سپریم کورٹ میں سرکاری سکولوں کے حوالے سے اہم کیس۔ حقائق کیا ہیں

 منگل 9 اپریل 2019 کا دن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اہم موڑ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کہ عام آدمی کی آواز ہے۔پاکستان کے سماج میں بگاڑکی بہت بڑی سرکاری سکولوں کا زوال ہے۔ اے کاش ملک کا حکمران طبقہ اِس بات کو پیش نظر رکھے کہ عام آدمی کو تعلیمی سہولیا ت نہ ملنے سے ٹیلنٹ تباہ برباد ہو رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سماج میں اونچ نیچ کی خلیج میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔آیئن پاکستان کی روح کے منافی حکومت عوام سے بنیادی تعلیم کی فراہمی کاحق چھین چکی ہے۔ حکومت اشرافیہ کا ایک ایسا ہولناک گروہ بن چکا ہے جو ایک ڈائین بن چکی ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھارہی ہے۔ اِس ملک کا پچانوے فی صد طبقہ سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم میں کمی کی بدولت نجی سکولوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہے اور نجی سکولوں نے جو لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے خدا کی پناہ۔ پاکستان کے ساتھ تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ کی جارہا ہے۔ یہ وہ ظلم ہے جو ریاست خود اپنی اولاد پر ڈھا رہی ہے۔
جس معاشرئے میں اُستاد کی وقعت ایک پیسے کمانے والی مشین کی ہو۔ جس معاشرئے میں اُستاد کو اپنی تنخواہ برھانے کے لیے مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑئے اور پھر پولیس اہلکاروں سے ڈنڈئے کھانے پڑیں۔اُس معاشرئے میں تعلیمی نظام کا حشر کیا ہوگا۔ کلاس در کلاس۔ امیر لوگوں کے لیے نظامِ تعلیم اور۔ متوسط طبقے کے لیے اور، لوئر مدل کلاس کے لیے اور نظام۔ نچلے طبقے کے لیے اور۔ اتنی تقسیم سے نبر دآزما ہونے کے بعد اِس نظام تعلیم کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔

پاکستان میں تعلیم کا جو حشر ہو رہا ہے وہ ایک ایسی گھناونی سازش ہے کہ جس کی مثال شاید انگریز دور کے متحدہ ہندوستان مین بھی نہ ملتی ہو۔ جس قوم کے راہبر حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے سب سے زیادہ خوبصورت لفظ معلم انسانیت پسند فرمایا ہو اور آج مملکت خداد اد پاکستان میں تعلیم کو جس طرح امتیازی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے یہ آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہے۔ گلی محلے میں وہ لوگ جو جو سبزی بیچتے تھے انہوں نے 3,4 مرلے کے گھر میں ڈربہ نما سکول بنا رکھے ہیں جہاں اساتذہ کی ذمہ داری آٹھویں پاس اور میٹرک فیل وہ لڑکیاں انجام دے رہی ہیں جن کا اپنا مستقبل تاریک ہے۔ اور یہ سکول محکمہ تعلیم کی ناک تلے خوب ترقی تررہے ہیں۔ چند سو روپے فیس، کتابوں کی من مانی قیمتیں کاپیوں کی مد میں بچوں کے والدین کی جیب پر ڈاکہ، اور بچوں کی تربیت کا یہ عالم کے بچے گھر آ کر اپنی ٹیچر اور سکول مالک کے معاشقو ں کے قصے سناتے ہیں۔ اگر اعداد وشمار اکٹھے کیے جائیں تو پتہ چلے گا کہ اِس طرح کے سکول جو گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں اْن کے مالک جو ہیں وہ ایک سے زائد شادیاں رچائے بیٹھے ہیں۔ تعلیم و تربیت اور مشنری جذبے سے عاری یہ سکول نسل کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ اِس سے ذرا وپر جائیں تو دیکھتے ہیں نسبتاٌ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ خواتین و حضرات نے سکول کھول رکھے ہیں۔ اْن کی فیس ایک ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ ایسے سکول چند مرلے یا کسی مارکیٹ کے اوپر چند دکانوں میں کھلے ہوتے ہیں۔ یہ سکول زبردستی کتابیں اور کاپیاں خود دیتے ہیں اور منافع کی شرح 100% سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اِن سکولوں میں سٹاف میٹرک، ایف اے، بی اے وغیرہ ہوتا ہے اور تعلیمی میعار یہاں بھی ناقابل بیان ہے۔ انتہائی قلیل تنخواہ مثلاٌ بی اے پانچ ہزار روپے ماہانہ اور آٹھ آٹھ پریڈ پڑھوائے جاتے ہیں اِن حالات میں کوالٹی کا تو جنازہ ہی نکالے گا۔ اکثر میٹرک کے بچے خواتین اساتذہ کے قابو نہیں آتے اور وہ لڑائی مار کٹائی میں مصروف عمل رہتے ہیں اوپر سے موبائل نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے اور جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاٌ خواتین کو پانچ چھ ہزار روپے کی خاطر سخت مشقت کرنا پڑتی ہے۔۔ وہ مشقت صرف نشستن اور برخاستن تک محدود ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ آئے دن فنکشن کرکے سکول کے طلبہ و طالبات کا دل بہلایا جاتا ہے اور بچوں سے فنکشن کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ اِن فنکشنوں میں انگریزی اور ہندوستانی ثقافت کی پرموشن کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو ہندوستانی اور انگریزی گانوں پر ڈانس کروایا جاتا ہے۔اب اگر ہم بیکن ہاؤس، ٹرسٹ سکول، سٹی سکول، شویفات، ایل جی ایس، سلامت سکول سسٹم وغیرہ کی طرف آئیں تو یہاں پر ایک بچے کے ماہانہ تعلیمی اخراجات و آمد و رفت کے اخراجات وغیرہ۔ کتابیں کا پیوں کی مد میں کل ملا کر تقریباٌ 50000\= روپے سے بھی زائد تک بنتے ہیں۔ اِس میں ایچی سن شامل نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سکولوں میں امیر افراد کے بچے یا سرکاری ملازم جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا حرام کی کمائی ہے اْن کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہ ہی بچے ہوم ٹیو شن کے لیے 15 سے 20 ہزار روپے بھی خرچ کرتے ہیں۔ اب ذرا سرکاری سکولوں کی حالت زار پر غور کیجئے۔ سرکا ری سکولوں کے اساتذہ اپنے صدر مدرس کو باقائدہ طور پر ماہانہ بنیادوں پر بھتہ دیتے ہیں تاکہ وہ اْن کے ٹیوشن پڑھا نے کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ ہر کلاس انچارج صدر مدرس کی آنکھ کا نارا ہوتا ہے اور وہ بچوں کو مار پیٹ کر یا کسی طرح بھی ترغیب دے کر ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور یوں یہ کاروبار صدر مدرس کی حصہ داری سے زور شور سے جاری ہے اِ س لیے صدر مدرس کو قطاٌ پرواہ نہیں ہوتی کہ کلاس میں سکول ٹائم میں پڑھائی کا میعار کیسا ہے۔ سرکاری سکولوں میں ہیڈ ماسٹر تمام کلاسوں میں مختلف من پسند پبلشرز کی امدادی کتب لگواتے ہیں اور اِس میں بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ سکول ٹائم میں بھی ٹیوشن کے حساب سے کام کرواتے ہیں۔ اور ٹیوشن کے وقت کی پڑھائی کو compensate کر ر ہے ہوتے ہیں۔سرکاری سکولوں میں انتہائی تعلیم یافتہ ایم اے، ایم ایڈ اساتذہ تعنیات ہیں اور ان تنخواہوں کا اگر جائزہ لیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عام ٹیچر جس کی سروس ۰۱ سال ہے اور وہ بی اے بی ایڈ ہے وہ 50 ہزار روپیسے بھی زیادہ تنخواہ لے رہا ہے۔

صدر مدرس لاکھ روپے سے بھی زیادہ تنخواہ وصول کرتا ہے اسکے علاوہ اساتذہ سے ٹیوشن پڑھانے کا بھتہ علیحدہ اور امدادی کتب میں کمیشن بھی لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے۔ کہ سکول میں چھٹی ہوتے ہی وہی اساتذہ۔ وہی بچے اْن کمروں میں ٹیوشن ورک میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ گویا ماد ہ پرستی نے معلمی کے پیشے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ جو سرکاری سکول مارکیٹوں کے پاس ہیں اْن کے صدر مدرس باقائدہ مارکیٹوں میں موجود دکاندار کی گاڑیاں سکولوں کے اندر پارک کرواتے ہیں اور ان سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ سرکاری سکول میں موجود ہونے والی پڑھائی اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ تھوڑے سے وسائل رکنے والا شخص بھی سرکاری سکولوں کا رخ کرنے میں بے عزتی کرتا ہے۔ حالانکہ سرکااری سکولوں میں اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ لیکن افسوس اخلاق نہیں رہا، جس سے معیار تعلیم اخلاقی گراوٹ کی حد تک گر چکا ہے۔ ان ہی سرکاری سکولوں سے جہاں حکومت اربوں روپے کا بجٹ خرچ کرتی ہے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اْستاد خود بھی پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ اْسے تو ہر حال میں کنگ میکر رہنا چاہئے تھا لیکن وہ اپنا فرض چھوڑ کر خود کنگ بننے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ تعلیم اور کاروبار کو ایک پیمانے پر نہیں پرکھنا چاہیئے۔ آیئن پاکستان کے آٹیکل 25-A میں تو یہاں تک لکھ دیا گیا ہے۔ کہ حکومت کا فرض ہے کہ 16 سال کی عمر تک کے بچوں کو مفت تعلیم د ی جائے۔ رونا صرف مفت تعلیم کا نہیں۔ یہاں تو اذیت ناک امر یہ ہے کہ discrimination Class نے مساوات کے داعی اسلامی ملک میں تعلیم جیسے اہم شعبے میں افسوس ناک صورتحال اختیار کرلی ہے۔ آزادی، رواداری مساوات امن و آشتی اچھی تعلیم و تربیت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہاں سرکاری، پرائیویٹ ادارے۔ مدارس، میٹرک او لیول، کیمبرج کیا کچھ ہماری قوم کے ساتھ مذاق نہیں ہو رہا۔ ایلیٹ کلاس اور متوسط طبقے اپنے لیے اِس Discrmination کی وجہ سے نچلے طبقے کے افراد کو اپنا دشمن بنا چکے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم و تربیت ہو بغیر کسی مذہب، نسل اور کلاس کے سب کی پہنچ میں ہو۔ جب راہبر ہی راہزن کا روپ دھار لیں تو منزل تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیو ں کی فیس بھی Bs اور Ms وغیرہ کے لیے لاکھوں روپے ہے۔ گویا یہ ہمارے معاشرے میں یونیورسٹی اور کارخانے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ تعلیم تو ایک مقدس فریضہ ہے اور ہمارے دین کی اساس ہی لفظ ’’اقراء‘‘ پر ہے۔ پھر یہ تعلیم اور کاروبار دونوں کو ہم معنی کیوں بنا دیا گیا ہے۔ خدارا تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیجیئے بچے خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، امیر ہوں یا غریب تعلیم سب کی پہنچ میں ہونی چاہیئے اور یکساں نظام تعلیم وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کے زندگی کے تمام شعبہ جات میں مساوات کا علم بردار ہے تو تعلیم کے معاملے میں اتنی زیادہ Discriminatiion سمجھ سے بالا تر ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں علم جیسے بنیادی شعبے میں روا رکھا جانے والا یہ امتیاز مختلف سوچ اور خیال کے طبقات کو جنم دے رہا ہے۔ اس کلاس Differance کی بناء پر معاشرتی تفاوت، نفسیاتی رویوں میں تبدیلی اور Rulling کلاس کا غریب افراد سے رویہ کیا یہ سب کچھ مساوات ہے۔ یکساں نصاب، یکساں تعلیمی ادارے، یکساں مواقع یہ سب کچھ کون کرے گا۔ ہمارے ملک میں سیاست دان زیادہ تر سیاسی نعروں پر زندہ رکھتے ہیں۔ قوم کی تعلیمی حالت کو درست کرنے کے لیے ایک لانگ ٹرم منصوبہ بندی درکار ہے۔ میڈیا اور اہل رائے افراد جن کی معاشرے میں نفوذ پذیری بہت زیادہ ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور پوری قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم اور تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع سب کو میسر آنے چا ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیمی ماحول میں مشنری جذبے کی کمی ہے، علم حاصل کرنے والوں کے درمیان محبت خلوص جیسے الفاظ بے معنی بن کر رہ گے ہیں۔ اسا تذہ کا روپے پیسے کی دوڑ میں شامل ہو جانا ایسے ہی ہے کہ سانپو ں کی طرح معاشرہ اپنے ہی انسانو ں کو نگل رہا ہے۔ اشرافیہ نے اپنی رہائیش کے لیے علحیدہ اُونچی اور خاردار تاروں کی فصیلوں میں اعلیٰ درجے کی رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں اسی طرح اُنھوں نے اپنے لیے علحیدہ تعلیمی نظام اور علحیدہ تعلیمی ادارے قائم کر لیے ہیں۔ یہ تو انصاف اور مساوات پر مبنی معاشرے کی حالت نہیں لگتی البتہ یہ تو چھوت چھات کے قائل اُس معاشرے کی کہانی لگتی ہے جس سے ہم نے آزادی ہی اس مقصد کے لیے حا صل کی تھی ہم مساوات، رواداری اور ا پنے رب پاک کے احکامات کے مظابق معاشرہ تشکیل دیں گے ۔ اس مْقصد کے لیے ایسے بیدار مغز افراد کی ضرورت ہے۔ جو روحانی اقدار کا پرچار کرنے والے بھی ہوں اور اُن کو حضر ت امام غزالیٰؒ، داتاعلی ہحویری،ؒ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی نسبتوں کا بھرم رکھنا آتا ہو۔نبی پاک ﷺ کے سچے عاشق ہی پوری قو م کا بھرم رکھ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، خود لوگوں کو نجی سکولز میں داخلوں پر مجبور کرتی ہے، ہمارے سامنے لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں ہیں، سندھ اور پنجاب میں الگ الگ قوانین رائج ہیں، سرکاری سکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں جاتے ہیں، حکومت ہر مدرسے کے ساتھ سرکاری سکول تعمیر کرے، مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ سکول جانا ہے یا مدارس، پہلے گلی محلوں میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے، اب وہ پرائمری سکول بھی نظر نہیں آتے۔ سکولز فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں ہائی کورٹس نے متعلقہ قوانین کے تحت فیصلے کیے۔ وکیل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے والدین مطمئن ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین مطمئن ہیں تو آپ عدالت میں کیا کر رہے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا سکول فیس مقرر کرنے کیلئے رولز موجود ہیں؟ کیا فیس کا تعین کرنے والی کمیٹی سہولیات کا بھی جائزہ لیتی ہے؟۔ وکیل والدین نے کہاکہ فیس کے تعین کیلئے باضابطہ رولز موجود نہیں۔ انہوں نے کہاکہ سندھ کے رولز میں پانچ فیصد تک فیس بڑھانے کی اجازت ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ رولز میں واضح نہیں فیس میں اضافہ سال میں کتنی بار ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سکولز کسی نہ کسی مد میں فیس بڑھاتے ہی رہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کبھی کلب، کبھی ڈیبیٹ سوسائٹی کے نام پر فیس لی جاتی ہے۔ وکیل والدین نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ریگولیشن کے قواعد کو کالعدم قرار دیا۔ وکیل والدین نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ نے ایک اور فیصلے میں ریگولیشن کے قوائد کو قانونی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قواعد کالعدم قرار دینے کے بعد سندھ ہائیکورٹ کیسے بحال کر سکتی ہے،؟آئین کا آرٹیکل 18 کاروبار اور تجارت کی بات کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا سکولنگ تجارت ہے؟ کیا سکولنگ کاروبار ہے،؟۔چیف جسٹس نے کہاکہ سمجھنا ہے کہ تعلیم تجارت میں آتی ہے کہ کاروبار میں۔ نجی سکولز کیساتھ حکومت سے بھی پوچھیں گے وہ کیا کر رہی ہے، میں نے خود سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے گلی محلوں میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے، سرکاری سکول اور ان کا پہلے والا معیار آخر کہاں گیا؟ بھاری فیس ادا نہ کر سکنے والا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری سکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں جاتے ہیں۔ سرکاری سکول تعمیر کرے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سرکاری سکول میں مفت کتابیں، یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ سکول جانا ہے یا مدارس۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عوام کے پاس آپشنز نہ ہونے کی وجہ سے مقدمہ عدالت پہنچا۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ماضی میں سرمایہ کار بورڈ کی پابندیوں سے صنعتوں کی ترقی رکی،پابندیوں سے ہمیشہ ترقی رکنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی نجی ادارے پر قدغن کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ آکسفورڈ کیساتھ منسلک سکول کا معیار دیگر سے بلند ہوگا۔ سہولیات کے عوض فیس وصول کرنا سکولز کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شہریوں کی مرضی ہے وہ بچوں کو کس سکول میں پڑھانا چاہتے ہیں، روپے کی قدر گری تو اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ریاست کی ناکامی سے پیدا خلاء نجی سکولز پورا کر رہے، نجی سکولز کو مادر پدر آزادی بھی نہیں دے سکتے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ سوموار تک ملتوی کر دی گئی۔دورانِ سماعت عدالت نے حکومتوں سے مفت تعلیم کی فراہمی کیلئے کیے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کردیا جب کہ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اعداد و شمار بھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اور کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔اﷲ پاک کرئے کے چیف جسٹس آف پاکستان اِس حوالے سے قوم کے دکھوں کا مدوا کر سکیں۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 431110 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More