خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوٸم

ذہنی دباٶ کا شکار عورتیں معذور بچوں کو جنم دیتی ہیں جو کہ معاشرے کےساتھ انتہاٸ ظلم اور کھلی دشمنی ہے۔ عورت سب کچھ خاموشی سے سنتی اور سہتی رہتی ہے کہتی بھی ہے تو صرف اتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آگہی کی منزلیں اور شعور لے کر کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بیٹی مشرق ہی کی ہوں یہ پا کے بھی کیا کروں۔ یہ شعر آج کی عورت کی زبوں حالی کی عکاسی کرتا ہے جس نے شاٸد خود اپنے آپ کو مظلوم بنا رکھا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت خاموشی سے رشتہ توڑ کر آواز سے ناطہ جوڑے یہ صرف اس کی ذات کے لیۓ ہی بہتر نہیں بلکہ پوری نوع انسانی پر احسان عظیم ہوگا۔آج ضرورت اس امر کی ہےکہ عورت اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوۓ اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوۓ معاشرے کا اک فعال فرد بننے کی کوشش کرے ۔صرف خاموش تماشاٸ بن کر نہ بیٹھ رہے ۔اپنی راۓ کا اظہار کرنا سیکھے۔مثبت انداز میں اپنا نقطعہ نظر بیان کرے۔مردوں کے شانہ بشانہ چلے تاکہ اک متوازن معاشرہ تشکیل پاسکے۔دنیا کی ہر چیز میں خوبصورتی توازن کے باعث ہی ہے۔انسانی زندگی میں مرد و عورت کے باہمی تعلق میں اور آپس کے رویوں میں ایک مناسب توازن ضروری ہے۔یہی توازن انصاف کو برقرار رکھنے کا باعث بنتا ہے۔انصاف ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کے باعث صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔آج سے معاشرے کا کارآمد فرد بنیۓ ۔گھر کے معاملات میں راۓ دیجیۓ کہ یہ آپ کا بنیادی حق ہے۔وہ زمانے گۓ جب کہا جاتا تھا کہ ” ایک چپ سو سکھ“ جدید دور کا محاورہ تو اسطرح ہونا چاہیُۓ ”ایک چپ سو دکھ“اس لیۓ بولیں ضرور بولیں منہ میں موجود زبان خدا نے آپکو بھی بولنے کے لیۓ دی ہے صرف ہانڈی کا مصالحہ چکھنے کے لیۓ نہیں دی ۔اس لیۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔

Tahira afzaal
About the Author: Tahira afzaal Read More Articles by Tahira afzaal: 15 Articles with 15758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.