پاکستان میں آج کل یہ بحث عروج پر ہے کہ پاکستان کے مسائل
کا حل موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں نہیں بلکہ ایک ایسے صدارتی نظام
حکومت میں ہے جہاں صدر براہ راست منتخب ہو اور ممبران قومی اسمبلی اسے بلیک
میل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
|
|
صدارتی نظام کی حمایت کرنے والے دلیل کے طور پر فوجی آمروں کے دور حکومت کو
صدارتی نظام حکومت کہہ کر ان کے دور میں ہونے والی ترقی کی کہانیاں بیان کر
رہے ہیں اور چارٹ بنا بنا کر سوشل میڈیا پر نشر کر رہے ہیں کہ اس دور میں
پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔
اس بحث کو شروع کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ پیش پیش ہیں جو موجودہ حکومت
کے قریب ہیں جن میں اداکار حمزہ علی عباسی سب سے آگے آگے ہیں۔ خود کو ماہر
معاشیات کہلوانے والے فرخ سلیم بھی ہیں، جو شاید کچھ وقت تو موجودہ حکومت
کے ترجمان کے طور اپنا تعارف کراتے رہے ہیں، لیکن اب ایسا نہیں کرتے۔
|
|
ہم نے یہ جاننے کے لیے کہ کیا موجودہ حکومت نظامِ حکومت بدلنے کی پوزیشن
میں ہے، ماہرین سے یہ سوال پوچھے:
کیا موجودہ حکومت پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی پوزیشن میں
ہے؟
کیا فوجی آمروں کے دورِ حکومت کو صدارتی دور کہا جا سکتا ہے؟
نظام کی تبدیلی کی مہم کون چلا رہا ہے؟
اکرم شیخ، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
|
|
کیا موجودہ حکومت پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے
کی پوزیشن میں ہے؟
’تحریک انصاف کی حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں صرف چھ ووٹوں کی اکثریت ہے۔
اس حکومت کی سب سے بڑی ضامن ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اس حکومت کا ساتھ دے
رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ ملک میں ایک صدارتی نظام
ہو تاکہ ان کو صرف ایک شخص کے ساتھ ڈیل کرنا پڑے۔
’پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہمیں
صدارتی نظام حکومت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس نظام کی وجہ سے ملک دو لخت
ہو گیا۔ پاکستان کے اندر پانچ قومیتیں آباد ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ
پاکستان کو اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی ساری توجہ شدید
معاشی مسائل پر مرکوز کرنی چاہیے۔
کیا فوجی آمروں کے دورِ حکومت کو صدارتی دور کہا جا سکتا ہے؟
’یقیناً فوجی آمروں کے دور صدارتی ہی تھے کیونکہ صدارتی نظام میں بنیادی
چیز اختیارات کے ایک ہاتھ میں مرکوز ہونا ہے۔ ایوب خان نے تو صدارتی انتخاب
بھی کروا دیئے اور بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دے
کر الیکشن بھی جیت لیا اور منتخب صدر بن گئے اور اسی کی بنیاد پر 1964 کا
دستور بھی بنا لیا۔ اس کا نتیجے میں پاکستان کو اپنے ایک حصے سے ہاتھ دھونا
پڑا۔
’اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے صوبوں کو ختم تو نہ کیا لیکن ان کا انداز
حکومت صدارتی تھا۔ سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔ صوبوں کے تمام اختیارات
بھی انہیں کے پاس تھے۔ کسی بھی فوجی دور کا سیاسی تجزیہ کریں گے تو معلوم
ہو گا کہ وہ ایک پارلیمانی دور نہیں تھا۔
’اس کے علاوہ اگر کسی جماعت یا جماعتوں کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کی طاقت
ہو بھی تب بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کی اعلی ترین
عدالت، سپریم کورٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خد و خال طے کر چکی ہےاور
وفاقی پارلیمانی نظامِ حکومت اس ڈھانچے کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ محمود خان
اچکزئی کے مقدمے میں قرار دے چکی ہے کہ وفاقی، پارلیمانی، آزاد عدلیہ اور
اسلامی دفعات پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
صدارتی نظام کی مہم کے پیچھے کون ہے؟
’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری ایک اچھی خاصی چلتی ہوئی حکومت کے خلاف ایسے
داؤ پیچ لگائے کہ ملک کی ترقی ساڑھے چھ فیصد سے گر تین فیصد پر آ گئی ہو
اور ایسی افراتفری پیدا ہو جائے کہ ایک ڈالر سو کی بجائے ڈیڑھ سو میں ملے،
’میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ ہمارے ارباب بست و کشاد ہیں جو ہمارے لوگ
حکومتیں بناتے ہیں اور حکومتوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں انھوں نے
حکومت کو بدل کر ایک بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اس ابہام
کو رفع کرنے کے لیے کہ اس مہم کو چلا رہے ہیں کہ یہ تو نظام کی خرابی ہے۔
’میں سمجھتا ہوں وفاقی پارلیمانی نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ملک کی
مختلف قومیتوں کو تسلیم کر کے ہم قیامت تک ایک کامیاب ملک کے طور پر اکٹھے
رہ سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو ہمارے کے لیے ایک
بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔
حامد خان، رہنما تحریک انصاف، سابق صدر سپریم کورٹ بار
ایسوسی ایشن
|
|
کیا موجودہ حکومت پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے
کی پوزیشن میں ہے؟
’میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حالات میں پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں
بدلا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس اتنی اکثریت نہیں ہے کہ وہ
نظام حکومت میں تبدیلی لا سکے۔ پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں بدلنے کے
لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو گی اور بہت بڑی تعداد میں آئینی شقوں کو
تبدیل کرنا ہو گا۔
’پاکستان تحریک انصاف کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے مطلوبہ دو تہائی اکثریت
نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کی کوئی جماعت بھی
تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو ایسے کسی اقدام کی طرف جانا چاہیے۔ پاکستان
ایک فیڈریشن ہے۔ ماضی میں جب صدر ایوب خان نے 1962 میں ملک میں صدارتی نظام
حکومت کو رائج کیا تو وفاقی اکائیوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جس کے نتیجے
میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔
صدارتی نظام کی مہم کے پیچھے کون ہے؟
پاکستان تحریک انصاف بطور جماعت اس مہم کے پیچھے نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ
کچھ ناعاقبت اندیش جو نئے نئے جماعت میں آئے ہوں وہ اپنی انفرادی حیثیت میں
اس بحث کو بڑھاؤ دے رہے ہوں لیکن تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت اس مہم کے
پیچھے نہیں ہے۔ عین ممکن ہے جو اس کے پیچھے وہ لوگ ہوں جو فوجی آمروں کے
حامی رہے ہوں اور اب یہ بحث چھیڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی
ایشن
|
|
کیا موجودہ حکومت پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے
کی پوزیشن میں ہے؟
’موجوہ حکومت بلکل اس پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کے لیے آئین میں ترمیم کی
ضرورت ہو گی جس کے لیے دونوں ایوانوں میں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں، دو
تہائی اکثریت چاہیے ہو گی۔ نہ تو موجودہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں دو
تہائی اکثریت ہے اور سینیٹ میں تو اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔
’جب آپ کے پاس اس دو تہائی اکثریت ہے ہی نہیں تو ایسی باتیں کرنا وقت کا
ضیاع ہے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔
کیا فوجی آمروں کے دور حکومت کو صدارتی دور کہا جا سکتا ہے؟
’جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے صدارتی نظام کا تجربہ نہیں کیا وہ غلط کہتا ہے۔
صدارتی نظام کا مطلب ہے کہ ایک شخص آ جائے گا اور وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو
حکومت میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ طاقت تو ایوب خان کے پاس بھی تھی، جنرل یحیٰ
کے پاس بھی تھی جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے پاس بھی یہی طاقت تھی۔ اس
سے کیا فائدہ ہوا۔
’فوجی حکمرانوں کے دور صدارتی نظام ہی تھے چاہے وہ بندوق کے زور پر تھے کہ
جو کچھ کرتا تھا صدر کرتا تھا اور جس کو چاہتا تھا تعینات کر دیتا تھا۔
’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے۔ اگر آپ صدارتی نظام
لائیں گے تو چھوٹے صوبے جن کے پہلے ہی فیڈریشن سے بڑے گلے ہیں، ان کو یہ
پسند نہیں آئے گا۔ اگر صدارتی نظام آیا تو جن کے پاس اکثریت ہوگی تو پھر
وہی صدر بنے گا تو پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اس کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔
کون اس کے پچھے ہے؟
’اس پر باتیں دو طریقے سے ہو رہی ہیں۔ ایسے لوگ اس کی حمایت میں ہیں جن کے
لیے موجودہ پارلیمانی نظام میں اوپر آنے کا موقع نہیں ہے۔ مثال کے طور
ڈاکٹر عطا الرحمن ان سے میں ایک ہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ڈائریوں
میں ایسے حوالے ڈھونڈ لائے ہیں کہ وہ ملک میں صدارتی نظام حکومت چاہتے تھے۔
وہ چاہتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق جیسا کوئی شخص آ جائے اور انھیں حکومت میں
شامل کر لے۔
’اگر وزیر اعظم عمران خان کے ماضی کے بیانات کو دیکھیں تو وہ بھی کہہ چکے
ہیں کہ وہ بھی صدارتی نظام کے حامی ہیں۔ ایوب خان ان کا ہیرو ہے اور وہ
ایوب خان کے دور کو سنہری دور قرار دیتے ہیں۔
’ایک بار جب ان کی پختوانخوا کی حکومت پر سوالات اٹھے تو عمران خان نے کہا
تھا کہ میں لوگ کہاں سے لاؤں۔ یہ ہی لوگ منتخب ہو کر آئے تھے تو میں نے
انھیں کو رکھنا تھا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسے لوگوں کو ٹکٹ
کیوں دیے، تو ان کا جواب تھا کہ میں نے ٹکٹ انھیں کو دینے تھے جو جیت سکتے
تھے۔
’ہمارے ملک کو شدید قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کو بجلی، پانی ، گیس،
مہنگائی، بے روزگاری، بجٹ خسارے، بیرونی قرضوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، اس ملک کا بچاؤ معیشت پر ہے، اور معیشت کا
برا حال ہے۔
’حکومت کو اس طرح کی فضول قسم کی بحثوں میں پڑنے کی بجائے اصل مسائل پر
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
|