اپلیکیشن فور دی پوسٹ آف ایس ایچ اوکراچی

کراچی کے کسی بھی علاقے کا ایس ایچ او ہونا اعزازاورذمہ داریوں کے ساتھ ڈھیر سارا پیسہ لانے کا سبب بھی بنتا ہے ایک طرف آپ کے اوپر پورے علاقے کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے وہاں دوسری طرف منشیات فروش، ٹینکر مافیا ،ٹرانسپورٹرز، رئیل سٹیٹ ایجنٹس، بلڈرز SHO کو خوش آمدید کہنے تھانے میں تشریف لے آتے ہیں-

پہلی بار ایس ایچ او بننے والا اس بات کو جان ہی نہیں پاتا کہ حقیقت میں یہ تمام آؤبھگت اس کی سیٹ کی کی جا رہی ہے یا اس کی اپنی شخصیت کی کئی لوگ اس سے دوستی کے خواہشمند ہوتے ہیں اور وقتن فوقتن مختلف دعوت نامےایس ایچ او صاحب کو بھجوائے جاتے ہیں۔ ایس ایچ او صاحبان بھی اس کو رسم سمجھتے ہوئے بخوبی نبھاتے ہی اور اس طرح شیروشکر ہوجاتے ہیں جیسے بچپن کے دوست ہوں۔

ایس ایچ او صاحبان کی آنکھ اس خواب غفلت سے اس وقت کھلتی ہے جب سیٹ جا چکی ہوتی ہے ادھر ادھر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام افراد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکے ہیں اور آج ان کی جگہ جو دوسرے ایس ایچ او صاحب آئے ہیں وہی تمام چیزیں جو ان کے ساتھ کی جا رہیں تھی آج وہی تمام چیزیں دوبارہ دہرائی جا رہی ہیں اور تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا-

ایس ایچ او کو علاقے کا مائی باپ تصور کیا جاتا ہے اگر آپ اپنا ٹائم نکال کر ایس ایچ او کے ساتھ ایک دن گزاریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ایس ایچ او کے موبائل پر آنے والی بیشتر کالوں کا تعلق ایم این اے ایم پی اے اور دیگر علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے Negative افراد سے ہوتا ہے میں نے یہاں Positive کا لفظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا ہے- لفظ نگیٹو کا استعمال اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اعلی افسران کے علاوہ جو شخص بھی ایس ایچ او کے کام میں مداخلت کر رہا ہے وہ نیگیٹو ایکٹیویٹی پرفارم کر رہا ہے 2019 کے تھانوں کا جو چہرہ ہے 2009 کے تھانوں سے انتہائی مختلف ہے 2009 کے ناموں کی لسٹ میں ہمیں سیکٹر انچارج کو یونٹ انچارج کو اور اس طرح کے دیگر افراد کو بھی شامل کرنا پڑتا تھا جو لوگ ایس ایچ او کے اوپر اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے یا جتانے کی کوشش کرتے تھے یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2009 کے ناموں کی لسٹ میں ہمیں سیکٹر انچارج کو یونٹ انچارج کو اور اس طرح کے دیگر افراد کو بھی شامل کرنا پڑتا تھا مگر آج کا ایس ایچ او اس معاملے میں انتہائی خوش نصیب ہے کہ اس کو سیکٹر انچارج یونٹ انچارج کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی اب رہی بات ایم این اے اور ایم پی اے کی تو وہ آج بھی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش بتدریج کرتے ہیں یہاں پر ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ آیا کے ایس ایچ او کو کام کرنےدیا جا رہا ہے یا نہیں بلکہ یہاں پر ہم اس بات کو زیر بحث لایا جائے گا کہ حقیقت میں ایس ایچ او کے پاس اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ چاہے تو وہ اپنے اختیارات کا استعمال کر کے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ وزیراعظم بننے کی ضرورت نہیں، آئی جی بننے کی ضرورت نہیں، ایس ایس پی ضرورت بننے کی نہیں، ڈی آئی جی ضرورت بننے کی نہیں بلکہ وہ تمام اختیارات رکھتا ہے اور اگر وہ چاہے تو جرائم پیشہ افراد کو منشیات فروشوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی طاقت ایک ایس ایچ او رکھتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ کراچی آج کی تاریخ میں نشے کی لپیٹ میں ہے اور اب بات چرس، ہیروئن، افیم سے آگے بڑھ کر ایک ICE جیسے نشے تک جا پہنچی ہے جس کا غلط استعمال چند ہی منٹوں میں آپ کو موت کی آغوش میں سلا سکتا ہے۔

ویسے تو کراچی کے تقریبا تمام تھانوں میں ہی ایک ایسا ایس ایچ او تعینات کرنے کی ضرورت ہے جو کہ نہ صرف منشیات فروشوں کے بلکہ جوا کھیلنے والوں کے خلاف بھی سخت سے سخت کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

جیسے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ غربت اور جرم کا تعلق چولی دامن کا ہے جیسے جیسے غربت بڑھتی ہے ویسے ہی معاشرے میں جرم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح اگر ہم جوئے اور منشیات فروشوں کو ایک ساتھ ہی ڈیل کریں تو وہ بہتر ہوگا مگرافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک طرف تو جوئے کی لت بڑھتی جا رہی ہے یا دوسرے الفاظ میں جوئے کو بند نہیں کیا جا رہا ہے دوسری طرف جوئے سے ہونے والی آمدنی ہی منشیات فروشی میں یا منشیات خریدنے میں استعمال ہو رہی ہے۔

اگر ہم نے پاکستان کو ترقی دینی ہے تو ہم نے پاکستان کے 10 بڑے شہروں میں جس میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں ان کو ترقی دیے بغیر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

اب بات آتی ہے کہ حقیقت میں معاشرے کو ترقی دینے کے لیے وہ کون سے عناصر ہیں جو ضروری ہوتے ہیں سب سے پہلا عنصر تعلیم ہے ہمارا نوجوان تعلیم کب حاصل کرے گا جب وہ ہوش میں رہے گا آج کا نوجوان نشے کی لپیٹ میں آچکا ہے اور وہ اس بات سے نا آشنا ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت چاہے ہمارے نوجوانوں کو نشے کی لپیٹ میں ڈال کر پاکستان کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے
اگر ہم نے پاکستان کو ترقی دینی ہے تو ہم نے پاکستان کے 10 بڑے شہروں میں جس میں کراچی لاہور اسلام آباد راولپنڈی سیالکوٹ فیصل آباد کوئٹہ پشاور شامل ہیں ان کو ترقی دیے بغیر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں

اب بات آتی ہے کہ حقیقت میں معاشرے کو ترقی دینے کے لیے وہ کون سے عناصر ہیں جو ضروری ہوتے ہیں سب سے پہلا عنصر تعلیم ہے مگرہمارا نوجوان تعلیم کب حاصل کرے گا جب وہ ہوش میں رہے گا آج کا نوجوان نشے کی لپیٹ میں آچکا ہے اور وہ اس بات سے نا آشنا ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت چاہے ہمارے نوجوانوں کو نشے کی لت میں لپیٹ کر پاکستان کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے۔

یہاں ایک بات اور غور طلب ہے کہ پاکستان کو عالمی رینکنگ میں ذہانت کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے اس بات کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر پاکستان کو ذہانت کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف آپ کو یا آپ کی ذہانت کو دیکھ کر چوتھے نمبر پر نہیں رکھا گیا ہے بلکہ اس میں تمام پاکستانیوں کی ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے چوتھے نمبر پر رکھا گیا اس بات کو بتانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عموما ہم پاکستانی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ صرف ہم ذہین ہیں اور سامنے والا کیا بولوں کہنا نہیں چاہوں گا۔

پاکستان کو بیرونی طور پر تباہ کرنا دشمن کا خواب بن چکا ہے اب دشمن کی صرف ایک کوشش ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو نشے کی لپیٹ میں اس طرح سے لپیٹا جائے کہ وہ یا تو صرف جوا کھیلنے کے بارے میں سوچیں یا نشے کے بارے میں ایسا ہی ایک گھناؤنا کھیل گلشن اقبال بلاک 13 ڈی ٹو میں کھیلا جا رہا تھا 5 دسمبر 2018 ہم نے یہ بات ٹھان لی کہ ہم نے ہی نوجوانوں کو اس دلدل سے نکالنا ہے اور مزید یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا کہ چرسی افراد پاکستانی نوجوانوں کو چرس کے فوائد بتائیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص نشے کی لت میں پڑ جاتا ہے تو وہ مالی اور ذہنی طور پر اس قدر کمزور ہو جاتا ہے اس کو ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ایک مضبوط مالی سہارے کی جو اس کے نشے کے اخراجات پوری کرنے میں اس کی مدد کر سکے۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ہم نے دو اہم ویڈیوز ریکارڈ کی یوٹیوب پر جن کا ٹائٹل یہ رکھا 20 بینفیٹس آف چرس جس میں ہم نے بنیادی طور پر یہ بتایا کہ اگر حقیقت میں چرس کا کوئی فائدہ ہے تو وہ میرے ملک کے نوجوانوں کو نہیں بتائیں گے بلکہ وہ اپنے والدین کو بتائیں گے کہ چرس کہ یہ یہ فوائد ہیں یا وہ اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ چرس کے یہ فوائد ہیں اگر انہوں نے میرے ملک کے نوجوانوں کو چرس کے فوائد کے بارے میں بتایا تو میں ان کی نیند حرام کر دوں گا۔

کراچی میں چرس پینے اور سپلائی کرنے والوں کی تین اہم کیٹگریز ہیں ایک کٹیگری وہ ہے جو رکشہ چلاتی ہے یہ کیٹگری نہ صرف خود چرس پیتی ہے بلکہ یہ چرس کی سپلائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے دوسری کٹیگری میں وہ دکاندار آتے ہیں جو بالخصوص رئیل اسٹیٹ ایجنسی کا کاروبار کرتے ہیں کیونکہ ایسی دکان داروں کے پاس ہر وقت نا تو کوئی کلائنٹ آ رہا ہوتا تو ان کے پاس بے تحاشہ ٹائم میسر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹائم کو چرس پی کر برباد کر سکیں اور میں ہمیشہ بڑے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب بھی کسی رئیل اسٹیٹ ایجنسی جس کے کالے شیشے ہوں اور وہاں چھاپے مارے جائیں تو بڑی آسانی سے آپ کو چرسیوں کی کھیپ برآمد ہو جائے گی دوسری کٹیگری میں آپ میزنائن فلور کو بھی شامل کر لیں تیسری کٹگری میں ملازمت پیشہ افراد آتے ہیں یہ ملازمت پیشہ افراد یا تو سرکاری ہوتے ہیں یا غیرسرکاری ان ملازمت پیشہ افراد تک پہنچنا انتہائی مشکل کام ہے۔

یہ آرٹیکل صرف ایک آرٹیکل نہیں بلکہ ایک حقیقی کہانی اور کمپلین پر مبنی آرٹیکل ہے اور آج بھی اس کو آپ آئی جی سندھ کمپلین سیل کی ویب سائٹ پر جا کر ٹریک سکتے ہیں جس کا کمپلین نمبر 11184 ہے۔یہ کمپلین 5 دسمبر 2018 کو لانچ کی گئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ گلشن اقبال بلاک 13D2 میں چرس کی مقدار میں چرس کا استعمال بہت زیادہ ہو چکا ہے ہر جگہ پر چرسی موجود ہیں مزید اس کے علاوہ دو ڈبو کلب جہاں پر ہر وقت جوا کھیلا جا رہا ہے ۔یہ دونوں ڈبو کلب 13D2 میں سندھ بینک کے سامنے اور برابر میں واقع ہیں اس وقت کے ایس ایچ او اخلاق احمد خان صاحب نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ایک ڈبو کلب کو بند کروا دیا اور دوسرے ڈبو کلب کو پابند کیا گیا کہ وہ منشیات فروشی سے اور جوا کھیلنے سے باز رہے یعنی کم و بیش پورا کراچی گھوم کر دیکھا ہے میں کہیں پر بھی کسی بینک کے تین سے چار دکانوں کے فاصلے پر کوئی جوا خانہ یا ڈبو کلب دیکھنے سے قاصر ہوں یہ منظر صرف ہمیں گلشن اقبال بلاک 13D2 میں دکھائی دیتا ہے اخلاق احمد خان صاحب کے جانے کے بعد جو پہلا ڈبو کلب بند کر دیا گیا تھا آج وہ زور و شور سے جاری ہو گیا ہے اور جو دوسرا ڈبو کلب سندھ بینک سے تین دکانیں چھوڑ کر واقع ہے وہاں پر آج کی تاریخ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا ڈھائی سے ساڑھے تین لاکھ روپے کا جوا ماہانہ کھیلا جانا معمول بن چکا ہے یہ بات غور طلب ہے کہ اخلاق احمد خان کا تبادلہ شاید 16 جنوری 2019 کو ہوا اور 17 جنوری 2019 کو ایس ایس پی صاحب نے یہ جو درخواست ہے یہ dispose آف کر دی۔

میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جب تک میں نے اس ڈبو کے کاروبار کو قریب سے نہیں دیکھا تھا تو میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا آج کی تاریخ میں چاہے لائٹ جائے تو ڈبو کلب چل رہا ہے آندھی آئے تو ڈبو کلب چل رہا ہے۔یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ کسی تعلیم کے بغیر ایک منافع بخش کاروبار کیسے کیا جا سکتا ہے میں سمجہ نہیں پا رہا ہوں کہ حقیقت میں میں اس ڈبو کلب کی برائی کروں یا اپنے بے روزگار نوجوانوں کو جن کو کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نوکریاں دینے میں ناکام ہوگیا ہے انہیں بتاؤں کے ایک ڈبوکلب کھول کر بیٹھ جاؤ۔

اس کمپلین کے دوران اخلاق احمد خان صاحب نے جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا وہ حیران کن بات تھی مگر جیسے ان کا تبادلہ فاران سے کیا گیا یہ بھی ایک حیران کن امر ہے۔ ہو سکتا ہے ان دونوں باتوں میں کوئی مماثلت نہ ہو مگرآپ کو صرف اور صرف حقائق پر مبنی باتیں بتا رہے ہیں جو آج بھی11184 لکھ کر ساتھ میں CNIC نمبر ڈال کر دیکھ لیں۔ اخلاق احمد خان صاحب کا ٹرانسفر آرڈر بتا دے گا کہ کب ان کو ٹرانسفر کر دیا گیا۔

حقائق کچھ بھی ہوں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آئی ایس آئی دفاع کی آخری لکیر نہیں پہلی لکیر بھی آئی ایس آئی ہے درمیانی جتنی لکیریں ہیں وہ بھی آئی ایس آئی کھینچتی ہے اور آخری دفاع کی نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کی لکیر بھی آئی ایس آئی کھینچتی ہے آئی ایس آئی کے بغیر پاکستان کی بقا ممکن ہی نہیں اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس آرٹیکل میں اس بات کو لکھنے کی وجہ کیوں پیش آئی آپ جب کوئی اس طرح کا سنگین مسئلہ دیکھیں تو گیارہ سو پینتیس کال کریں دوسری طرف سے ایک کرخت آواز میں آپ سے پوچھا جائے گا کہ جی کیا کر سکتے ہیں آپ کے لئے اور آپ یقین جانے مشکل سے دو بیل بھی مکمل نہیں ہو پائی گئی کہ سامنے سے کال اٹھا لی جائے گی اس طرح کا مسئلہ جو ہم نے اوپر بیان کیا جس میں جوا کھیلا جارہاہے منشیات فروشی عام ہورہی ہے تو وہ سب سے پہلے آپ سے پوچھیں گے کہ کیا آپ نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی ہے۔

لفظ آخر لکھنے سے پہلے میں آپ کو ایک اہم بات ضرور بتانا چاہوں گا کہ جہاں تک بات رہی انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے تعریف کی بنیادی وجہ ان کے دو اہم اقدامات ہیں نمبر ون ان کا واٹس ایپ نمبر03000021881 جو بڑی آسانی سے ویب سائٹ کی دنیا میں اویلیبل ہے آپ اس کو بڑی آسانی سے گوگل کر سکتے ہیں دوسرا جو یہ انھوں نے ویب سائٹ https://igpcms.sindhpolice.gov.pk کے تحت یہ سسٹم متعارف کیا ہے کہ ایک انسان گھر بیٹھے کمپلین لانچ کرے ایک ٹریکنگ آئی ڈی اس کو مل جائے اور وہ جب چاہے اس پر ہونے والی کارروائی کو ملاحظہ کر سکے۔

ساتھ ہی اگر ہم کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ کا ذکر کریں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ کمپلین 11184 ہم نے آئی جی سندھ کمپلین سیل میں لانچ کی تھی وہی کمپلین ہم نے ڈاکٹر امیر احمد شیخ بنائی گئی ویب سائٹ پر بھی ای میل کے ذریعے رجسٹر کروائی تھی اور یقین جانیے دونوں ہی شخصیات نے بیس سے پچیس دن کے اندر آفیسر تعینات کر دیے تھے جو اس کیس کو انویسٹی گیٹ کر رہے تھے اور یہاں سے بات شروع ہوتی ہے ایس ایچ او کی ذہانت، شرافت کی اور ایمانداری کی کیونکہ بالآخر کوئی بھی کمپلین جب لانچ کی جائے گی وہ اینڈ پر تو گھوم پھر کر ایس ایچ او کے پاس ہی آئے گی اگر ایس ایچ او چاہے تو کسی علاقے میں جواخانہ تو بہت دور کی بات کوئی تاش کا پتہ لے کر بھی سڑک پہ نہ بیٹھ سکے اسی لئے اس عنوان کو ہم نے نام دیا ہے ایپلیکیشن فور دی پوسٹ آف ایس ایچ او اگر ایس ایچ اور چاہے تو جرائم کا خاتمہ ایک کاری ضرب لگا کر کر سکتا ہے نہ چاہیں تو جس جس علاقے میں وہ چاہے ہر جگہ پر جوا خانہ منشیات فروشی عام ہو سکتی ہے۔ ایک اور بات تمام پڑھنے والے اور سننے والوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ اخلاق احمد خان صاحب کے ٹرانسفر کی ایک وجہ شاید جو ہمیں لگتی ہے وہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ہم سے پوچھا تھا کہ ہم اس سلسلے میں کیا چاہتے ہیں تو پھر ہم نے ایک سلیوشن لکھا تھا اس سلیوشن کے حساب سے ہم نے تین نکات پیش کئے تھے سب سے پہلے یہ بتایا تھا کہ میں ہوتا کون ہو ڈبو کلبوں کے بارے میں بتانے والا کے جوا خانہ کس طرح چلے گا کس طرح نہیں چلے گا اگر اب آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو میں آپ کو تین اہم نکات بتاؤں گا جس کے تحت ملک کے بچے محفوظ رہ سکے اور وہ ڈبو کلب جیسی لعنت کو نہ دیکھ پائیں نہ کسی جوئے کی آواز سن پائیں نہ منشیات استعمال کرنے والوں کو دیکھ سکیں وہ تین اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں سب سے پہلے تو آپ لوگ جانتے ہیں کہ ڈبو کلب میں داخل ہونے والے افراد کون ہوتے کیا ڈاکٹر ہوتا ہے؟ کیا انجینیئر ہوتا ہے؟ کیا لوئر ہوتا ہے؟ کون ہوتا ہے؟ سب سے پہلی بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہاں پر ساؤنڈ پروفنگ ہونی چاہیے دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہاں پر ڈارک شیشے ہونے چاہیں تاکہ اندر کیا ہو رہا ہے وہ باہر گزرتی خواتین اور بچوں کو دکھائی نہ دے۔تیسری بات آنے والے افراد کے CNIC ریکارڈ رکہے جائیں جو وقتن فوقتن جب بھی کسی ایجنسی کو ضرورت پڑے ہوں یہ دیکھ سکے کہ ا میں کس طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔

یہی اپلیکیشن ہم نے آئی جی سندھ کو یہی اپلیکیشن ہم نے رینجرز کے اعلیٰ حکام کو بھیجی تھی اور کہیں نہ کہیں یہ ہمیں لگتا ہے ہمارا اندازہ غلط ہو سکتا ہے کیونکہ مفاد عامہ سے متعلق کیسوں میں کمپلیمننٹ سے یہ پوچھنا کہ آپ بتائیں کیا ہونا چاہیے تو پھر تو میں آئی جی صاحب سے یہی گذارش کروں گا کہ اپلیکیشن فور دی پوسٹ آف ایس ایچ او کے نام سے اشتہار شائع کیا جائے اور پھر میں اور مجھ جیسے لوگ یہ فیصلہ کر لیں گے کہ منشیات فروشوں کا جوا خانوں کا کیا کرنا ہے ۔

وقت آگیا ہے کہ ہم حرف آخر تحریر کریں اور ہم چار لوگوں کو مخاطب کرنا چاہتے ہیں آئی جی سندھ کو کراچی پولیس چیف کو، ایس ایس پی صاحبان کو، اور سب سے بڑھ کر ایس ایچ او صاحبان کو، ایک میٹنگ بلائی جاےء اور اس میٹنگ میں اس بات کو طے کریں کہ کیا ڈبو کلب کا چلنا پاکستان کے لیے سندھ کے لیے کراچی کی عوام کے لیے ضروری ہے یا نہیں۔

کیونکہ اس بحث میں پڑنا تو بالکل بیکار ہے کہ ڈبو کلب میں منشیات فروشی ہوگی یا نہیں ڈبو کلب میں منشیات فروشی بھی ہو گئی منشیات فروش بھی آئیں گے اور جوا کھیلنے والے جواری بھی آئیں گے تو یہ سوال تو بالکل آپ اپنے ذہنوں سے نکال دیں کوئی ڈبو کلب بغیر جوئے کے بغیر نشے کے چل سکتا ہے۔

اب اگر ایس ایچ او صاحبان کی طرف سے یہ جواب آتا ہےاب اگر ایس ایچ او صاحبان کی طرف سے یہ جواب آتا ہے کے ڈبوں کلب کا ہونا محلے میں انتہائی ضروری ہے اس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کتنی کاروائیاں ڈبو کلب کی مدد سے ان لوگوں نے کی اور کتنے مجرم گرفتار کیے گئے ڈبو کلب کے اندر سے یا ان کی طرف سے دی گئی انفارمیشن سے
میں یہ بات اپنے تجربے کی بنیاد پر انتہائی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کی تاریخ میں ڈبو کلب وہ پہلی آماجگاہ ہے کسی مجرم کی جو اس کو ایک مکمل مجرم بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی ڈبو کلب پر جواری بھی آتا ہے اسی ڈبو کلب پر چھینا جھپٹی کرنے والا چور اچکا بھی آتا ہے اسی ڈبو کلب پر منشیات فروش بھی آتا ہے تو ایک بچہ جیل تو بہت بعد میں جاتا ہے پہلا مجرم جو تیار ہو رہا ہے وہ آج کی تاریخ میں ڈبو کلب سے تیار ہو رہا ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں کراچی کی تو آپ کو پتہ چل جائے گا۔
اور اگر اس تمام تحریر کے باوجود بھی آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ ڈبو کلب کا ہونا پاکستان کراچی اور سندھ کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے تو ایک نوٹیفیکیشن نکالا جائے سندھ پولیس کی طرف سے کہ ڈبو کلب کی طرف آنکھ اٹھا نے والے کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی۔
پاکستان میرا جنون ہے پاکستان میرا وجود ہے پاکستان کی بقا پاکستان کے مستقبل کے معماروں سے ہے اگر وہی نشے کی لت میں غرق ہو جائیں گے تو پاکستان صرف ایک ٹکڑا بن کے رہ جائے گا کم از کم میں اور مجھ جیسے ہزاروں جانثار ایسا ہونے نہیں دیں گے میرا اور تمہارا وجود اس پاکستان کا مقروض ہےاور یہ بات کسی بھی فرض شناس آفیسر کو کبھی بھولنی نہیں چاہیے-
پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد اللہ پاک آپ کو اور مجھے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے-
ٌ

 

Wajahat Nazeer Ahmed Chohadry
About the Author: Wajahat Nazeer Ahmed Chohadry Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.