بلیک ہول (black hole)کیا ہے؟
بلیک ہول وہ دیو ہیکل سیارہ ہے۔جو ملکی وے کہکشاں کے درمیان میں واقع
ہے۔(جہاں تک ملکی وے کہکشاں کی بات ہے تو یہ وہ کہکشاں ہے۔جس میں تین سو
ارب سورج ہیں،اور ہمارا سورج ان میں سے ایک ہے۔جو سب سے چھوٹا ہے۔اور ایک
سورج کے اندر اتنی روشنی ہے کہ پچاس کروڑ ایٹم بم کی انرجی فی سیکنڈ کے
حساب سے ان کے اندر سے خارج ہو رہی ہے۔اور اس طرح کی ڈھائی سو ارب کہکشائیں
اس کائنات میں موجود ہیں۔اللہ اکبر)
جو زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے۔یہ سیارہ زمین سے پچاس کروڑ
کھرب دوری پر واقع ہے۔سائنس دانوں کے مطابق یہ پورے نظام شمسی سے بڑا ہے۔یہ
سورج سے حجم کے لحاظ سے چھ اشاریہ پانچ گنا ارب زیادہ بڑا ہے۔بلیک ہول اس
قدر طاقتور ہے کہ اس سے کوئی چیز نہیں گزر سکتی،اس کے دائرے سے نکلنے کے
لیے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ رفتار درکار ہونی چاہیئے،چونکہ روشنی سے
زیادہ تیز رفتار کوئی چیز نہیں لہذا جو چیز بھی اس کے اندر چلی جائے اس کا
نکلنا ناممکن ہے۔الغرض بلیک ہول ایک یاسی جگہ ہے جہاں ستارے ٹوٹتے اور
کہکشائیں غرق ہو جاتیں ہیں۔
بلیک ہول کی تاریخ:
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔فلا اقسم بمواقع النجوم"(الواقعہ )پس
میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے غروب ہونے کی جگہوں کی"عصرحاضر کے علماء اس
آیت میں غروب ہونے کی جگہوں کوبلیک ہول سے تعبیر کرتے ہیں۔جس سے ثابت ہوا
کہ یہ تھیوری چودہ سو سال پہلے قرآن میں بیان کر دی گئی تھی جو عملی شکل
میں آج ظہور پذیر ہوئی ہے۔کائنات اللہ رب العزت کا فعل ہے اور قرآن اس کا
قول۔۔۔تو قول اور فعل میں تضاد کیسے ہوسکتا ہے۔جہاں تک بات ہے آئن سٹائن کی
دریافت کی تو آئن سٹائن نے 1915ء میں relativity پہ ریسرچ پیپر لکھا،جس نے
دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی جگہ بہت سا mass اکھٹا ہو
کر کconstant کر جائے تو اس میں اتنی کشش ثقل (گریویٹی)پیدا ہو جائے گی۔جس
کی وجہ سے چیزیں ایک دوسرے کو کھنچتیں ہیں۔
اس نظریے پہ سائنس دانوں نے کام شروع کیا۔پچھلے بیس سالوں میں اس میں بہت
بہتری دیکھنے میں آئی ۔آٹھ طاقتورترین دوربینیں اس مقصد کے لئے بنائیں
گئیں،کیونکہ نارمل دوربین سے بلیک ہول کی تصویر نہیں لی جا سکتی،لہذا کچھ
دن قبل سائنس دان بلیک ہول کی تصویر حاصل کرنے میں کا میاب ہوگئے۔یوں قرآن
کے اس نظریہ اور آئن سٹائن کی دریافت اپنے عملی شکل میں دنیا کے سامنے
حقیقت بن کر ظہور پذیر ہو گئی۔
بلیک ہول اللہ کی قدرت کا مظہر ہے۔اس کا معجزہ ہے،اس طرح کی دریافتیں ظاہر
کرتیں ہیں کہ وہ شان کتنی طاقتور ہے۔کل یوم ھو فی شان کی آیت کے مصداق وہ
ہر دن نئی آن اور شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔سائنس اللہ کی قدرت کو عیاں
کرتی ہے،وہ ہمیں خالق کا پتا دیتی ہے۔خالق کے قریب کرتی ہے بشرطیکہ ہم اس
آنکھ سے دیکھیں جس آنکھ سے نبی کریمﷺ کے صحابہ دیکھا کرتے تھے۔اللہ ہمیں وہ
نوربصیرت عطا فرما کہ ہم تیری قدرتوں کو دیکھ کر تیری کبریائی پہ نعرہ
تکبیر بلند کر سکیں۔ |