کوئی ہے؟

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ ہم سب پر’’رحم‘‘ فرمائے.دل میں شوق اٹھتا ہے کہ مسلمانوں میں تین چیزوں کی زور دار محنت چلائی جائے﴿۱﴾ کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ﴿۲﴾ اقامتِ نماز﴿۳﴾ جہاد فی سبیل اﷲ. یہ محنت مسلمان مردوں میں بھی چلے اور عورتوں میں بھی. مگر دل میں درد محسوس ہوتا ہے کہ کون اس عظیم محنت کو لیکر کھڑا ہو. سچ یہ ہے کہ ان تین باتوں کو اکٹھے لے کر چلنے کی ضرورت ہے. کلمہ طیبہ ایسا ہو کہ دل کی گہرائی اور خون کے ذرّات تک میں گھسا ہوا ہو. یہ عظیم کلمہ ہے. ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ اس دنیا کا سب سے طاقتور کلمہ ہے. یہ اس دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے. یہ حقیقی کلمہ ہے. ایٹم بم وغیرہ کی طاقت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے. یہ کلمہ طاقت اور قوّت کا عظیم خزانہ ہے. جو اس کو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، جتنا زیادہ سمجھتا ہے اور جتنا زیادہ اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ اُسی قدر زیادہ اس کی طاقت سے فیض یاب ہوتا ہے. آج کل کے پُر فتن حالات میں ہر مسلمان مرد اور عورت کو روزآنہ کم از کم بارہ سو بار.’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کا ورد کرلینا چاہیے. اس سے ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے اور باطن میں نور اور ایمانی قوّت پیدا ہوتی ہے. ایک صاحب کو شوق تھا کہ ُانہیں چالیس دن تک مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز نصیب ہو جائے. کافی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوتے تھے. کبھی بیس دن بعد،کبھی اس سے زیادہ یا کم دنوں کے بعد کسی نماز کی تکبیر اولیٰ چھوٹ جاتی. ویسے کافی صدمے اور غم کی بات ہے نا؟. مسلمان کے لئے سب سے ضروری کام’’نماز‘‘ہے. مسلمان کے لئے سب سے اہم حکم’’نماز‘‘ ہے. مسلمان کے لئے سب سے لازمی چیز’’نماز‘‘ ہے. پھر نماز میں سُستی کا کیا مطلب؟. دل میں ایمان ہو تو مسلمان کو نماز کا انتظار رہتاہے. حضور اقدس ﷺ حضرت بلال(رض) سے فرماتے تھے اے بلال نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہنچاؤ. نماز تو لذّت، راحت، برکت، رحمت اور نورانیت کا مجموعہ ہے. نماز میں سستی ’’نفاق‘‘ کی سب سے واضح علامت ہے. حضرت سہل بن عبداﷲ (رح) فرماتے ہیں کہ ایمان کے سچا ہونے کی علامت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ مؤمن کے لئے ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو نماز کے وقت اُسے نماز پر ابھارتا ہے اور اگر وہ سو رہا ہو تو اُسے جگا دیتا ہے. کیا ایک مسلمان صرف چالیس دن بھی اس کی پابندی نہیں کر سکتا کہ وہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرے؟. یقیناً خطرے کی بات ہے ، رونے اور دھاڑیں مارنے کا مقام ہے. ہر مسلمان غور کرے کہ اُسے اپنی زندگی میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے یا نہیں؟. جن کو نصیب نہ ہوئی ہو اُن کو تنہائی میں رونا چاہئے اور التجا کرنی چاہئے کہ یا اﷲ ایمان نصیب فرما. بے شک نماز ’’ایمان‘‘ کی سب سے بڑی علامت ہے. اور یہ ’’ایمان‘‘ کا سب سے پہلا تقاضا ہے. جب ہم نے’’ایمان ‘‘ کا پہلا حکم ہی ٹھیک طریقے سے نہیں مانا تو پھر ایمان کتنے دن تک ہمارے دل میں رہے گا؟. گھر میں کوئی بہت معزز اور محبوب مہمان آجائے اور اُس کے آنے سے ہمارا گھر خیر اور برکت سے بھر جائے. وہ مہمان شرط رکھ دے کہ میں اُس وقت تک یہاں رہوں گا جب تک آپ فلاں فلاں کام کریں گے. اور ان کاموں میں سب سے اہم اور ضروری فلاں کام ہے. پھر وہ چھ سو بار تاکید کرے کہ یہ کام ضرور کرنا ہے. مگر ہم اُسی کام میں سستی کریں تو کسی دن وہ مہمان چپکے سے گھر چھوڑ کر چلا جائے گا. اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی دولت عطا فرمائی. ایمان کی برکت سے ہمارا دل روشن ہو گیا اور ہم دنیا اور آخرت میں اﷲ تعالیٰ کے مقرب بن گئے. ایمان کی برکت سے ہمیں جہنم سے نجات کا وعدہ ملا. جنت کی نعمتوں کی بشارتیں ملیں. کعبہ شریف ملا،مسجدیں ملیں. آج دنیا کے کافروں کو دیکھیں وہ کعبہ شریف سے محروم ، حجر اسود سے محروم، روضہ اقدس واطہر سے محروم. مسجد حرام اور مسجد نبوی سے محروم. مسجد اقصیٰ سے محروم. رمضان اور عیدا لفطر سے محروم. حج اور عید الاضحیٰ سے محروم. درود شریف اور استغفار سے محروم. جنت اور اس کی حوروں سے محروم. اذانوں اور مسجدوں سے محروم. آج دنیا کے ’’ارب پتی‘‘ کافروں کی آنکھوں سے ایک منٹ کے لئے پردہ ہٹا دیا جائے اور انہیں دکھا دیا جائے کہ ایک بار ’’سبحان اﷲ‘‘کہنے سے کیا ملتا ہے تو وہ اپنی دولت کو پیشاب کے قطرے سے بھی زیادہ حقیر سمجھنے لگ جائیں. ایمان کی برکت سے مسلمانوں کو سبحان اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر جیسے عظیم کلمات ملے. اب ایمان نے ہمیں چند باتوں کا حکم دیا ان میں سب سے زیادہ تاکید’’نماز‘‘ کی فرمائی. ہم نے نماز کو ہی نہ سمجھا اور نہ اپنایا تو پھر خطرہ ہے نا؟ کہ یہ ایمان کسی دن ہمارے دل کو چھوڑ کر چلا جائے. یا اﷲ رحم، یا اﷲ رحم،یا اﷲ رحم. ایمان نہ رہا تو پھر کتّے بھی ہم سے اچھے، سور اور خنزیر بھی ہم سے اچھے. یا اﷲ آپ کی پناہ، یااﷲ آپ کی پناہ. ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم دولت ایمان کی قدر کرتے ہوئے نماز کے ساتھ عشق والا رشتہ بنا لیں. اس کے لئے بہت زور دار محنت کی ضرورت ہے. اور یہ محنت جہاد اور دینی غیرت کی دعوت کے ساتھ ہو تو اس میں جان پڑے گی. دینی غیرت انسان کے ایمان کو خالص اور مضبوط کر دیتی ہے. جہاد، دینی غیرت اور قربانی کی دعوت نہ ہو تو لوگ نماز بھی دنیاوی مقصد کے لئے بنالیتے ہیں . کہ رزق میں وسعت ہو جائے گی، لوگوں میں عزت ہو جائے گی. زندگی آسان ہوجائے گی، کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی. اگر صرف یہ نیت ہو تو پھر نماز بے جان ہو جاتی ہے. وہ بھی دکان اور کام پر جانے کی طرح ایک ڈیوٹی بن جاتی ہے. ایسی بے جان نماز نہ گناہوں سے روکتی ہے نہ فواحش سے.ایسی کمزور ’’نماز‘‘ ایمان کی کیا حفاظت کر سکے گی؟. اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز سے رزق میں وسعت ہوتی ہے. اور بھی بے شمار دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر. نماز کا اصل مقصد یہ نہیں ہے. آپ نے کبھی سوچا کہ حضرت آقا مدنیﷺ سے بڑھ کر کسی کی نماز ہو سکتی ہے؟. آپﷺ کی نماز کے بارے میں لکھا ہے کہ صرف جسم مبارک دنیا میں ہوتا تھا جبکہ روح مبارک اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتی تھی. اور آپﷺ کی جان مبارک’’ملکوت‘‘ میں ہوتی تھی. اسی لئے آپﷺ کو جتنی راحت نماز سے ملتی تھی اتنی کسی چیز سے نہیں. آپﷺ نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرماتے تھے. آنکھیں تو نہ گرم ہوتی ہیں نہ ٹھنڈی. آنکھوں کی ٹھنڈک عربی زبان کا محاورہ ہے. اس کا مطلب دل کی بہت زیادہ خوشی اور جسم کی بہت زیادہ راحت ہوتا ہے. یعنی ایسا سرور جو دل سے لے کر آنکھوں تک چھا جائے ایک خاص سرمستی اور سرشاری. اسے آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں. مثلاً ہم میں سے جو مال کے شوقین ہیں اور کچھ غریب بھی ہیں اُن کو اچانک کوئی پچاس لاکھ روپے یا ایک کروڑ ھدیہ کر دے. اُس وقت دل،آنکھوں یا جسم پر جو کیفیت ہوتی ہے اسے آپ آنکھوں کی ٹھنڈک سے تشبیہ دے سکتے ہیں.نماز آقا مدنیﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی.بعض اوقات آپﷺ کی پوری رات نماز میں گزر جاتی.مگر اس کے باوجود جہاد کے زخم بھی لگے. گھر میں فاقے بھی آئے. دشمنوں نے ستایا بھی. معلوم ہوا کہ نماز صرف رزق اور ظاہری امن کا ذریعہ نہیں بلکہ اسلام کا لازمی حکم اور فریضہ ہے. بہت سے ائمہ اور علما کے نزدیک تو نماز کا ترک کرنا کفُر ہے. قرآن پاک میں نماز کی آیات پڑھیں، احادیث مبارکہ میں نماز کے باب کو پڑھیں تو یہی لگتا ہے کہ اگر عقیدے کا کفر نہ بھی ہو تو عملی کفر ضرور ہوجاتا ہے. اﷲ پاک رحم فرمائے. آج تو ہر گھر بے نمازی مردوں اور عورتوں کی نحوست سے بھرا پڑا ہے. نمازی لوگ سارا دن کماتے ہیں اور اپنے بے نمازی بچوں کو کھلاتے ہیں. بات ایک صاحب کی چل رہی تھی انہیں بہت تمنا تھی کہ کسی طرح چالیس دن تکبیر اولیٰ نہ چُھوٹے. بتاتے ہیں کہ روتے گڑ گڑاتے بھی تھے کہ یا اﷲ نفاق اور جہنم سے برأت کی یہ علامت کب نصیب ہوگی؟. کئی بار تو بالکل قریب پہنچ کر رہ جاتے. تب انہیں یہ عمل بتایا گیا کہ آپ روزآنہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ بارہ سو بار پڑھنے کا معمول بنائیں. کلمہ طیبہ کی قوت دیکھیں کہ جیسے ہی انہوں نے شروع کیا تو فرشتہ مقرر ہو گیا. وہ سوتے تو جگا دیئے جاتے، بیمار ہوتے تو نماز کے وقت قوت آجاتی اور پھر اُن کا یہ دینی شوق بھی پہلی جست ہی میں پورا ہوگیا کہ بغیر کسی رکاوٹ کے وہ ’’تکبیر اولیٰ‘‘ کا چلّہ کرنے میں کامیاب ہو گئے. اور ماشا اﷲ اس چلّے کی برکت یہ ہے کہ انسان کو نماز اور تکبیر اولیٰ سے خود بخود محبت پیدا ہو جاتی ہے. اور نماز سے محبت کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے. اﷲ کرے مسلمان عورتوں کو بھی نماز کا شوق نصیب ہوجائے. وہ بھی چالیس دن کا چلّہ آسانی سے کر سکتی ہیں. طریقہ یہی ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع کریں. اﷲ تعالیٰ سے توفیق مانگیں. کسی کے سامنے تذکرہ نہ کریں اور نہ خود کو نیک سمجھ کر دوسروں سے لڑائیاں کریں. نماز کا نقشہ منگوائیں. ہر نماز کا اول وقت دیکھیں. اور پھر پابندی سے ہر نماز اوّل وقت میں اہتمام سے ادا کریں. درمیان میں کسی کا ناغہ آجائے تو فکر کی بات نہیں. جو عذر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہو وہ ناغے میں شمار نہیں ہوتا. دن گن کر رکھ لیں اور جب پھر نماز شروع کریں تو چلّے میں سے باقی کے دن پورے کر لیں. جی ہاں. اے اﷲ کی پیاری بندیوں! چالیس دن اپنے محبوب حقیقی اور اپنے مالک حقیقی کے لئے دے دو. بارہ سو بار ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ پڑھا کرو. ہر ایک سو پورا ہونے پر مکمل کلمہ اور درود شریف پڑھ لیا کرو. دل پرستی کا حملہ ہو یا آزادی اور گناہوں کی رغبت ہو تو لاحول ولاقوۃ الا باﷲ. ایک ہزار بار پڑھ لو. قبر کا عذاب اور جہنم بہت مشکل ہے. دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو تو سورۃ التکاثر﴿ الھکم التکاثر﴾ تین بار پڑھ کر دعا کر لیا کرو. کوٹھی، کار. اور غلام خاوند کا شوق انشا اﷲ دل سے نکل جائے گا.مصیبت اور بیماری آئے تو خود کو شیطان کے حوالے نہ کرو. ایسے مواقع پر شیطان کان میں کہتا ہے کہ تمہاری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی، تم بد نصیب ہو. بس اٹھو اور گناہوں میں لگ جاؤ. ایسا ہو تو دس بار. اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم.پڑھ لیا کرو. یا .اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم. اور میری بہنوں! ایک بات یاد رکھو. وہ یہ کہ دوسری مسلمان بہنوں کو کلمے اور نماز کی دعوت ضرور دیا کرو. اور جہادی احادیث اور واقعات بھی سنایا کرو. دعوت دینے سے اپنا ایمان مضبوط ہوتا ہے. اس دعوت کے لئے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں بلکہ گھر میں ہی جو مل جائے اُسے دعوت دو. ایمان بہت قیمتی چیز ہے اُس کی حفاظت اپنے زیورات سے زیادہ کرو. ہاں! میرے دل میں بہت درد اٹھتا ہے. میں چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی کلمہ طیبہ نصیب فرما دے. زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی. اور میری نمازیں ایسی ہوجائیں کہ نماز کی اقامت کا حق ادا ہوجائے. اور میں جہاد فی سبیل اﷲ کو سمجھ لوں، اور اس کے ذریعہ اسلام کی بلند ترین چوٹی تک پہنچوں. اور اﷲ پاک سے شہادت کا حسین خاتمہ پاؤں. اﷲ پاک میرے لئے یہ تین کام آسان فرما دے. اور دل میں یہ درد اٹھتا ہے کہ سب مسلمان جی ہاں! پوری امت مسلمہ میں ان تین کاموں کی آواز لگائی جائے. اس کیلئے زور دار محنت چلائی جائے. اس کے لئے مخلص اور باعمل مبلغین تیار کئے جائیں. ان تین اعمال سے انشا اﷲ ہمارے دل کی دنیا آباد ہو جائے گی اور ہمارے لئے پورے دین پر چلنا. اور ہر سعادت کو پانا آسان ہو جائے گا. اور ان تین اعمال سے انشا اﷲ ساری دنیا کا نقشہ بھی تبدیل ہو جائے گا. اے مسلمانوں! کوئی ہے جو اس درد اور فکر میں ہمارا ساتھ دے. کوئی ہے؟ کوئی ہے؟.
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا.
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210684 views A Simple Person, Nothing Special.. View More