بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کے سارے تجربوں کے حاصل کو
اگر آپ ایک جگہ جمع کریں تو آپ کو صاف دکھ جائے گا کہ دنیا کی ساری سائنسیں
ایک طرف اور نفسیات ایک طرف. اگر آپ کو دنیا میں کامیابی اور سکون کے ساتھ
جینا ہے تو بس آپ کو تھوڑا ٹھہر کے اور سوچ سمجھ کے پہلے لوگوں کی نفسیات
کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر اس شخص کی نفسیات کے مطابق اس سے ڈیل کرنا ہوگا.
اگر آپ یہ کرنا سیکھ گئے تو سمجھ لیں کہ دنیا آپ کے قدموں میں ہوگی. اس
دعوےکی حقیقت صرف جب ہی سامنے آسکتی ہے جب یا تو آپ اپنے ارد گرد کامیاب
اور نا کام لوگوں کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ان میں سے کون سی قسم کے
لوگ دنیا میں کامیاب ہیں ، وہ جو لوگوں سے صرف اپنے حساب سے ڈیل کرتے ہیں
یا وہ جو لوگوں کی نفسیات اور ذہنی کیفیت کے مطابق ان سے معاملات کرتے ہیں
، آپ کو اپنا جواب بڑے آرام سے مل جائے گا. یا پھر آپ خود اس فارمولے کو
آزما کر دیکھیں تو اگر آپ ہمارے دعوے کے قائل نہ ہو گئے تو آپ ہمارا نام
بدل دیجئیے گا. قطع نظر اس کے کہ آپ ہمارا نیا نام کیا رکھیں گے ہم آپ کو
یہ بتا دیں کہ اس پہ اپنا ٹائم نہ ہی ضائع کریں تو بہتر ہے ، کیونکہ ہمیں
یقین ہے کہ اس کی ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی. بچپن میں جب ہمارے اماں ابا نے
ہمارے اور ہمارے چھوٹے بھائی کے نام بل ترتیب الف اور نون سے رکھے تب ان کے
وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ہم دونوں کہیں نہ کہیں الف, نون کی جوڑی ہی
ثابت ہوں گے ۰ ہماری اس بات سے کہیں آپ یہ نا سمجھ بیٹھیے گا کہ ہم الن کی
طرح عیار اور چالاک اور ہمارا چھوٹا بھائی ننھےّ کی طرح سیدھا اور بھولا
تھا ، بات دراصل یہ تھی کہ ہم اماں اباّ کے مزاج اور نفسیات سمجھ کے بات
کرتے تھے اور اسی لیے ڈانٹ پھٹکار سے بچے رہتے تھے ، جبکہ چھوٹے بھائی کو
بے موقع بولنے کی عادت ہمیشہ ہی مہنگی پڑتی تھی. اسکول میں بھی ہم تقریباً
سارے ٹیچرز کی آنکھ کے تارے تھے ، اور جو ایک دو ہم سے مختلف وجوہات کی بنا
پر نالاں بھی رہتے تھے تو ہم بھی اس کو ان کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ کر ادھر
ادُھر ہو جانے کو ہی ترجیح دیتے تھے اور اس طرح کسی بھی بڑے مسئلے سے آرام
سے بچ جایا کرتے تھے. جب نوکری شروع ہوئی تو ہم نے اپنے اسی اصول پر کاربند
رہنے کا فیصلہ کیا اور باس کے نفسیاتی تجزیہ کے حساب سے ان کے ادھر ادُھر
ہوتے ہوئے موڈ کو ان سے بات کرنے سے پہلے ہمیشہ مدِنظر رکھتے تھے. اور آپ
سے کیا چھپانا تھوڑا بہت مکھن بھی لگانا پڑ جائے تو ہم اسےکچھ خاص برا نہیں
سمجھتے تھے ۰ والدین نے پال پوس کے ،پڑھا لکھا کے،اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے
کے بعد ہماری شادی خانہ آبادی کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے اور بلاخر ہماری
شادی کروانے میں کامیاب ہو ہی گئے. اس شادی میں کیونکہ ہماری پسند و مرضی
کو پوری طرح مدِنظر رکھا گیا تھا اور شادی سے پہلے ہی ہمیں اپنی ہونے والی
سے کئی بار بات چیت کرنے کا موقع بھی دیا گیا تھا تو اس لیے ہم بھی خاصے
خوش اور مطمئن تھے. موصوفہ ہمیں خاصی معقول لگیں اور پھر ہم بھی کوئی زیادہ
پنگے باز انسان تو تھے نہیں ،اس لیے امید تو یہی تھی کہ اچھی نبھ جائے گی ،
اور پھر ہمارے پاس ساری زندگی کا آزمایا ہوا نفسیات کا فارمولہ بھی تو تھا
ہی. بہر حال زندگی کی ابتداء تو خوشی خوشی ہوئی،کچھ ہی دن میں ہمیں اپنی
بیگم کی ایک عادت کا تو پتا چل ہی گیا کہ ان کے سامنے سوچ سمجھ کر بولنے
میں ہی عافیت رہے گی ، زبان پھسلنے کی کوئی گنجائش تو ہوتی ہی نہیں تھی،
بندے کو زیرِ زبرَ کی غلطی بھی مہنگی پڑ سکتی تھی ،فوراً ہی تصیح کردی جاتی.
بہر حال یہ کوئ ایسی بڑی بات بھی نہیں تھی کہ بندہ تھوڑا سنبھل کر بھی نہ
بول سکے. دوسری بات جو ہم نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ وہ اپنے فیصلوں میں بڑی
ہی ثابت قدم ثابت ہوئیں تھیں ، ایک بار اگر زبان سے کچھ کہہ دیتیں تو وہ
پتھر کی لکیر ہی ہوتی ،اس میں بھی ہمارے نزدیک کوئی بڑی برائی نہیں تھی یہ
صفت تو بڑے لیڈروں میں ہی ہوا کرتی ہے ، اور دیکھا جائے تو وہ ہر انسان کا
حق بھی ہے چاہے مرد ہو یا عورت. مگر جو سب سے بڑی پرابلم ہمیں بھگتنی پڑی
وہ تھی ان کا غچہ دینا، یعنی کہ وہ کب کیا کریں گیں انسان تو انسان کسی
فرشتے کو بھی اس کی خبر نہیں ہو سکتی. نہ ہی آپ یہ سوچ سکتے تھے کہ فلاں
بات ان کو گراں گزرے گی تو بندہ اس کا خیال رکھے گا تو بچ جائے گا، تو یہ
سراسر بندے کی غلط فہمی ہے. کیونکہ ہماری بیگم پر کسی قسم کا کوئی حربہ کام
نہیں کرتا. کچھ بیویاں اتنی آسان ہوتی ہیں کہ بندہ کو پتا ہوتا ہے کہ ان سے
جو بات کہی جائے گی وہ اس کا الٹ ہی کریں گیں تو سوچیں بندہ بات الٹی طرف
سے شروع کرے گا اور اس کا کام ہو جائے گا. لیکن ہماری بیگم کے ساتھ معاملہ
یہ تھا کہ آپ ان کے بارے میں کبھی کوئی درست اندازہ لگا ہی نہیں سکتے تھے ،
نہ ہی وہ اتنی بری تھیں کہ بندے کو لگتا ہمیشہ برا ہی کریں گیں اور نہ ہی
اتنی اچھی کہ لگے کہ ہر حال میں اچھا ہی کریں گی، بس کبھی بھی کچھ بھی کر
سکنے کی پوری صلاحیت رکھتیں تھیں ۰ہم نے تو گاڑی کا ہر گئیر استعمال کیا ،
ریورس کیا, پیرالل پارکنگ کی بھی کوشش کی ، گاڑی تیز بھی چلائی ، ہلکی بھی
چلائی لیکن ماننا پڑے گا کہ بیگم کے سامنے ایک نہ چلی ۰غصہ, پیار, رعب ,
نرمی, مصلحت، طلاق کی دھمکی ،کچھ کام نہ آئی. ساری زندگی نفسیات کے بل پر
کامیاب زندگی گزارنے کے بعد آپ ہی بتائیں کہ کیا کوئی اور فارمولہ ہے جو
ہماری زندگی کو بدل کر رکھ دے. ہو تو پلیز ہمیں ضرور بتائیے گا.
|