اسلام محبت اور امن و رواداری کا دین ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے
جب مکہ سے مدینہ شریف ہجرت فرمائی تھی تو وہاں پہنچ کر انصار و مہاجرین کے
درمیان مواخات کا نظام قائم کیا تھا جس سے مہاجرین اور انصار باہم بھائیوں
کی طرح رہنے لگے ،انصار نے اپنے مال اور گھروں کو مہاجرین کے لئے وقف کردیا
تھا اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’واعتصموا
بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور
تفرقوں میں نہ پڑو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان (امت) ایک جسد واحد کی
طرح ہے جس طرح جسم کے کسی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اسے محسوس
کرتا ہے اسی طرح اگر ایک مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے تو پوری امت مسلمہ اس
کی تکلیف محسوس کرتی ہے ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
’’مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہ وَالَّذِنَ مَعہ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکفَّارِ
رُحَمَاءُ بَینھم ہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور ان
کے ساتھی (صحابہ کرامؓ) کفار کے مقابلے میں چٹان کی طرح سخت ہیں جبکہ آپس
میں ریشم کی طرح بالکل نرم اور محبت کرنے والے ہیں ۔نبی مہربانﷺ کا فرمان
مبارک ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں ‘‘ ایک بار نبی کریمﷺ نے بیت اللہ شریف کے غلاف کو پکڑ کر فرمایا تھا
’’اے کعبہ! تو بہت محترم ہے لیکن ایک انسان کی جان تم سے بھی زیادہ محترم
ہے ‘‘۔اسی طرح قرآن پاک میں ’’ایک انسان کی جان بچانا گو یا پوری انسانیت
کی جان بچانے اور ایک انسان کی جان کو نقصان پہنچانا گویا پوری انسانیت کو
نقصان پہنچانے ‘‘کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں جن پر ایمان لانا یعنی ان کو تسلیم کرنا
ضروری ہے کلمہ توحید یعنی اللہ کی واحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا
اقرار،نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ۔جو شخص ان پانچ بنیادوں اصولوں کو تسلیم کرکے
ان پر عمل کرتا ہے تو وہ مسلمان ہے ۔امت مسلمہ میں بنیادی طور پر چار بڑے
مسالک ہیں جن میں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی شامل ہیں ۔یہ مسالک بھی
مسلمانوں کے فہم دین میں معاون ثابت ہوتے ہیں تا کہ مسلمان پورے دین پر
آسانی کے ساتھ عمل کرسکیں اسی طرح اہل تشیع بھی ہیں ۔مسلمانوں کے تمام
مسالک کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ فقہی وعلمی ہے یا فروعی ہے اور
ان اختلافات کی بنیاد پر کسی مسلک پر کاربند کسی دوسرے مسلک والے کو کافر
قرار نہیں دے سکتا ۔بدقسمتی سے ایسے مسائل جو منبر و محراب کی بجائے علما
کی مخصوص نشستوں میں زیربحث آنے چاہیئے تھے انہیں پبلک میں زیر بحث لانے سے
اختلافات کی نوعیت تبدیل ہوگئی جس سے اسلام مخالف اور وطن دشمن قوتوں نے
بھرپور فائدہ اٹھایا ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ مذہب و مسلک کے نام پر قتل و
غارت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مختلف مسالک کے درمیان اسلام دشمن عناصر فاصلے
پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ،اگر عوامی سطح پر دیکھا جائے تو عوام کے
اندر عمومی معاملات میں دیوبندی ،بریلوی ،اہلحدیث اور اہل تشیع کی تفریق
نہیں پائی جاتی لیکن بعض مخصو ص حالات میں یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔اور
ہمارے دشمن بھی چاہتے ہیں کہ مسلمان خاص طور پر اہل پاکستان آپس میں دست و
گریبان ہوں اور باہمی خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا
سکیں ۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور کفار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح
کھٹکتا ہے ،اسے کمزور کرنے اور عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے امریکی
خفیہ ایجنسی سی آئی اے ،انڈین ایجنسی را،سمیت دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں
اسی مشن پر کام کررہی ہیں ۔کوئی بھی ملک شکست نہیں کھا سکتا اور کمزور نہیں
ہوسکتا اگر اس کے باشندے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح باہم متحد ہوں ،یہ
کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ملک کے اندر سے کچھ عناصر دشمن کا ایجنڈا
دانستہ یا نادانستہ مکمل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔
مذہبی منافرت پھیلا کر اور علماکرام کو قتل کرکے لوگوں کو مسلکی بنیادوں پر
لڑانا دشمن ایجنسیوں کا سب سے بڑا مشن ہے اور بعض اوقات اس مشن کی تکمیل
میں ہمارے اپنے لوگ نادانستہ طور پر معاون بنتے ہیں جب وہ جذبات اور شدت
پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالف مسلک کے خلاف بات کرتے ہیں جس سے لوگوں کے
مابین نفرت اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور آخر نوبت ایک دوسرے کے لوگوں کی
قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے۔عام افراد کے ساتھ علما کرام بھی ان کا نشانہ
بنتے ہیں اور پھر یہ آگ بڑھتے بڑھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے
۔اس وقت علما کرام دشمن کے نشانے پر ہیں ،ماضی میں بھی کئی علما ء کرام کو
نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا اور کچھ دنوں پہلے کراچی میں مفتی تقی عثمانی
پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے ۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ علما کرام ذمہ داری کا ثبوت خود بھی دیں اور اپنے معتقدین کو اس امر کا
پابند بنائیں کہ وہ رواداری اور برداشت پیدا کریں ۔مقتدر حلقے قرآن و سنت
کی روشنی میں آئین و قانون کا جائزہ لیکر علماء کرام کی مدد سے کسی بھی سقم
کی بیخ کنی کریں۔
ہمارا دشمن بہت شاطر ہے ،وہ بہت منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کھیل کھیل رہا ہے
،ہم اس کی چال کو اس پر الٹ سکتے ہیں اگر اہم اپنے اندر برداشت ،تحمل ،
بردباری اور رواداری کا مادہ پیدا کریں ۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا
حشر بھی خدانخواستہ لیبیا کی طرح ہوسکتا ہے جہاں معاشرے میں پہلے انارکی
اور نفرت پھیلا کر خانہ جنگی شروع کرائی گئی اور بالآخر غیر فطری طریقہ سے
حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔لیبیا کے عوام ابھی تک رو رہے ہیں اور وہاں
حالات نارمل نہیں ہوسکے ۔علما کرام اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ،عوام اپنی
ذمہ داریاں پوری کریں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری
کریں ،ہمیں ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے متحد ہوکر کام کرنا ہوگا ۔ہمیں
دشمن کو شکست دینا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے اندر مذہبی و مسلکی
ہم آہنگی پیدا کریں۔ |