سید عطاءاللہ بخاریؒ سے پوچھا گیا۔ شاہ جی آپ کہتے ہیں۔
انسان کی ابتداء حضرت آدمؑ سے ہوئی ہےمگر ڈارون (Darwin)کہتا ہے کہ انسان
بن مانس کی ارتقائی شکل ہے۔ حضرت شاہ جیؒ نے فرمایا کہ میں نے اپنا شجرہ
نصب بیان کیا ہے اس نے اپنا شجرہ نصب بیان کیا ہے۔ یہ خیالی تغیر ڈارون نے
پیش کر کے اپنی بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی
کوشش کی۔ یورپ میں آج بھی چند بے عقل لوگ خود ساختہ تصاویر بنا کر ڈارون
اور اپنی بے عقلی کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید سائینس کی تحقیق بھی ڈارون کی
انسانی ماہئیت کی تصوراتی تغیر کی نفی کر چکی ہے۔
ایک تغیر ہم نے دیکھا کہ ہمارا گاؤں پاکستان کے دور دراز علاقہ میں آزاد
کشمیر کی سرحد کے قریب واقعہ ہے۔ ذرائع آمدورفت پیدل،گدھا، گھوڑا، اونٹ ہوا
کرتے تھے۔ لالہ موسیٰ قریب ترین قصبہ تھا جہاں سے خریدو فروخت کے لئیے لوگ
جایا کرتے تھے جو کہ ہمارے گاؤں سے دس کلو میٹر دور ہے۔ بار برداری کے لئیے
سب سے معتبر ذریعہ اونٹ تھے۔ ہر گاؤں میں کچھ لوگوں کا ذریعہ معاش اونٹوں
پہ لالہ موسیٰ غلہ منڈی سے دوکانداروں کے لئیے مال لانا ہی تھا۔ چونکہ
بھمبرشہر (آزاد کشمیر) تک لالہ موسیٰ ہی خریداری کا
مرکز تھا اور میرا گاؤں اسی راستہ پہ واقعہ ہے۔ صبح صادق کے وقت اونٹوں کی
بڑی بڑی قطاریں ہمارے گاؤں سے لالہ موسی ٰکےلئیے گزرا کرتی۔ شام واپسی کی
قطاریں ہوتیں۔ اور آج سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے۔ ہر دوسرے گھر میں لوگوں کے
پاس اپنی گاڑی ہے۔ بار برداری کے لئیے جدید ترین ذرائع موجود ہیں۔ کئی نئے
تجارتی شہر وجود پا چکے ہیں۔ ہمارے علاقہ میں ہزاروں اونٹ ہواکرتے تھے۔ آج
ایک بھی اونٹ دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے علاقہ کے کئی لوگ ایسے تھے جنہوں نے
زندگی بھر ریل گاڑی نہ دیکھی۔ اور آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں
تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے لوگ آباد نہ ہوں۔
بچپن ہمجولی لڑکے گلی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلا کرتے تھے۔ اگر کوئی بزرگ پاس
سے گزرتے تو ہم احتراما ً کھیل بند کر دیتے۔ جب تک بزرگ گزر نہ جاتے ہمارا
کھیل بند رہتا تھا۔ آج بیٹا باپ کا گلہ پکڑتا ہے۔ ماں بیٹی کے ہاتھوں ذلیل
ہو رہی ہے۔ سولہ سالہ لڑکی اپنے باپ کو قتل کرتی ہے کہ میرے یار کو میرا
باپ پسند نہیں کرتا۔ یہ بھی ایک تغیر ہے۔ ایک اور تغیر کا پورا عالم مشاہدہ
بھی کر رہا ہے اور اس سے کرہ ارض پہ بسنے والا ہر انسان متاثر بھی ہے۔ جدید
ترین طبعی سہولیات ، تیغ و تلوار کی جگہ ٹینک ، میزائیل ، ایٹی میزائل ،
جدید ترین جنگی ہوائی جہاز اور ڈارون (Darwin)کا تقریباً ہم نام ڈرَون (جس
سے سب سے زیادہ پاکستانی قوم متعارف ہے۔ کیونکہ سب سے زیادہ ہمارے اوپر ہی
برسا ہے) نے لے لی ہے۔ کمپیوٹر ،موبائل فون وغیرہ سب تغیر ہی کی وجہ سے ہے۔
علم طبیعات (فزکس) تو نام ہی تغیرات کا ہے۔ ہر روز نئی نئی ایجادات اسی کے
دم سے ہیں۔
ایک تغیر انگریز ہندوستان کے مسلمانوں کو دین اسلام سے دور کرنے کے لئیے
تعلیم کے نام سے لایا۔ لارڈ میکالے کا ترتیب دیا ہوا سلیبس پڑھنا لازم قرار
دے کر ہر سرکاری ملازمت سے مشروط کر دیا گیا۔ ہندوستان میں رائج مغلوں کی
زبان فارسی کے متعلق پڑھو فارسی بیچو تیل جیسے معاورے ایجاد کئیے گئے۔ جبکہ
اسی زبان فارسی میں تعلیم حاصل کر کے ہندوستان کے انجئیرززلزلہ پروف
بادشاہی مسجد لاہور ، دہلی کا شاہی قلعہ ، تاج محل آگرہ اور شاہی قلعہ
لاہور سے شالیمار باغ لاہور تک انڈر گراؤنڈراستہ تعمیر کر چکے تھے۔ جو کہ
پوری شان کے ساتھ مغلوں کے طریقہ تعلیم کی عظمت کی گواہی آج بھی دے رہے
ہیں۔ لیکن انگریز کا مقصد مسلمانوں کی زندگی سے اسلام خارج کرنا تھا۔ اس
لئیے تعلیمی اداروں سے اسلام کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ جبکہ مغلوں کے نظام
ِتعلیم میں قرآن و حدیث اور عصری علوم ایک ہی ادارے کی چھت کے نیچے پڑھائے
جاتے تھے۔ یہ بھی ایک تغیر ہی تھا۔
جب قرآن و حدیث کو تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا گیا تو علماء اکرام نے
اپنی مدد آپ کے تحت ادارے ( مدرسے)قرآن و حدیث کی تعلیم کے لئیے قائم کرنے
کی ٹھان لی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کسمپرسی کی حالت میں انار کے درخت
کے نیچے بغیر چھت کےقائم کیا گیا مدرسہ کی شاخیں بغیر کسی حکومتی سر پرستی
کے پورے عالم میں قائم ہو چکی ہیں۔ عمارت کے لحاظ سے کسی عصری یونیورسٹی سے
کم نہیں ہیں۔ اور علمی معیار کے لحاظ سے پورے عالم میں ان کا چرچا ہے۔ پوری
دنیا سے دین کے طالب علم پاکستان کے اداروں ( مدرسوں ) میں تعلیم حاصل کر
رہے ہیں۔ اور پاکستان میں دین اسلام کی تعلیم حاصل کرنا باعث فخر اور اعزاز
سمجھا جاتا ہے۔ انہی اداروں سے تعلیم یافتہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اسلامی
بینکنگ متعارف کرا کر سودی بینکنگ کا متبادل پیش کرکے اسلام کی اس شعبہ میں
عظمت ثابت کی ہے۔ اور پاکستانی دینی اداروں کے نظام ِتعلیم کو چار چاند لگا
دئیے ہیں۔ پوری دنیا میں اسلامی بینک قائم ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ایک تغیر ہے۔
اور ایک تغیر اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں ریاستِ مدینہ کی دعویدار حکومتِ
پاکستان لانا چاہتی ہے۔ اسلامی تعلیمی اداروں (مدرسوں)کے سلیبس کو تبدیل
کرکے اس میں عصری مضامین شامل کرنا چاہتی ہے۔ مساوی تعلیمی نظام کے دعوے کے
ساتھ مدارس کا نظامِ تعلیم تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مدارس اکہتر سال سے
یکساں سلیبس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور کوئی مان کر نہیں دیتا۔ میں
پورےوثوق سے کہتا ہوں کہ اگر یکساں نظام ِتعلیم رائج کر دیا گیا۔ یعنی
مدارس میں عصری مضامین اور کالجز ،یونیورسٹیز میں قرآن و حدیث پڑھائے جانے
لگے تو یونیورسٹیوں سے مدارس بازی لے جائیں گے۔ یونیورسٹیز مدارس میں تبدیل
ہو جائیں گی۔ جس لگن ، محبت، محنت اور شفقت سے مدارس کے اساتذہ پڑھاتے ہیں
وہ جذبہ یونیورسٹی اساتذہ میں ناپید ہو چکا ہے۔ بلکہ موجود ہی نہیں ہے۔
مثلاً میرا بھتیجا جامعہ مدنیہ جدید رائے ونڈ روڈ لاہور پڑھا کرتا تھا۔ اس
نے مجھے بتایا کہ میرے استادِ محترم لاہور شہر رہتے ہیں ۔اپنی کار میں آتے
جاتے ہیں۔ استادِ محترم کا بیٹا بھی میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ اور طالب علم بھی
لاہور سے پڑھنے آتے تھے۔ میرے استادِ محترم اپنے بیٹے سے کہتے کہ مدرسہ سے
آدھا کلو میٹر فلاں جگہ پہ جا کر کھڑا ہوجا۔ میں تمہیں وہاں سے گاڑی میں
بٹھا لونگا۔ یہاں مدرسہ میں دوسرے طالب علم بھی میرے ہی بچے ہیں۔ مجھے حیا
آتی ہے کہ میں تمہیں انکے سامنے اپنی کار میں بٹھاؤں اور انہیں نہ بٹھاؤں۔
یہ جذبہ یہ احساس اور یہ حیا کالج و یونیورسٹی کی زمین پہ یہ جنس اگتی ہی
نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں ہر جذبہ ہر احساس کمرشلائیز ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ
جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف آتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ آسمان سے
لارڈ میکالےکے نظامِ تعلیم کی موت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اسی لئیے
مدارس کو یتیم اور لاوارث سمجھنے والے اپنے آقا کے حکم پہ توحید وسنت کے
مراکز کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے جا رہے ہیں۔ انکل سام کو اگر علم ہوتا کہ روس
کے ساتھ جنگ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دے گی (اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت )
تو وہ کبھی بھی روس کی تباہی کے لئیے پاکستان کا ساتھ نہ دیتا۔ پاکستان کا
ایٹم بم اہل کفار کے لئیے اس وقت سب سےبڑا سر درد بنا ہوا ہے۔ میرا گمان ہے
کہ بہت جلد افغانستان کے طالبان اور پاک فوج کا مشرکین اور کفار کے
بالمقابل اتحاد ہونے جا رہا ہے۔ ایک بہت عظیم تغیر وقوع پذیر ہونے جارہا
ہے۔ مدارس سے چھیڑ چھاڑ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے لئیے موت کا پروانہ
ہو گا۔ اور یہ ایک اور عظیم تغیر ہوگا۔ ان شاءاللہ
|