺎﺋﯽ ﻛﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ الْحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الْمِيزَانَ " الْحَمْدُ للهِ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﻛﻮ ﺑﮭﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﻚ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻛﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﮨﺮ ﻛﮭﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﹴ ﻛﯽ ﺣﻤﺪ ﻛﺮﮮ ۔ ( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ) ۔
(٦) رَبِّ, اللہ تعالٰی ﻛﮯ ﺍﺳﻤﺎﺋﮯ ﺣﺴنٰی ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﻛﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻛﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﺮﻛﮯ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﻣﮩﯿﺎ ﻛﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﻮ ﺗﻜﻤﯿﻞ ﺗﻚ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ۔ ﺍﺱ ﰷ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﻛﮯ ﻛﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔ عَالَمِينَ عَالَمٌ ( ﺟﮩﺎﻥ ) ﻛﯽ ﺟﻤﻊ ﮨﮯ ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻼﺋﻖ ﻛﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﻛﻮ ﻋﺎﻟﻢ ﻛﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ۔ ﻟﯿﻜﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺭﺑﻮﺑﯿﺖ ﰷﻣﻠﮧ ﻛﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻛﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻊ ﻻﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﻛﯽ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺟﻨﺴﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﺜﻼﹰ ﻋﺎﻟﻢ ﺟﻦ, ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻧﺲ, ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻼﺋﻜﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﻭﺣﻮﺵ ﻭﻃﯿﻮﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﻛﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﯿﮟ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﺎﹰ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﯿﮟ, ﻟﯿﻜﻦ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﺳﺐ ﻛﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ, ﺍﻥ ﻛﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﻭﻇﺮﻭﻑ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﺎﻉ ﻭ ﺍﺟﺴﺎﻡ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﮩﯿﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔
(٧) رَحْمَن ﺑﺮ ﻭﺯﻥ فَعْلان ﺍﻭﺭ رَحِيمٌ ﺑﺮ ﻭﺯﻥ فَعِيلٌ ﮨﮯ ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺒﺎﻟﻐﮯ ﻛﮯ ﺻﯿﻐﮯ ﮨﯿﮟ, ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻛﺜﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺍﻡ ﰷ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺑﮩﺖ ﺭﺣﻢ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﯾﮧ ﺻﻔﺖ ﺩﯾﮕﺮ ﺻﻔﺎﺕ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﮯ ۔ ﺑﻌﺾ ﻋﻠﻤﺎ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﺭﺣﻤٰﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﺣﯿﻢ ﻛﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺒﺎﻟﻐﮧ ﮨﮯ, ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ﻛﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﻼ ﺗﺨﺼﯿﺺ ﰷﻓﺮﻭﻣﻮﻣﻦ ﺳﺐ ﻓﯿﺾ ﯾﺎﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺭﺣﯿﻢ ﮨﻮﮔﺎ, ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺻﺮﻑ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺎﺹ ﮨﻮﮔﯽ ۔ اللَّهُمَّ ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ ( آمين)
(٨) ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﲀﻓﺎﺕ ﻋﻤﻞ ﰷ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﯾﻚ ﺣﺪ ﺗﻚ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ, ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺱ ﰷ ﻣﻜﻤﻞ ﻇﮩﻮﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﯾﺎ ﺑﺮﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﻜﻤﻞ ﺟﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﮔﺎ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﻛﺌﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﺤﺖ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﻟﯿﻜﻦ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﺍﺕ ﰷ ﻣﺎﻟﻚ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ اللہ تعالٰی ﮨﯽ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺍﺱ ﺭﻭﺯ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ :لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ؟ ( ﺁﺝ ﻛﺲ ﻛﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﮨﮯ؟ ) ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﺎ : للهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ( ﺻﺮﻑ ﺍﯾﻚ ﻏﺎﻟﺐ اللہ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ) يَوْمَ لا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ ( ﺍﻻﻧﻔﻄﺎﺭ ) ﺍﺱ ﺩﻥ ﻛﻮﺋﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﻛﺴﯽ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻛﮭﮯ ﮔﯽ, ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ اللہ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﯾﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺰﺍ کا ﺩﻥ ۔
(٩) ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻛﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﺭﺿﺎ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﺬﻟﻞ ﻭﻋﺎﺟﺰﯼ ﺍﻭﺭ ﻛﻤﺎﻝ ﺧﺸﻮﻉ ﰷ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﻘﻮﻝ ﺍﺑﻦ ﻛﺜﯿﺮﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﻛﻤﺎﻝ ﻣﺤﺒﺖ, ﺧﻀﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﻛﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﰷ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺲ ﺫﺍﺕ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ, ﺍﺱ ﻛﯽ ﻣﺎﻓﻮﻕ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﻃﺎﻗﺖ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻋﺎﺟﺰﯼ ﻭﺑﮯﺑﺴﯽ ﰷ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻭﻣﺎﻓﻮﻕ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻛﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﰷ ﺧﻮﻑ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ۔ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﻋﺒﺎﺭﺕ (نَعْبُدُكَ وَنَسْتَعِينُكَ) ( ﮨﻢ ﺗﯿﺮﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻛﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮨﻮﺗﯽ, ﻟﯿﻜﻦ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻔﻌﻮﻝ ﻛﻮ ﻓﻌﻞ ﭘﺮ ﻣﻘﺪﻡ ﻛﺮﻛﮯ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ, ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﺧﺘﺼﺎﺹ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﺮﻧﺎ ﮨﮯ, ﯾﻌﻨﯽ ﹾﮨﻢ ﺗﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻛﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮫ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﹿ ﻧﮧ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﹴ ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﻛﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻛﯽ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺳﺘﻌﺎﻧﺖ ﮨﯽ ﻛﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﮯ ﺷﺮﻙ ﰷ ﺳﺪﺑﺎﺏ ﻛﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ, ﻟﯿﻜﻦ ﺟﻦ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻙ ﰷ ﺭﻭﮒ ﺭﺍﮦ ﭘﺎﮔﯿﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﻣﺎﻓﻮﻕ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺗﺤﺖ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﺍﺳﺘﻌﺎﻧﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﻛﻮ ﻧﻈﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﻛﺮﻛﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﻛﻮ ﻣﻐﺎﻟﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺩﯾﻜﮭﻮ ﮨﻢ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮈﺍﻛﭩﺮ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ, ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻛﮯ ﻃﺎﻟﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺑﺎﻭﺭ ﻛﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﹴ ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ ﺣﺎﻻﻧﻜﮧ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻛﮯ ﻣﺎﺗﺤﺖ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺩ ﻛﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺷﺮﻙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ, ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﰷ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﮯ, ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﰷﻡ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺣﺘﲐ ﻛﮧ ﺍﻧﺒﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻛﯽ ﻣﺪﺩ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺣﻀﺮﺕ عیسٰی علیہ السلام ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ (الصف) ﺍﹴ ﻛﮯ ﺩﯾﻦ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻛﻮﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﮯ؟ اللہ تعالٰی ﻧﮯ ﺍﮨﻞ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻛﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة-٢) ﹾ ﻧﯿﻜﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﻮﱝ ﻛﮯ کاﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻛﯽ ﻣﺪﺩ ﻛﺮﻭ ﹿ ﻇﺎﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻛﮧ ﯾﮧ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ, ﻧﮧ ﺷﺮﻙ, ﺑﻠﻜﮧ ﻣﻄﻠﻮﺏ ﻭﻣﺤﻤﻮﺩ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﰷ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﺷﺮﻙ ﺳﮯ ﻛﯿﺎ ﺗﻌﻠﻖ ؟ ﺷﺮﻙ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻃﻠﺐ ﻛﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻛﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻧﮧ ﻛﺮﺳﻜﺘﺎ ﮨﻮ, ﺟﯿﺴﮯ ﻛﺴﯽ ﻓﻮﺕ ﺷﺪﮦ ﺷﺨﺺ ﻛﻮ ﻣﺪﺩ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ پکارنا , ﺍﺱ ﻛﻮ مشکل ﻛﺸﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﺟﺖ ﺭﻭﺍ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ, ﺍﺱ ﻛﻮ ﻧﺎﻓﻊ ﻭﺿﺎﺭ ﺑﺎﻭﺭ ﻛﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﻭﻧﺰﺩﯾﻚ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺍﯾﻚ ﻛﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﻨﮯ ﻛﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺳﮯ ﺑﮩﺮﮦ ﻭﺭ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻛﺮﻧﺎ ۔ ﺍﺱ ﰷ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺎﻓﻮﻕ ﺍﻻﺳﺒﺎﺏ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻧﺎ, ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺻﻔﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻒ ﻣﺎﻧﻨﺎ ۔ ﺍﺳﯽ ﰷ ﻧﺎﻡ ﺷﺮﻙ ﮨﮯ, ﺟﻮ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﻟﯿﺎﺈ ﻛﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻠﻜﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔
ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻛﯽ ﺗﯿﻦ ﻗﺴﻤﯿﮟ : ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻛﯽ ﺗﯿﻦ ﺍﮨﻢ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﺼﺮﺍﹰ ﺑﯿﺎﻥ ﻛﺮﺩﯼ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺭﺑﻮﺑﯿﺖ, ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺍﻟﻮﮨﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺻﻔﺎﺕ ۔
١ ۔ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺭﺑﻮﺑﯿﺖ ﰷ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﺱ ﰷﺋﻨﺎﺕ ﰷ ﺧﺎﻟﻖ, ﻣﺎﻟﻚ, ﺭﺍﺯﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺑﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻛﻮ ﻣﻼﺣﺪﮦ ﻭﺯﻧﺎﺩﻗﮧ ﻛﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ, ﺣﺘﲐ ﻛﮧ ﻣﺸﺮﻛﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮟ, ﺟﯿﺴﺎ ﻛﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻣﺸﺮﻛﯿﻦ ﻣﻜﮧ ﰷ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﻧﻘﻞ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﻣﺜﻼﹰ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮮ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ صلی اللہ علیہ وسلم ! ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﻛﮧ ﺗﻢ ﻛﻮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﺯﻕ ﻛﻮﻥ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ, ﯾﺎ ( ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ) ﰷﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﻜﮭﻮﮞ ﰷ ﻣﺎﻟﻚ ﻛﻮﻥ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﺑﮯﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﻛﻮﻥ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻛﮯ ﰷﻣﻮﮞ ﰷ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻛﻮﻥ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﺟﮭﭧ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ( ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﰷﻡ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﹴ ﮨﮯ ) ۔ ( ﺳﻮﺭﺊ ﯾﻮﻧﺲ ۔ ٣١ ) ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﹲ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺯﻣﯿﻦ ﰷ ﺧﺎﻟﻖ ﻛﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﯾﮩﯽ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ( ﺍﻟﺰﻣﺮ ۔ ٣٨ ) ﺍﯾﻚ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﹲ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﻛﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﮨﮯ, ﯾﮧ ﺳﺐ ﻛﺲ ﰷ ﻣﺎﻝ ﮨﮯ, ﺳﺎﺗﻮﮞ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺵ ﻋﻈﯿﻢ کا ﻣﺎﻟﻚ ﻛﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻛﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﻛﺲ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ؟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻛﻮ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﻛﻮﺋﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻛﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﯾﮩﯽ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ کاﻡ ﺍﹴ ﮨﯽ ﻛﮯ ﮨﯿﮟ ۔( المؤمنون۔ ٨٤ ۔ ٨٩ ) وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ۔
٢ ۔ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺍﻟﻮﮨﯿﺖ ﰷ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻛﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﰷ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﺻﺮﻑ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﺮ ﻭﮦ ﰷﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻛﺴﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮨﺴﺘﯽ ﻛﯽ ﺭﺿﺎ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ, ﯾﺎ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﯽ ﻛﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﻛﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ, ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻧﻤﺎﺯ, ﺭﻭﺯﮦ, ﺣﺞ ﺍﻭﺭ ﺯﻛٰﻮﮦ ﺻﺮﻑ ﯾﮩﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﻜﮧ ﻛﺴﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﻭﺍﻟﺘﺠﺎ ﻛﺮﻧﺎ, ﺍﺱ ﻛﮯ ﻧﺎﻡ ﻛﯽ ﻧﺬﺭﻭﻧﯿﺎﺯ ﺩﯾﻨﺎ, ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩﺳﺖ ﺑﺴﺘﮧ ﻛﮭﮍﺍ ﮨﻮﻧﺎ, ﺍﺱ ﰷ ﻃﻮﺍﻑ ﻛﺮﻧﺎ, ﺍﺱ ﺳﮯ ﻃﻤﻊ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﺭﻛﮭﻨﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮨﯿﮟ ۔ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺍﻟﻮﮨﯿﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﰷﻡ ﺻﺮﻑ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﮨﯽ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻛﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ﻗﺒﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻛﮯ ﻣﺮﺽ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﻋﻮﺍﻡ ﻭﺧﻮﺍﺹ ﺍﺱ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺍﻟﻮﮨﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻙ ﰷ ﺍﺭﺗﲀﺏ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﻛﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﻭﮦ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﻓﻮﻥ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺕ ﺷﺪﮦ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺷﺮﻙ ﮨﮯ ۔
٣ ۔ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺻﻔﺎﺕ ﰷ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻛﯽ ﺟﻮ ﺻﻔﺎﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ, ﺍﻥ ﻛﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﻛﺴﯽ ﺗﺎﻭﯾﻞ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﻛﮯ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺻﻔﺎﺕ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯿﮟ ۔ ﻣﺜﻼﹰ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺻﻔﺖ ﻋﻠﻢ ﻏﯿﺐ ﮨﮯ, ﯾﺎ ﺩﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺍﯾﻚ ﻛﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ, ﰷﺋﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﰷ ﺗﺼﺮﻑ ﻛﺮﻧﮯ ﰷ ﺍﺳﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ, ﯾﮧ ﯾﺎ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟٰﮩﯿﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﺻﻔﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﹴ ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﻛﺴﯽ ﻧﺒﯽ, ﻭﻟﯽ ﯾﺎ ﻛﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮧ ﻛﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻛﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺷﺮﻙ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻗﺒﺮﭘﺮﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻙ ﻛﯽ ﯾﮧ ﻗﺴﻢ ﺑﮭﯽ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﹴ ﻛﯽ ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻛﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﯾﻚ ﻛﺮ ﺭﻛﮭﺎ ﮨﮯ ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔
(١٠) ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻛﮯ ﻛﺌﯽ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮨﯿﮟ ۔ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻛﺮﻧﺎ, ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺩﯾﻨﺎ, ﻣﻨﺰﻝ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﻨﺎ ۔ ﺍﺳﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ, ﺗﻮﻓﯿﻖ, ﺍﻟﮩﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﻻﻟﺖ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻛﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻓﺮﻣﺎ, ﺍﺱ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻛﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎ, ﺗﺎﻛﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺿﺎ ( ﻣﻨﺰﻝ ﻣﻘﺼﻮﺩ ) ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ۔ ﯾﮧ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﻣﺤﺾ ﻋﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﻜﺘﯽ ۔ ﯾﮧ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﻭﮨﯽ "الإِسْلام" ﮨﮯ, ﺟﺴﮯ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﺏ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﮯ ۔
(١١) ﯾﮧ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﻛﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮨﮯ ﻛﮧ ﯾﮧ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ, ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮨﻮﺍ, ﯾﮧ ﻣﻨﻌﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﮔﺮﻭﮦ ﮨﮯ ﺍﻧﺒﯿﺎ ﺷﮩﺪﺍ ﺻﺪﯾﻘﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﰷ ۔ ﺟﯿﺴﺎ ﻛﮧ ﺳﻮﺭﺊ ﻧﺴﺎﺈ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا ( النساء۔ ٦٩ ) ﹾ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﹴ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وسلم ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﻭﮦ ( ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺭﻭﺯ ) ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻦ ﭘﺮ اللہ تعالٰی ﻧﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻛﯿﺎ, ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻧﺒﯿﺎ, ﺻﺪﯾﻘﯿﻦ, ﺷﮩﺪﺍ, ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ, ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﯽ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺏ ﮨﮯ ۔ ﹿ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻛﺮﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﰷ ﯾﮧ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وسلم ﮨﯽ کا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﮯ, ﻧﮧ ﻛﮧ ﻛﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺳﺘﮧ ۔
(١٢) ﺑﻌﺾ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﻛﮧ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ ( ﺟﻦ ﭘﺮ اللہ کا ﻏﻀﺐ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺍ ) ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ضَالِّيْنَ( ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ) ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﺼﺎﺭﱝ ( ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ) ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺣﺎﺗﻢ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ﻛﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ۔ " لا أَعْلَمُ خِلافًا بَيْنَ الْمُفَسِّرِينَ فِي تَفْسِيرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ : بِالْيَهُود وَ الضَّالِّينَ بالنَّصَارَى" ( ﻓﺘﺢ ﺍﻟﻘﺪﯾﺮ ) ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺻﺮﺍﻁ ﻣﺴﺘﻘﯿﻢ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻛﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﻛﮧ ﻭﮦ ﯾﮩﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﺎﺭﱝ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻛﯽ ﮔﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭻ ﻛﺮ ﺭﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮩﻮﺩ ﻛﯽ ﺑﮍﯼ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺑﻮﺟﮭﺘﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ, ﺁﯾﺎﺕ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﻠﮧ ﻛﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ, ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ علیہ السلام ﻛﻮ ﺍﺑﻦ اللہ ﻛﮩﺘﮯ, ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺒﺎﺭ ﻭﺭﮬﺒﺎﻥ ﻛﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﺣﻼﻝ ﻛﺮﻧﮯ ﰷ ﻣﺠﺎﺯ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻧﺼﺎﺭﱝ ﻛﯽ ﺑﮍﯼ ﻏﻠﻄﯽ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﻛﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ عیسٰی علیہ السلام ﻛﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻮ ﻛﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ابْنُ اللهِ ﺍﻭﺭ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ ( ﺍﹴ ﰷ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺧﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﻚ ) ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﯿﺎﮞ ﻋﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺫﻟﯿﻞ ﻭ ﺭﺳﻮﺍ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍللہ تعالٰی ﺍﺳﮯ ﺿﻼﻟﺖ ﻛﮯ ﮔﮍﮬﮯ ﺳﮯ نکالے, ﺗﺎﻛﮧ ﺍﺩﺑﺎﺭ ﻭﻧﻜﺒﺖ ﻛﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺳﮯ وﮦ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮦ ﺳﻜﯿﮟ ۔
ﺳﻮﺭہ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻛﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﻛﮩﻨﮯ ﻛﯽ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺗﺎﻛﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﮨﺮ ﺍﯾﻚ ﻛﻮ ﺁﻣﯿﻦ ﻛﮩﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم( ﺟﮩﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ) ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﻛﮩﺎ ﻛﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺑﮭﯽ, ﺣتٰی ﻛﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮔﻮﻧﺞ ﺍﭨﮭﺘﯽ ( ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ۔ ﺍﺑﻦ ﻛﺜﯿﺮ ) ﺑﻨﺎﺑﺮﯾﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﻛﮩﻨﺎ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻛﺮﺍﻡ کا ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﮧ ﮨﮯ ۔ ﺁﻣﯿﻦ ﻛﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﯿﺎﻥ ﻛﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔ "كَذَلِكَ فَلْيَكُنْ" ( ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ ) " لا تُخَيِّبْ رَجَاءَنا" ( ﮨﻤﯿﮟ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﻧﮧ ﻛﺮﻧﺎ ) "اللَّهُمَّ! اسْتَجِبْ لَنَا" ( ﺍﮮ ﺍﹴ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﻟﮯ ) ۔

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558421 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More