ایک دن ڈاکٹر میرے پاس آکر کہنے لگا " محترمہ" میں نے سنا
ہے کہ آپ ایک آرٹسٹ بننا چاہتی تھی لیکن آپ ایک ہاؤس وائف بن گئی۔ آپ کے
لیے انتہائی بری خبر یہ ہے کہ اب آپ اس قابل نہیں رہی کہ دوبارہ کوئی نقش
بنائیں۔ کیونکہ آپ کی کلائی اور بازو کافی بے ترتیب ہوگئے ہے آپ اس قابل
نہیں رہی کہ دوبارہ قلم کو گرفت میں کر لیں۔ یہ سن کر میں خاموش رہی۔ اگلے
دن پھر ڈاکٹر آکر کہنے لگا تمہاری ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ بہتگہری ہے آپ اس
قابل بھی نہیں رہی کہ دوبارہ چلیں پھریں۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور کہا
ٹھیک ہے۔ اس کے اگلے دن دوبارہ ڈاکٹر آکر کہنے لگا کہ کمر کی چوٹ کی وجہ سے
آپ اس قابل نہیں رہی کہ کسی بچے کو جنم دے سکے۔ یہ سن کر مجھے لگا جیسے میں
برباد ہوگئی مجھے اب بھی یاد ہے میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ میں زندہ کیوں
ہوں؟ میرے زندہ رہنے کا مقصد کیا ہے؟ میں چل نہیں سکتی میں پینٹنگ نہیں
کرسکتی اور میں کھبی ماں بھی نہیں بن سکتی۔ ایک عورت ہونے کے ناطے میرے بھی
ذہن میں یہی تھا کہ ہم بچے جننے کے بغیر نامکمل ہے اور میں اپنی باقی زندگی
ایک نامکمل عورت بننے جارہی تھی۔ میں سوچتی رہی کہ میں زندہ کیوں ہوں؟
کیونکہ ٹنل کے آخر میں روشنی نظر آجانے پر ہم اس سے گزرا کرتے ہیں۔ لیکن
میرے دوستوں جس ٹنل سے میں گزر رہی تھی اس کے آخر میں کوئی روشنی نہیں تھی۔
اس وقت مجھے یہ احساس ہواکہ الفاظ میں بھی اتنی طاقت ہوتی ہے جو وجود کو
صحت بخشتی ہے۔ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گااور یہ سب
خدا کی طرف سے تمہارے لیے ایک بڑی تدبیر ہوگی۔ میں نہیں جانتی تھی لیکن
یقیناً ایسا تھا۔ اس سارے تکلیف اور غم میں ماں کی باتیں بہت جادوئی لگتی
جو مجھے زندہ رکھتی تھی۔ اور میں یہ کوشش کرتی کہ اپنے چہرے پر ہنسی رکھوں
اور درد کو چھپاؤ جو میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا لیکن میں اپنی ماں اور
بھائی کے لیے ایسا کرتی تھی۔ میں انہیں اپنے ساتھ روتے ہوئے نہیں دیکھنا
چاہتی تھی۔ ایک دن میں نے بھائی سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ میرا ہاتھ پہلے
جیسا نہیں ہے لیکن ہسپتال کے اس سفید دیواروں کو دیکھ دیکھ کر میں تھک چکی
ہوں۔ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں میں اپنی زندگی پر مزید رنگ چڑھانا چاہتی ہوں۔
میرے لیے کچھ کلرز لے آؤ میں پینٹنگ بنانا چاہتی ہوں۔ اور اسی طرح بستر مرگ
پر میں نے اپنی پہلی پینٹنگ بنائی جو صرف ایک آرٹ پیس یا میرا شوق نہیں تھا
یہ میرا حیران کن علاج تھا۔ ایک لفظ کہے بغیر میں اپنی دل کی بات کہہ سکتی
تھی میں اپنی کہانی پینٹ کرکے شیئر کرسکتی تھی۔ لوگ اس پینٹنگ کو دیکھ کر
خوش ہوتے لیکن کوئی بھی اس میں میرا غم نہیں دیکھتا تھا۔ اسی طرح ڈھائی
مہینے ہسپتال میں گزرے نہ شکایت کی نہ روئی صرف پینٹنگ کی۔ اور جب میں
ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو بوجہ انفیکشن کے جو میرے پورے جسم میں پھیلا تھا
پورے دو سال تک میں بستر پر پڑی رہی۔ کھڑکی سے باہر پرندوں کی چہچہاہٹ سن
کر میں سوچتی تھی کہ وہ بھی ایک لمحہ ہوگا جب میں اس کمرے سے باہر نکل کر
اپنی فیملی کے ساتھ خوشی مناؤں گی۔ پھر پورے دو سال اور ڈھائی مہینے کے بعد
میری زندگی میں وہ اہم موڑ آیا جسے میں اپنا دوبارہ جنم سمجھتی ہوں۔ تب میں
مکمل طور پر بدل گئی تھی میں اس قابل بن گئی تھی کہ ویل چیئر پر بیٹھ سکوں۔
میں جانتی تھی کہ میں کھبی اپنے پیروں پر چل نہیں سکتی لیکن میں نے اس لمحے
کو خوشی سے قبول کیا۔ جب پہلی مرتبہ میں نے اپنے ہونٹوں پر کلر لگائی تو
اسے جلدی سے مٹا کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ ویل چیئر پر بیٹھی لڑکی کو
ایسا نہیں کرنا چاہیے لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن اس دن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ
اپنی زندگی میں اپنی طور پر جیؤ گی۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہر ڈر کا
مقابلہ کروں گی اور میں نے یہ کردیا میں نے خود کو آزاد کرلیا۔ میرا سب سے
بڑا ڈر کہ میں کبھی ماں نہیں بن سکتی جو مجھے بلکل برباد کرنے والا تھا
لیکن مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں بہت سارے بچے ایسے ہیں جنہیں گود لینا
چاہیے جاؤ کسی ایک کو اپناؤ اور میں نے یہ بھی کر دکھایا۔ آپ یہ جان کر
حیران ہو جائیں گے کہ اس سے بھی بڑا ڈر یہ تھا کہ میں اپنے آپ میں چھپی
ہوئی تھی کسی کا سامنا نہیں کرسکتی تھی جس کی وجہ وہ ہمدردی تھی جو لوگ
مجھے دیکھ کر دکھاتے تھے وہ مجھے یاد دلاتے تھے کہ میں ایک مریض ہوں۔ لیکن
میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایسی این جی او بناؤں گی جو لوگوں کو معذور افراد
سے آگاہ کریگی۔ جس کے لیے میں زیادہ سے زیادہ عوام میں جانی لگی میں نے
پینٹنگ شروع کی جو میں ہمیشہ کرنا چاہتی تھی جس کی میں نے ملک بھر میں بہت
سارے نمائش کیے۔ مختلف برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی ، مہم چلائی لوگوں تک اپنی
آواز پہنچائی۔ جب آپ کو خود پہ یقین ہوگا آپ جہاں بھی جائیں گے دنیا آپ کو
تسلیم کرے گی۔ آج میں خیر سگالی سفیر برائے یو این ویمن ہوں۔ میں عورتوں
اور بچوں کے حقوق کی بات کرتی ہوں۔ آج میں ویل چیئر پر بیٹھی ہوں لیکن ملک
کے دور دراز علاقوں میں میڈیکل کیمپس لگا کر بچوں کا علاج کرتی ہوں۔ میں جب
بھی عوام کے سامنے آتی ہوں مسکرا کر آتی ہوں لوگ پوچھتے ہیں کہ تم اتنی
مسکرا کر تھکتی نہیں ہو؟ میں انہیں مشورہ دیتی ہوں کہ اپنی ہر ہر سانس لے
کر خوشیوں کو گلے لگائیں اور جیو اور موت آنے سے پہلےبے موت مت مرئیں۔
عزیزانِ من۔ یہ مٹی واقعی بہت ہی زیادہ زرخیز ہے۔ آپ نے اس مٹی سے بنی
بیٹی" منیبہ مزاری" کی داستان ملاحظہ کی جس نے ایک ایکسیڈنٹ میں اپنی آدھی
جسم کا کنٹرول کھو دیا تھا۔ جس کے جسم کی زیادہ تر ہڈیاں ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن
اس کا حوصلہ نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ جسمانی طور پر ماں بننے کے قابل نہیں رہی
لیکن اس نے ایک بچے کو گود لے کر اسے پالا اور ماں بننے کا اپنا خواب پورا
کیا۔ جو لڑکی ویل چیئر پر بیٹھ کر اپنا کام خود کرنے کے قابل نہیں رہیاس نے
عورتوں اور بچوں کے حقوق کا علم بلند کیا۔ اس نے معذوروں اور بچوں کی خدمت
کرکے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آج اس قوم کی بیٹی منیبہ مزاری
انٹرنیشنل آئکون کے طور پر ابھری ہے وہ عالمی پلیٹ فارم پر اپنی جدوجہد کی
داستان سنا کر لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے اور ان لوگوں میں ایک نئی روح
پھونکتی ہے جو زمانے کے مصائب والام سے گھبرا جاتے ہیں۔ منیبہ مزاری ان
لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جن کی زندگیاں مسلسل دنیاوی آزمائشوں میں گھری
ہوئی ہے۔ عزیزانِ من۔ قدرت جب بھی کسی کو کوئی بڑا مقام دینا چاہتا ہے تو
اسے اس سے بھی بڑی آزمائش سے گزارتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں آپ جتنی بھی
بڑی شخصیات کا مطالعہ کریں گے آپ دیکھے گے کہ جتنی وہ شخصیت بڑی ہوگی اتنی
ہی اس پر آزمائش شدید ہوگی۔ اس کو آپ اس تتلی کے مثال سے یوں سمجھ لیں جو
انڈے سے نکلتی ہے جس میں سوراخ جتنی باریک ہوتی ہے اتنی ہی وہ تتلی باہر
نکلنے کے لیے زیادہ جدوجہد کرتی ہے اور جتنی زیادہ جدوجہد کرکے وہ تتلی
باہر نکلتی ہے اتنا ہی اس تتلی کے پر خوبصورت نکل آتے ہیں۔ اگر انڈے میں
سوراخ موٹا ہو تو تتلی بڑی آسانی سے نکل تو آتی ہے مگر نہ وہ تتلی خوبصورت
ہوتی ہے اور نہ وہ زیادہ دیر تک زندہ رہتی ہے۔ آپ سٹیفن ہاکنگ کو دیکھ
لیجئے جسے قدرت نے ویل چیئر پر بٹھا کر اتنا کمزور کر دیا کہ وہ اپنے جسم
سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تھا لیکن اسی سٹیفن ہاکنگ ہی کو کائنات میں بلیک
ہول دریافت کرنے اور دنیائے سائنس میں انقلاب برپا کرنے والا بنایا گیا۔
میری گزارش ہے کہ جتنے بھی میرے بھائی اس وقت سخت آزمائشوں سے گزر رہےہیں ۔
انہیں چاہیے کہ حوصلہ رکھیں اور خدا نے جس کام میں ان کو مہارت دی ہے اسی
میں آگے بڑھے۔ آپ اپنے اندر چھپے اس ٹیلینٹ کو ڈھونڈئیں اور اس کو ظاہر
کریں آپ کھبی ضائع نہیں ہوگے۔ آپ یہ نہ دیکھے کہ معاشی یا سماجی مشکلات دن
بہ دن بڑھ رہی ہے جس کام کی آپ میں ٹیلینٹ رکھ دی گئی ہے آپ اسی کو لیکر
آگے بڑھے۔ اگر سچ کہوں تو آج کل میںبھی معاشی بدحالی کا شکار ہوں لیکن میں
اس کام میں مگن ہوں جس کی مجھ میں صلاحیت رکھی گئی ہے اور خداوندِمتعال سے
امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ضائع نہیں ہونے دے گے۔ کیونکہ جس نے بھی اپنے
اندر چھپے ہوئے ٹیلینٹ کو جان لیا ہے بحکمِ خدا وہ سرخرو ہوا ہے۔ ورنہ آپ
اپنے اردگرد تھوڑی نظر دوڑائیں آپ کو بہت سارے معذور ویل چیئر پر ملیں گے
جو دوسروں سے مدد مانگتے ہوگے لیکن آپ کو ویل چیئر پر بیٹھے سٹیفن ہاکنگ
اور منیبہ مزاری جیسے معذور بھی ملیں گےجو دوسروں کو راہ بتلاتے اور مدد
کرتے ہیں۔ |