(۱)اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو (۲) اردو
کہاوتوں کے ادبی ولسانی پہلو
علمی کاموں کی پذیرائی کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے استفادے کی راہیں ہموار
کی جائیں۔اس کے لیے محنت، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔بحمداﷲ الفلاح
اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا ایسا علمی، دینی اور ادبی ادارہ ہے جو اکابرین کی
نگرانی میں اسی خدمت پر مامور ہے ۔
استاذی پروفیسر یونس اگاسکر کی شخصیت اور ان کی منفرد علمی کتاب’ اردو
کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘ اردو حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج
نہیں۔راقم الحروف کے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی موصوف نے پی ایچ ڈی کی ڈگری
کے لیے تحقیقی مقالے کے طور پر اسے قلم بند کیا تھا اور حق یہ ہے کہ اس سے
قبل یا بعد آج تک اس موضوع پر اردو زبان میں ایسی مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔
کہاوتیں ہماری زبان کا اٹوٹ حصہ ہیں، مثل مشہور ہے ’المَثَلُ فِی الْکَلَام
کَالمِلحِ فِی الطَّعَام‘ یعنی کہاوتوں کی حیثیت گفتگو میں ایسی ہے ، جیسے
کھانے میں نمک۔اس مثل میں نمک سے تشبیہ بڑی معنی خیز ہے ، اس لیے کہ کھانا
کتنا ہی عمدہ ہو، اگر نمک ضرورت سے زیادہ یا کم ہو جائے ، تو ذایقے کو بگاڑ
دیتا ہے ۔زبان کی شستگی و شایستگی کے لیے ضروری ہے کہ مناسب کہاوتوں کا
استعمال گفتگو اور تحریر میں کیا جائے ، لیکن اس سے قبل ضروری ہے کہ
کہاوتوں کی لسانی، ادبی اور سماجی تاریخ و اہمیت سے واقفیت حاصل کی جائے ۔
اردو کے تعلق سے یہ سارے کام آپ اس کتاب سے لے سکتے ہیں۔
راقم الحروف جب ایم فل کا طالبِ علم تھا، استاذِ محترم نے ایک مرتبہ بڑے
سوز و گداز کے ساتھ اس کتاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا’ کاش اس کتاب کی از
سرِ نو اشاعت ہو جاتی‘۔اسی وقت سے دل میں یہ ارادہ تھا کہ خداے پاک نے
توفیق دی تو جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا، اس کتاب کے لیے ضرور کروں گا۔ 2017ء
میں جب اسماعیل یوسف کالج، ممبئی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوا تو استاذِ
محترم اور الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ذمے داران سے اجازت لے کر اس
پر کام کرنا شروع کر دیا۔ دو سال کی محنت کے بعد اب یہ کتاب منشاے مصنف کے
مطابق منظرِ عام پر آچکی ہے ۔
یہ ضخیم کتاب مصنف کی اجازت کے بغیر ہند و پاک سے شایع ہوتی رہی ہے ، جس
میں بعض غلطیاں بھی در آئی تھیں،الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے زیرِ
اہتمام شایع ہونے والے اس ایڈیشن میں انھیں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔نیز
’اُردو کہاوتوں کا سماجی، ثقافتی و حکایتی پس منظر‘ کے زیرِ عنوان مصنف نے
ایک رسالہ بہ طور ضمیمہ اس موضوع پر رقم کیا تھا، جو سابقہ اشاعتوں میں
شامل نہیں ہو سکا تھا، اسے ایک باب کے طور پر شاملِ کتاب کر لیا گیا ہے اور
کتاب کو حسبِ ذیل دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے :(۱)اردو کہاوتیں اور ان
کے سماجی و لسانی پہلو (۲) اردو کہاوتوں کے ادبی ولسانی پہلو۔
اس جدید ایڈیشن میں درجِ ذیل امور کو ملحوظ رکھا گیا ہے :مکمل کتاب کی
کمپیوٹر کتابت کروائی گئی ہے ۔کتاب اور صاحبِ کتاب کے تعارف پر مشتمل بعض
اہم تحریروں کو بھی کتاب میں شامل کر لیا گیا ہے ۔کتاب کی ضخامت پر قابو
پانے کے لیے اسے دو حصوں میں اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ہر ایک حصہ
مستقل کتاب بن جائے ۔ ایک اور حقیقت کا ذکر بہ طور خاص ضروری ہے کہ مصنف نے
کتاب کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے از سرِنو کاوش کی ہے ، اور متعدد مقامات
پر الفاظ اور جملوں میں ترمیم و اصلاح کا عمل بھی انجام دیا ہے ۔اور اس
تمام تگ و دو کے نتیجے میں یہ ایڈیشن اس لائق ہو گیا ہے کہ قاری سابقہ
ایڈیشنوں پر اسے فوقیت دے ۔٭ |