ضلع بھکر پنجاب کا پسماندہ ادب و سخن اور تعلیم و ہنر کے
حوالے سے نہایت زرخیز ضلع ہے۔ صوبائی دارالحکومت سے 365 کلومیٹر دوری پر
ہونے کی وجہ سے یہاں ترقیاتی کاموں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے تاہم اس
دھرتی کے لق و دق صحرا میں جھلس جھلس کر تعلیم و ادب کی آبیاری کا نہ ختم
ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں کی ادبی محافل اور مشاعرے پورے پاکستان میں
نمایاں مقام رکھتے ہیں۔اس دھرتی جسے ایک زمانے میں '' تھل کا لکھنئو '' کہا
جاتا تھا آج بھی ادبی حوالے سے زرخیز اور سرسبز و شاداب ہے۔ یہاں خلیل رام
پوری، حیا رام پوری ، باقر بخاری، ذاکر برنی ، خلش صہبائی، ڈاکٹر اشرف کمال
جیسے شعراء نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔
یہاں ملک کے بڑے اور نامی گرامی شعراء یہاں کے ادب نواز نمازیوں کی ادبی
تربیت کے لیے قدم رنجہ کرتے آئے ہیں ۔ انور مسعود، منو بھائی، سلمان گیلانی
، عباس اطہر، عزیز اکبر شاہد، شاکر شجاع آبادی، محمود ہاشمی ، سونا خان بے
وس، فاروق روکھڑی، افضل عاجز، عزیز اکبر شاہد، احمد خان طارق ، کے علاوہ
ملک بھکر سے شعراء یہاں کے مشاعروں و ادبی محافل میں شامل ہوتے رہے ہیں۔
1980ء سے 1990ء کے عشرہ کے دوران ادب و سخن کے ریگزار میں ملکی سطحی پر ادب
و سخن کے حوالے سے جانے پہچانے نام پروفیسر بشیر احمد بشر، موسی کلیم
بخاری،پروفیسر اثر ترمذی ،پروفیسر تنویر صہبائی ،استاد شمشاد نظر جیسے پھول
اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے ۔ ادب و سخن کے ساتھ ساتھ ان پھولوں
نے بھکر کے اندر محبت اور امن کو فروغ دیتے ہوئے ادبی فضا میں مزید
خوشبوئیں بکھیریں ، اور ادب کو نئی جہت عطا کی ۔
ضلع بھکر میں 80ء کی دہائی میں ہی ایک ملکی سطح کی ادبی تنظیم '' بزم فکر و
فن'' کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ادب اور سخن کے ساتھ ساتھ '' فکر
'' اور '' فن '' کولے کر اس قوم کے اندر جذبہ حب الوطنی، ادب سے لگائو اور
ایک اچھا اور مفید شہری بنانے کی سعی تھی۔ بزم فکر و فن کے بانیوں میں بشر
صاحب کے ساتھ ساتھ پروفیسر اثر ترمذی صاحب کا نامِ گرامی صف اول میں شمار
ہوتا ہے۔ بزم فکر و فن کے پہلے صدر جناب اثر ترمذی صاحب جبکہ جنرل سیکرٹری
کے لیے خوبصورت لب و لہجے کے مالک اور اپنی تحریروں کے ذریعے ہر باشعور کا
دل گردہ ہلا دینے والی شخصیت جناب پروفیسر منیر بلوچ صاحب کا نام سامنے آتا
ہے۔ وقت کے نشیب و فراز سے مقابلہ کرتے ہوئے دونوں ادب نواز ، ادب شناس
شخصیات نے نہ صرف ادب بلکہ فن کے فروغ کے لیے بھی کارہائے نمایاں پیش کیے ۔
بزم فکر و فن کے پلیٹ فارم سے '' ادب '' اور '' فن '' کی ترویج ہوتی رہی ،
نوجوان ہیروں کو پالش کیا جاتا رہا، ان محافل میںفقط ادب اور فن ہی نہیں
بلکہ اخلاقیات ( کردار سازی ) کی ترجمانی بھی کی جاتی رہی، امن کی صدائیں
گونجتی رہیں، محبت کا پیغام عام ہوتا رہا۔بے زباں طائر سرمستِ نواہوتے رہے۔
پروفیسر بشیر احمد بشیر ( مرحوم ) سے لے کر پروفیسر دلدار حیدر خان اور اب
پروفیسر محمد ایوب چوہان ( پرنسپل ) تک ، ادارہ کے ہر سربراہ نے اس '' ادبی
منافع بخش '' تنظیم کے فروغ کے لیے ہمیشہ ساتھ دیا ہے اور ہر حوالے سے
معاونت میں پیش پیش رہے ہیں۔
صدر بزم پروفیسر ڈاکٹر قمر عباس نے پروفیسر ڈاکٹر اشرف کمال ، پروفیسر
ڈاکٹر سعید عاصم ، پروفیسر امان اللہ کلیم ، پروفیسر محمد افضل راشد ،
پروفیسر افتخار طیب ، پروفیسرخضر عباس خان، پروفیسر رائو محمد ساجد،
پروفیسر قلب عباس،پروفیسر ملک نصیر اعوان، پروفیسر مسعود انجم ، پروفیسر
ثناء اللہ خان جیسی ہنر مند اور اپنے کام میں مہارت رکھنے والی شخصیات کے
ساتھ مل کر ایک بار پھر تھل دھرتی کو '' تھل کا لکھنئو '' بنادیا ہے۔
ڈرامہ، ادبی محافل،ادبی مقابلہ جات، او رمشاعروں کے ذریعے انارکی ، دہشت،
حوس اور حبس کے اس موسم میں ناصرف عوام کو تفریح و توضیع فراہم کی ہے بلکہ
ادب و فن کے فروغ میں بھی تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں۔
6 اپریل 2019ء کی شب گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج بھکر میں ادب و سخن کی کی
برسات رات گئے تک جاری رہی۔ شرکاء کے قلب و اذہان میں موجود دنیاوی گرد اور
گھٹن پر شعراء بادل بن کر ایسا برسے کہ ساری گرد اور غبار کو دھو ڈالا۔
منیبہ اکبر کے عارفانہ کلام نے مہمانوں اور شرکاء میں وجد طاری کردیا۔ محفل
مشاعرہ میں عالمی شہرت یافتہ شعراء نے دھنک بن کر ادب کے سب رنگ بکھیر
دیے۔لاہور، فیصل آباد، جھنگ، ننکانہ صاحب، چینوٹ سمیت سرائیکی پٹی اور
مقامی شعراء نے کلام پیش کرکے تھل کی مٹی کو ادب و سخن سے نواز دیا۔ محفل
مشاعرہ کی صدارت رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ نے کی جبکہ
مہمانان خصوصی سید اشفاق حسین بخاری ڈپٹی سیکرٹری پلاننگ پنجاب، پروفیسر
دلدار حیدر خان ڈائریکٹر کالجز سرگودھا ڈویژن اور پروفیسر غلام رسول جھمٹ
ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز تھے۔ محفل مشاعرہ میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والے افراد، اساتذہ، ریٹائرڈ پرنسپلز، ہیڈماسٹر، طلبہ کی کثیر تعداد
نے شرکت کی۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج بھکر کی خوش قسمتی کہ یہاں ملک کے
نامور شاعر ، ادیب واجد امیر جیسے اُردو ادب کے '' امام'' تشریف لائے ۔
یقینا اُن کی آمد سے تھل کے ادب نواز نمازیوں کی ادبی عبادت کی تسکین
ہوگئی۔ واجد امیر نہ صرف شاعر بلکہ اچھے کالم نگار بھی ہیں۔ اسی طرح انجم
سلیمی اردو نظم و غزل کے ایک توانا لہجے کے طور پر عرصے سے جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اُردو غزل کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کروایا ہے۔ فیصل آباد سے تعلق
رکھنے والے انجم سلیمی سامعین کی نفسیات کو بخوبی جانتے ہیں اور اپنے فن
میں اُن کا کئی ثانی نہیں۔ فیصل آباد کی ادبی محافل اُن کے بغیر ادھوری
تصور کی جاتی ہیں۔ لاہور سے آنے والا ایک اور بڑا نام کے جس کو رقم کرنے کے
لیے مجھے اپنی نشست سے کھڑا ہونا پڑرہا ہے۔ اُن کے نام کا ایک ایک حرف
لکھتے ہوئے مجھے اُن کے شعر کا یہ مصرع بار بار ستائے جارہا ہے کہ '' تجھے
زندگی کا شعور تھا، تیرا کیا بنا؟'' ۔۔۔۔ میری مراد ملک کے نامور شاعر ادیب
پروفیسر ڈاکٹر تیمور حسن تیمور ہیں۔ وہ بصارت سے محروم ( یہ حوالہ دینا
میری مجبوری ہے ، معذرت) ہیں مگر بصیرت سے نہیں۔ ڈاکٹر تیمور حسن تیمور وہ
سب کچھ دیکھ ، سن اور محسوس کرسکتے ہیں جو صاحب بصارت کی نظر سے اوجھل رہتا
ہے۔ ڈاکٹر تیمور حسن تیمور ایک سچا ، کھرا اور صاحب بصیرت شاعر ہے جن کو ان
دیکھے مناظر تک رسائی حاصل ہے۔ مشاعرہ میں پنجابی ادب کا ایک بڑا نام بھی
زینت افروز ہوا۔ رائے محمد خان ناصر کھرل پنجابی ادب کی مالا کے حسین و
جمیل موتی ہیں جن کا ادبی شجرہ بابا گرونانک ، بابا فرید سے ، سلطان باہو
سے شا ہ حسین، بلھے شاہ سے میاں محمد بخش ،وارث شاہ، سے خواجہ غلام فرید سے
جاملتا ہے۔ مشاعرہ میں سرائیکی ادب کے ایک بڑے نام سائیں مصطفی خادم کی
دھواں دھار انٹری نے سامعین کو '' واہ واہ '' کہنے پر مجبور کردیا۔ ڈیرہ
غازی خان سے تعلق رکھنے والے مصطفی خادم کا اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ ملک کے
نامور شاعر اور خانیوال دھرتی کے ستارے سائیں ندیم ناجد کے خالص لکھنوی
انداز نے مشاعرہ کے سامعین کو جھومنے پر مجبور کردیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ
جہاں ندیم ناجد ہوں وہاں تالیوں کی گونج اور مقرر مقرر کی آوازیں نہ سنائی
دیں۔ محفل مشاعرہ میں سرائیکی دھرتی کے ''دل'' یعنی بہاولپور سے تعلق رکھنے
والے شاعر محمد افضل خان پہلی مرتبہ بزم فکر و فن کے مشاعرہ میں بھکر تشریف
لائے۔ اُن کا انداز تکلم اور پختہ شاعری سامعین کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔
افضل خان کے اشعار بارش کی ننھی بوندوںکی طرح برستے ہوئے ایک شفاف ندی کا
روپ دھار لیتے ہیں اور وہ ندی قلب و نظر کی کھیتیاں سیراب کرتی ہے۔
محفل مشاعرہ کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں اردو ، سرائیکی کے علاوہ
پنجابی رنگ بھی نمایاں تھے۔ میڈم طاہرہ سرا شیخوپورہ، ڈاکٹر پروفیسر محمد
فیصل جپہ چینیوٹ، آفتاب نواب ننکانہ صاحب، مہر الطاف بھروانہ آف جھنگ ،
خالد اقبال خالد چینوٹ نے پنجابی سرائیکی شاعری کی خوشبوئیں بکھیر دیں۔
لاہور سے آنے والے مہمان شاعر فخر عباس نے پختہ اور جامع مزاحیہ اشعار پڑھ
کر خوب داد حاصل کی۔ اس کے علاوہ دیگر نامور شعراء نجف علی شاہ بخاری، سید
تنویر فائز بخاری، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال،پروفیسر ڈاکٹر سعید عاصم،
ارشد حسین حیدری، اقبال حسین خان، مضطر کاظمی، پروفیسر محمد افضل راشد،
نیئر اقبال، پروفیسر قلب عباس، پروفیسر مشتاق احمد بھٹی، سید شاہد بخاری،
پروفیسر ناصر گوندل، پروفیسر عمران راہب ، صفدر کربلائی، علمدار علمی،
جاوید دانش، سید عامر شاہ، پروفیسر ثناء اللہ ثناء ، عطاء شائق، شعیب صدیقی
، وسیم گلشن، خضر عباس، قیامت بخاری سمیت دیگر مقامی شعراء نے اپنا کلام
پیش کیا۔ محفل کی نظامت کے فرائض ملک کے نامور شاعر ادیب پروفیسر ڈاکٹر
سعید عاصم اور پروفیسر قلب عباس عابس نے سرانجام دیے۔ محفل میں منیبہ اکبر
آف ننکانہ صاحب نے عارفانہ کلام پیش کرکے محفل میں وجدانی رنگ بکھیر دیے۔
سامعین کے اصرار پر انہیں تین مرتبہ سٹیج پر کلام پیش کرنے کا اعزاز بھی
حاصل رہا۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ نے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ تھل دھرتی ادب و سخن کی دولت سے مالا مال ہے۔ بزم فکر و
فن کے مشاعرہ نے '' تھل کے لکھنئو'' کی یاد تازہ کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ
بھکر میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ادب کے ہیروں کو تراشنے کے لیے بزم فکر و فن
مثبت کردار ادا کررہی ہے۔ بعدازاں ڈپٹی سیکرٹری پلاننگ ہائر ایجوکیشن
ڈیپارٹمنٹ پنجاب سید اشفاق حسین بخاری اور ڈائریکٹر کالجز سرگودھا ڈویژنم
پروفیسر دلدار حیدر خان نے پرنسپل ادارہ پروفیسر محمد ایوب چوہان اور اُس
کی ٹیم بشمول اراکین بزم فکر و فن کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں خراج
تحسین پیش کیا۔ محفل مشاعرہ کے جملہ انتظامات کی نگرانی وائس پرنسپل
پروفیسر نسیم حیدر خان شہانی اور صدر بزم فکر و فن پروفیسر ڈاکٹر قمر عباس
اپنی ٹیم کے ہمراہ کرتے رہے۔ مشاعرہ میں تمام مکاتب فکر کے افراد جن میں
ڈاکٹر عتیق الرحمن قریشی، ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر غلام حسین بھٹی، پروفیسر
عاقل خان نیازی، پروفیسر حبیب اللہ خان نیازی، ڈاکٹر محمد سلیم چوہان،
اشفاق احمد قریشی، ملک محمد یوسف چھینہ، حاجی یونس اولکھ، تنویر احمد بھٹی،
عبدالعزیز انجم، پروفیسر ملک منیر حسین چھینہ، جاوید علی بھڈوال ڈسٹرکٹ
منیجر ٹیوٹا بھکر میانولی، سید طاہر حسین شاہ کونسلر، پروفیسر مطلوب اطہر ،
پروفیسر چوہدری امجد سعید صدر پی پی ایل اے بھکر، زاہد سلطان رائو، پروفیسر
ظفر حسین ظفرسمیت عمائدین شہر، طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ خدا وند
کریم بزم فکر و فن کے اس '' ادبی لنگر'' کو جاری و ساری رکھے ۔ آمین ثم
آمین۔ پاکستان زندہ باد ۔ پاک فوج پائندہ باد |