ذہنی استعداد بڑھانا ہرشخص کی فطری خواہش بھی ہے اورضرورت
بھی ۔ اس کے لئے لوگ کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے ۔بعض افراد انتہائی اقدام
اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔مثلاً پیچیدہ وادق ذہنی مشقیں کرنا ، سخت قسم
کی ذہنی وجسمانی مشقتیں واذیتیں برداشت کرنا ۔ سرکے بل گھنٹوں کھڑے رہنا تا
کہ دماغ کی طرف خون کا دورانیہ زیادہ ہوجائے اوروہ بہتر کام کرے ، جاڑے کی
یخ بستہ سرد صبح میں ٹھنڈے پانی سے نہاکر اپنے اعصابی نظام کو قوی کرنے کی
کوشش کرنا ، حاضر دماغ رہنے کے لئے وقتاً فوقتاً جسم میں سوئی چبھونا تاکہ
ذہن نہ بہک سکے(غیرحاضر دماغ نہ ہوجائے) اور رفیقِ سفر رہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اب ذہنی استعداد وصلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے نہ کسی قسم کی ذہنی مشقوں
یا دماغ لڑانے والے کھیلوں کی ضرورت ہے، نہ ہی کوانٹم مکینکس کی ،نہ ہی ادق
و پیچیدہ فلسفیانہ موشگافیوں کو سلجھانے کی ضرورت ہے، نہ ہی ٹھنڈے یخ
برفانی پانی سے نہانے کی ضرورت ہے اورنہ ہی اپنے کاندھوں پر بھاری بوجھ لاد
کر رات تین بجے اونچے نیچے ناہموارپہاڑی راستوں پر دوڑنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ممکن ہے کہ یہ امور بھی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے میں کچھ مددگار ہوں
لیکن ان کا فائدہ مند ہونا یقینی امرنہیں۔ہاں ایک اورصرف ایک مشق ان تمام
مندرجہ بالا امور سے زیادہ موثر وکارگرہے ۔باِلارادہ "حاضر دماغی"،" عزائم
باندھنا،نیت کرنا"۔
مقصد ومنزل کے حصول کے لئے یکسوئی ،توجہ اورحاضر دماغی کی بہت اہمیت
ہے۔یعنی ذہن کا اپنے گردو پیش سے باخبر ہونا اوراسی مقام پر حاضر ہوناضروری
ہے۔ ذہن کی مثال ایک بادشاہ کی مانند ہےجو بہت آرام طلب ہے۔ یا یہ وہ سرکش
وبے لگام گھوڑا ہے جو توجہ مرتکز نہ ہونے کی صورت میں فوراً بھٹک جاتاہے۔
اس کا بھٹکنا انسان کو غیرحاضر دماغ بنادیتا ہے۔یعنی جہاں اس کا جسم ہو
وہاں سے یہ غائب ہوکر انسان کو ناکارہ کردیتا ہے۔کیونکہ اس وقت انسان کے
ذہن کا جسم سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔پھر وہ شخص نہ کچھ یاد کرسکتا ہے نہ اس
کو خبر ہوتی ہے کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے حتی کہ اس کے اپنے ہاتھ سے کیا گیا
کام بھی اسے یاد نہیں رہتا مثلاً ہاتھ کہیں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا۔اس
نے کوئی چیز کہاں رکھی وغیرہ وغیرہ۔اس عادت بد پر قابو پانے کے لئے اس بے
لگام گھوڑے یا بھولے بادشاہ کومستقل عزائم باندھ کرقابو کرتے ہوئے منزل کی
جانب سفرکیاجاسکتاہے۔ یہ ایک بہت ہی موثر وکارگرحربہ ہے۔ یہ پختہ عزائم
وصالح نیت واضح مقاصد کے حصول میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔
ناگواری ،بدذوقی، بے التفاتی ،عدم توجہ اور روبوٹ کی طرح سےسے کیا گیا عمل
(جیسے کوئی بیگار کام کرتا ہے) بجائے فائدہ کے ذہنی توانائیوں کے لئے بہت
نقصان دہ ہے ۔ اس کے برعکس بیتابی ،جوش،جذبے ولولے،ہمت اورحوصلہ سے کیا
جانے والا کام نہ صرف ذہنی قوتوں کو بڑھاتا ہے بلکہ لاکھ درجہ زیادہ بہتر
اورکامیابی سے ہمکنارکرنے والا ۔بالخصوص تخلیقی کاموں کے لئے تو اموربالا
کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔کیونکہ تخلیقی خواہش اورعزم کے بغیر ناممکن ہیں ۔
اس بحث سے ثابت ہوا کہ تخلیقی کاموں اوربلند عزائم میں بنیادی وکلیدی
استعارہ محض رفتار نہیں بلکہ رفتارجمع درست سمت ہے۔ اس لئے کہ منزل تو ایک
ہوگی لیکن سامنے موجودراستے کئی ہوسکتے ہیں ۔ جب تک انسان اپنی منزل کا
تعین نہیں کرتاوہ اس سوچ بچار میں مصروف رہتا کہ کونسا راستہ اختیار کرے
جواسے منزل کی جانب لے جائے، بھلا ایساشخص اپنی رفتار تیز کرنے سے کیا حاصل
کرسکتاہے۔ صحیح فیصلہ نہ کرنے کے باعث کہ کہاں جانا ہےاس وقت وہ تذبذب
اورکشمکش کا شکار رہتا جوذہنی صحت کی تباہی کے ساتھ ساتھ منزل کے حصول میں
بھی رکاوٹ ہے۔بقول معین احسن جذبی
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
یا پھر بقول اظہر لکھنوی
ایک منزل ہے مگر راہ کئی ہیں اظہرؔ
سوچنا یہ ہے کہ جاؤ گے کدھر سے پہلے
بعینہ یہاں بھی منزل مقصود کے تعین کے بغیر تیز قدم اٹھانا یا تیز تیز
گھومنا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ذہن کو بغیرعزم ونیت کئے تیز کرنے کی کوشش
کرنا گاڑی کے پہیوں کو بغیر کسی سطح یا سڑک کے گھمانے کے مترادف ہے،یہ سعی
رائیگاں وبے کارجائے گی ۔ان کو گھمانے سے صرف انجن کی قوت وطاقت کو کمزور
کیاجاسکتا اس سے حاصل کچھ نہ ہوگا ۔ زیادہ ترافراد اپنی ذہنی طاقتوں کو
ضائع کرتے ہیں۔وہ غیر ضروری بوجھ(غیرضروری خیالات،افکار،مناظرے، مباحثے،
رنجشیں،کدورتیں) کی گھٹڑی اپنے سرپراٹھائے گھومتے رہتے ہیں۔ یا پھر سوشل
میڈیا کا غیر ضروری استعمال جس میں بسا اوقات انسان اپنا بہت سا قیمتی وقت
غیر ضروری پیغامات،ای میلز وغیرہ پڑھنے اوران کے جواب دینے میں صرف
کردیتاہے جو نہ کار دنیا نہ کارعقبیٰ میں شمار ہوں گے۔شاید وقتی طور پر وہ
انہیں بہت اہم سمجھ رہے ہوں لیکن وہ نہ صرف غیرضروری ہوتے ہیں بلکہ
حقیقتاًان کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ان کی مثال اس کاٹھ کباڑ کی
طرح ہے جسے انسان ساری زندگی سنبھال کر رکھتا ہے کہ شاید اب یہ کام آئے ،
اور اس دوران وہ ان کی اصل قیمت سے زیادہ ان کی حفاظت میں ضائع کردیتا
اورآخروہ بھی کسی کام نہیں آتے۔ لہذا بے کار چیزوں کے انبار کو ضائع ہی
کردیا جانا چاہئے کیونکہ ان کی تمام تر حفاظت کے لئے کی گئی
تدابیر،تجاویزاورتحاریر سعی لاحاصل ہی کہلائیں گی ۔
یہی حال بغیر مقصدیت اورتعینِ سمت کے بغیر کام کرنے والے افراد کاہے جواپنا
ذہن کچھ اس انداز سے 100 فی صد استعمال کرتے ہیں کہ یہ استعمال ان کی
زندگیوں پر رتی برابر بھی مثبت اثرمرتب نہیں کرتا۔وہ بغیر کسی ارادے اورنیت
کے خود کار طریقہ (غیرواضح اورمبہم انداز )سے چلتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کسی
بلندی پر چڑھ دوڑے کہ یہ تو بلندی ہے اگر وہ قدم اس کی منزل کی جانب نہیں
اس بلندی پر چڑھنا کسی شان ،آن اوروقار کا باعث نہ ہوگا ۔بقول شجاع خاور
یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے
پہاڑ کچھ بھی سہی آسمان تھوڑی ہے
مزید اس کی وضاحت کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ زندگی میں محض رفتار کارگر نہیں
ہوتی خواہ وہ بلندی کی جانب ہی کیوں نہ ہو۔رفتار ایک کمیتی (Quantitative)
چیز ہے اس کے ساتھ درست کیفیت(کوالٹی کاصحیح) کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس لئے
رفتار سے سے زیادہ اہم منزل کی جانب صحیح سمت یا رخ ہوتا ہے کیوں کہ
اگررفتار کے ساتھ سمت صحیح نہ ہوگی محض رفتار کس کام کی(بلکہ اگروہ غلط رخ
پر ہو تو زیادہ نقصان دہ ہے کہ صحیح ٹریک پرآنے کے لئے اتنا ہی زیادہ فاصلہ
بڑھ جائے گا) ۔اگرغلط رخ پر کچھ زیادہ ہی فاصل طے کرلیا توکہیں ایسا نہ
ہوکہ ہمیشہ کے لئے وہ اپنی منزل سے دورہوجائے ۔بقول عبد الحمید عدم
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی
ذہن کی مکمل صلاحیتوں کو اپنی منزل مقصود کے تناظر میں کیسے استعمال
کیاجائے؟
کامیابی وکامرانی کی آرزو کو حقیقت کےروپ میں ڈھالنے کے لئے چند عملی
اقدامات:اس عادت بد سے چھٹکارے وگلوخلاصی کا ایک ہی ذریعہ ہے : واضح ارادے
اورعزائم باندھ کر لکھ لینا۔یہ وہ طریقہ ہے اس میں نہ تو خارج سے کسی فرد
کی ضرورت ہے اورنہ ہی جدید سائنسی آلات کی ۔اپنی مدد آپ کے فارمولے کے تحت
اس مصیبت سے نجات پانا بہت آسان ہے ۔ بس اس کے لئے ارادہ پختہ اورذہنی
اعصاب کو قوی بنانے کے ساتھ مندرجہ ذیل تکنیکوں سے کام لینا پڑے گا اوریہ
مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا۔
ذہنی عزائم باندھنا،ہرہفتہ کے اختتام پر سابقہ ہفتہ کا جائزہ لینا اور اہم
نکات کو قلم بند کرلینا۔ کیا سفر صحیح رخ پرہے(،درست سمت، رفتار، مقصد،
واضح عزائم) اور منزل کی طرف آگے بڑھاہے یا پھر غلط رخ یا مخالف سمت میں
ہونے کے سبب منزل سے مزید دورہوگیا ہے ۔کون کون سے کام ،باتیں وعوامل وقت
اورتوانائیاں ضائع کررہے ہیں ۔
پچھلے ہفتہ کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے اگلے ہفتہ کے لئے نئے لائحہ
عمل تیار کرو،دوبارہ عزم کرو ۔ ہر وہ چیز ،بات،کام،تعلق اورراستہ جو منزل
میں آڑ یا رکاوٹ بن رہا ہو اس میں لیت ولعل کامظاہرہ نہ کرو۔اپنا لاگ لپیٹ
کے بغیربے رحمانہ احتساب کرو ،ان تمام امور ،تعلقات،عادات، کو بیک جنبش قلم
یکسر مسترد کردو جو مقاصد سے دورلے جانے کا باعث بن رہے ہوں اورذہنی طاقتوں
کو ضائع کررہے ہوں۔ایسا کرنے پر خواہ کوئی کتنا ہی الزام دے،سرچڑھے کوئی
پرواہ نہ کرو۔"ایسا کہاں سے لاؤں سب اچھا کہیں جسے"۔ایسا نہیں کہ راہ راست
پر آجانے کے بعد معاشرے کے سب کردار اچھائی ہی کریں گے۔ بلکہ بعض اوقات راہ
راست پر آنے والوں کو الزام کچھ زیادہ ہی دئیے جاتے ہیں:
میں اگر راہ پر نہیں آتا
کوئی الزام سر نہیں آتا
بہرحال توجہ مرتکز کرو۔ توجہ کیا ہے یہ تمام چیزوں سے کٹ کر ،ان کا انکار
کرکے ایک جانب مبذول ہونے کا نام ہے۔(ذہن میں کلمہ طیبہ پر غور کریں یہ بھی
تو "لاالہ الااللہ" تمام جھوٹے معبودوں سے کٹ کر ایک رب کی طرف حنیف(یکسو)
ہونے کا نام ہے ۔اگریہ عمل باِلارادہ خلوص دل سے ہو تو یہ بھی ذہنی استعداد
کو بڑھانے کا سبب بنے گا)۔اگر ایسا نہ کیا تو انسان اپنی تمام تر توانائیوں
ا ور وقت کو بے مصرف و بے محل استعمال کرتا رہے اور ایک وقت ایسا بھی آئے
گا جب وہ بے بسی سے یہ کہنے پر مجبور ہو گا۔بقول فریاد آزر
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
یہ کوئی لمباچوڑا کام نہیں بلکہ ہرکام سے پہلے چند سیکنڈز اس کا دیا نتداری
سے تجزیہ کرو کیا یہ تمہارے مقاصد میں معاون ہے مقصد کی طرف لے جارہا ہے۔
تو ٹھیک ہے ورنہ اگر نیت و ارادے ،خواہش،محبت اورعقل کے بجائے خودکارانداز
میں، معاشرتی دباؤ یاجذباتی بہاؤ یا کسی اوروجہ سے کیا جارہا ہے اس کام کو
چھوڑ دو، چھوڑ دو، چھوڑ دو۔کیونکہ شکست اور ناکامی کی صورت میں خود کو یہ
کہہ کر مطمئن نہیں کیاجاسکتا کہ مجھے دوسری چیزوں پر توجہ کرنی تھی۔شکست
صرف شکست ہے۔
سب سے مشکل کام اپنے مقاصد کو محدود اورواضح کرنا۔(دیکھو پھیلی ہوئی تیز
دھوپ کچھ نہیں جلاسکتی لیکن اگر اس پھیلی ہوئی دھوپ کو کسی عدسہ کی مدد سے
محدود کردو ،کوئی ٹارگٹ بنادو تو پھر یہ جلادے گی ،خاکستر کردے گی)
ذہنی صلاحیتیں بڑھانے کے لئےعملی اقدامات:
ہر صبح صرف ایک نکتہ (کسی خاص کام،منزل،مقصد) پر پانچ منٹ فوکس کریں۔
واضح مقصد کا تعین کرنا ہی اصل کام ہے۔ جب یہ تعین ہوجائے گا تو یہ انسان
کو ذمہ دار بناتے ہوئے مجبورکرے گا کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد
وکوشش کرے ۔ یہ توجہ کو قوی اورطاقتور بنادے گا۔جس سے انسان اپنی ترجیحات
کے مطابق مزید کانٹ چھانٹ کرتے ہوئے اپنے غیرضروری ذہنی بوجھ کو کم اورصحیح
ٹارگٹ پر رکھ سکتا ہے۔یہ کانٹ چھانٹ ذہنی اضطراب و بے آرامی کو سکون دے گی۔
فالتوکاموں کے ڈھیر مختصر کرکے ایک ٹارگٹ (نشانہ) بناؤ تاکہ کوششوں کا تمام
تر رخ صحیح سمت اور کامیابی کی جانب گامزن ہو۔کاموں کی فہرست جتنی مختصر ،
واضح اورٹارگٹ پر ہوگی اتنی ہی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ کامیابی کا
امکان بڑھ جائے گا۔
ہفتہ وار تجزیہ کے لئے 30 منٹ،لایعنی کاموں کا ڈھیر کم کرنے کے لئے پانچ
منٹ اور منزل یا مقصد پر فوکس کرنے کے لئے پانچ منٹ درکار ہوں گے۔ اس طرح
اوسطاً روزانہ پندرہ منٹ درکار ہوں گے۔اس طرح پندرہ منٹ صرف کرنے سے بنیاد،
سمت،رخ صحیح کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ ذہن میں رہے کہ عزائم باندھنے اورغوروفکر کی عادت سے رفتار فوری طور پر
اگرچہ نہیں بڑھے گی لیکن تمام تررفتار صحیح رخ پر ہوگی ۔ صرف اورصرف منزل
کی طرف ۔صحیح رخ پر ہونے کے بعداگرچہ رفتار کم ہی کیوں نہ محسوس ہو منزل
ضرور حاصل ہوجائے گی۔پھرکوئی کچھ بھی کہے انسان کو اپنی منزل ہی ہیچ نظرآئے
گی اوروہ نئی منزلوں کا تعین کررہا ہوگا۔بقول نفس انبالوی
اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
مجھے یقیں ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے
قابل غور نکتہ:
بعض افراد جب انہیں کوئی بڑا کام درپیش ہو تا ہے تو ہر تھوڑی دیر بعد باقی
ماندہ کام کا حساب لگاتے ہیں کہ کتنا کام کرلیا اورکتنا باقی رہ گیا،اسے
گنتے ہیں۔یعنی وہ اصل کام میں محنت کرنے کے بجائے باقی ماندہ کام کا حساب
لگانے میں وقت اورمحنت صرف کرتے ہیں اور یہ فراموش کردیتے ہیں کہ اگر یہ
توانائی اوروقت بھی وہ اپنے مقصد کے حصول میں صرف کرتے تو پھر ان کی منزل
مزیدقریب آجاتی)واضح منزل پر نظر رکھنا یہاں تک کہ راستے کی چیزوں بلکہ میل
کے پتھر بھی گننے کی ضرورت نہیں۔ گننے کے بجائے صرف اپنی منزل پر ہی توجہ
رکھی جائے اورہرگزرتے لمحے قدم سوئے منزل ہی بڑھتے جائیں یقیناً منزل حاصل
ہوجائے گی۔ بقول بشیر بدر
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
لمحہ فکریہ:
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ کسی منزل کا کوئی تعین نہیں محض بھیڑ چال ہے۔
ایک بھیڑ کسی جانب منہ اٹھا کر چل پڑی تو کارواں بن گیا۔کبھی تھوڑا بائیں
،تھوڑا دائیں،کبھی بلندی کی جانب کبھی پستی کی طرف جاتے جاتے کسی گہرے کھڈ
جاگرے،جدھر ایک کا رخ ہوا اسی جانب سب چل دیئے۔ قائد منتخب کرنے کے معاملے
میں بھی اس قوم کا حال کچھ زیادہ اچھا نہیں کہ جس کو کچھ نمایاں دیکھا
(خواہ وہ اپنی چرب زبانی،مکاری وعیاری کے سبب نمایاں ہو)اس فرد کو رہبر
سمجھ لیا،رہنما مان لیا،آئیڈیل بنالیا،نہ اس کے اخلاق دیکھے نہ کردار،نہ
گفتار نہ علم نہ تہذیب بلکہ " اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں" کے
مصداق چلے جارہے ہیں۔ اس کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں ۔ایک وقت آتا ہے جب
پردہ اٹھتا ہے ،نقاب اترتاہے تو وہ رہبر نہیں رہزن نظرآتاہے پھر کسی دوسرے
کے پیچھے ہولیتے ہیں۔یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ دنیا کی واحد قوم
ہے جو رہنما کے چناؤ میں منشور،لائحہ عمل اور اس کی قابلیت نہیں دیکھتی
بلکہ ان کی نظر ترقی ، کامیابی اورمنزل کے بجائے صرف رہنما پر ہوتی ہے "۔اس
قوم پر حبیب جالب کا تبصرہ: "یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں" اور "بے
شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں "۔بہرحال آخر میں ایک نصیحت ہے کہ ماضی میں
جو بھی ہوا سوا ہوا۔ اب سیماب اکبر آبادی کے اس شعر پر عمل کرلیجئے:
ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصتِ باقی سے کوئی کام لے
خلاصہ کلام:
ذہنی استعداد و صلاحیتوں کو بڑھانے کا سب سے کارگر وموثر نسخہ واضح اہداف
کا تعین اور غیر ضروری ولایعنی امور سے کنارہ کشی ہے۔ اس سلسلے میں حدیث
مبارکہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ (اسلام کی خوبیوں میں سے ایک
خوبی لایعنی امور کو ترک کردیناہے)انتہائی اہم اورتمام ترمسائل کا حل
اورمصائب سے نجات کا باعث ہے۔اللہ رب العزت ہمیں صحیح معانی میں اس حدیث پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
|