15 اپریل 2019ء میری زندگی کاایک یادگار اور خوشگوار
ترین دن قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس دن میری ایک پوتی ( فریسہ زاہد ) اور پوتا
(محمد موسف شاہد) زندگی میں پہلی بار سکول گئے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے
یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک پوتے
اور دو پوتیوں کو سکول سے لینے جاتا ہوں مجھے ان سے والہانہ محبت کے اظہار
کا جو موقع میسر آتا ہے اس کا ذکر میں الفاظ میں نہیں کرسکتا ۔ کیا اﷲ
تعالی مجھے زندگی کی اتنی مہلت دے گا کہ میں فریسہ زاہداور محمد موسف شاہد
کو بھی سکول سے لینے جایاکروں ۔اس خواہش کااظہار ایک دن میں نے اپنی اہلیہ
(عابدہ بیگم ) سے کیا تو اس نے خوشخبری دیتے ہوئے مجھے بتایا کہ آپ کے یہ
دونوں پوتی اور پوتا اﷲ نے چاہا تو 15اپریل 2019ء کو سکول جائیں گے ۔ دونوں
بچوں کو قربان ایجوکیشنل ٹرسٹ والٹن روڈ لاہور کینٹ میں داخل کروا دیا گیا
ہے ‘ بس چند ہفتوں کی بات ہے پھر دیکھنا آپ کی لاڈلی فریسہ اور بہت ہی
پیارا محمد موسف وردی پہن کر سکول جاتے نظر آئیں گے اور واپس لانے کا فریضہ
حسب معمول آپ ہی ادا کریں گے ۔اگر زندگی نے وفا کی تو ۔
یقینا یہ اطلاع میرے لیے خوشی کا باعث تھی ‘ میں تو ایسے ہی خوشگوار لمحات
کے لیے جی رہا ہوں ۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میری سب سے بڑی پوتی (شرمین
فاطمہ ) زمین پر رینگتے ہوئے میری آغوش میں آ بیٹھتی اور توتلی زبان سے
کہاکرتی تھی" دادا میں نے سکول جانا ہے"ایک شام میں بنک سے گھر پہنچا ہی
تھا کہ اس ضد نے کرنا شروع کردی ‘ بنک میں کام کرتے کرتے میں کافی تھکاوٹ
محسوس کررہا ہے لیکن اس کے محبت بھرے اصرار کے سامنے میں بے بس ہوگیا ۔اسے
بائیک پراپنے ساتھ لے کر اس دکان پر پہنچاجہاں رنگ برنگی ٹوفیاں اور چاکلیٹ
موجود تھے ‘ جوسز سے بھرا ہوا فریزر بھی نظر آرہاتھا ۔میں نے شرمین سے کہا
تم نے جو لینا ہے دکاندار کو اشارہ کردو ‘ حالانکہ اس سے پہلے وہ چاکلیٹ پر
ہی خوش ہوجایا کرتی تھی ‘ آج پتہ نہیں کیوں وہ ہر چیز کو دیکھ کر انکار
کررہی تھی ۔ دکاندار نے میرے کہنے پر وہ تمام چیزیں اسے باری باری دکھائیں
کہ شاید اس کا دل للچا جائے اور وہ سکول جانے کی ضد چھوڑ دے ۔ لیکن اس نے
تو آج تہیہ کررکھاتھا کہ سکول جانا اور ابھی جانا ہے ۔ میں نے پیار سے اسے
بتایا کہ میری جان سکول صبح کھلتے ہیں ‘ کل صبح تمہیں سکول میں داخل
کرواآؤں گالیکن وہ میری کسی بات پر آمادہ نہ ہوئی ۔ اس کا تو بس ایک ہی
اصرار تھا کہ مجھے آج اور اسی وقت سکول جانا ہے ۔
مکہ کالونی گلی نمبر 9میں نواب کمپیوٹر کالج ہے جہاں کمپیوٹر سمیت مختلف
کورسز کروائے جاتے ہیں وہاں سکول کا ایک ماحول نظر آتا ہے۔ حسن اتفاق سے اس
کمپیوٹر کالج کا پرنسپل میرا دوست تھا ‘ میں نے سوچا کہ چلو وہاں چلتے ہیں
۔ شرمین خوش ہوئی اور ایک بار پھر ہم بائیک پر رواں دواں تھے۔نواب کمپیوٹر
کالج پہنچ کر جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے تو پرنسپل نے ہمارا استقبال کیا
اور بیٹھنے کے لیے کرسیاں پیش کیں ۔ اس سے مخاطب ہوکر میں نے کہا یہ میری
پوتی شرمین فاطمہ ہے ‘ یہ ضد کررہی ہے کہ مجھے سکول میں پڑھنے جانا ہے ‘
اور آج ہی جانا ہے اب بتاؤ میں کیا کروں ۔ اس نے اپنے پاس سے کاپی اور
چھوٹا قاعدہ نکال کر شرمین کو دیا اور کہا کہ اسے بیٹھ کر بیٹھو ۔اسی اثنا
ء میں اس نے ہمارے لیے جوسز منگوا لیے ۔ ہم تینوں نے جوسز پیئے اور دس
پندرہ منٹ تک شرمین سرجھکا اس قاعدے کو دیکھتی رہی ۔ اس کے باوجود کہ ابھی
سکول جانے کی نہیں عمر نہ تھی اور نہ ہی اسے پوری طرح بولنا اور چلناآتا
تھا لیکن گلی کے بچے جب یونیفام پہن کر بستہ اٹھائے سکول جانے لگتے تو اس
لمحے وہ کھڑکی سے دیکھ رہی ہوتی ۔ قدرت نے چونکہ بچوں میں سیکھنے اور نقل
کرنے کی مہارت عام انسانوں سے زیادہ دے رکھی ہے اس لیے بچے ماحول سے ضرور
متاثر ہوتے ہیں ۔وہ والدین جو غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو پڑھا نہیں پاتے۔
فیکٹریوں ‘ ورکشاپوں اور کوٹھیوں میں معمولی معاوضے پر ملازم کروا دیتے ہیں
ان کادل بھی یقینا سکول جانے کو کرتا ہوگا اور وہ بھی چپکے چپکے آنسو بہاتے
ہوں گے کیونکہ ان کی فریاد سننے والا اور ان کی دلی خواہش پوری کرنے والا
کوئی نہیں ہوتا ۔
میں نے جب اس کے والد ( محمد شاہد لودھی ) کو بیٹی کی خواہش سے آگاہ کیا تو
اس نے نیا تعلیمی سال شروع ہوتے ہی ممتاز میموریل سکول میں داخل کروا دیا ۔
صبح اس کا والد سکول چھوڑ جاتا اور چھٹی کے وقت شرمین کی دادی پیدل جاکر
گھر لے آتی ۔خدا کا شکر ادا کیا کہ ہماری تیسری نسل کی پہلی بچی سکول تو
گئی۔پھر جب مکہ کالونی گلبرگ کو چھوڑ کر ہم قادری کالونی والٹن روڈ کے نئے
گھر میں شفٹ ہوئے تو شرمین فاطمہ کو شریف میموریل سکول پیر کالونی گلی نمبر
1 میں داخل کروا دیا گیا ۔چونکہ دسمبر 2014ء کو میں بنک آف پنجاب سے ریٹائر
ہوچکا تھا اس لئے شرمین کو سکول سے واپس لانا اب میری ذمہ داری قرار پائی
۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ پہلے دن سے ہی مجھے اپنی اس پوتی سے بے حد پیار ہے
‘وہ ہنستی ہے تو میں ہنستا ہوں وہ روتی ہے تو میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو
نکل آتے ہیں ‘ میں اس کی خوشی کے لیے ہر وہ کام کرنے کو تیارہوں جو اسے
پسند ہو ۔ سردیوں اورگرمیوں کی دوپہر میں ایک بجے سکو ل کے دروازے پر پہنچ
جاتا اور اس وقت تک منتظر رہتا جب تک وہ سکول سے نکل کر میرے سینے سے نہ آ
لگتی ۔ پھر وہ راستے میں مختلف فرمائشیں کرتی ‘ کبھی کہتی دادا میں نے آئس
کریم کھانی ہے کبھی گلاب جامن کے لیے ضد کرتی ۔کبھی پرچون کی دکان پر روک
لیتی ۔ باامر مجبوری مجھے اس کی ہر بات ماننی پڑتی ۔ سال مکمل ہونے پر ایک
دن بیٹے شاہد نے انکشاف کیا کہ شریف میموریل سکول میں پڑھائی اچھی نہیں
ہوتی اس لیے میں شرمین کو قربان سکول میں داخل کروا رہا ہوں ۔ قربان سکول ‘
نسبتا زیادہ دور ہے وہاں جانے کے لیے بائیک کا استعمال لازمی کرنا پڑتا ہے
۔
ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ میری بہوؤں کو گلیوں اور بازار سے تنہا گزرکر سکول
سے بچے لینے نہ جانا پڑے۔ اس لیے قربان سکول سے شرمین فاطمہ لانے کی ذمہ
داری میں نے سنبھال لی اور اپنی مصروفیات کوکچھ اس طرح ترتیب دے لیا کہ
سکول سے چھٹی کے وقت میں گھر پر ہی رہوں ۔ اﷲ تعالی نے ایک اور کرم کیا کہ
اب میرے چھوٹے بیٹے زاہدکا ہونہار فرزند محمد عمر لودھی بھی قربان سکول میں
داخل ہوگیا ۔ اب ایک کی بجائے دو بچے میری ذمہ داری میں شامل ہوگئے ۔ عمر
چونکہ پلے گروپ میں تھا اس لیے اسے چھٹی گیارہ بجے ہوتی جبکہ شرمین کو
ساڑھے بارہ بجے ۔ چنانچہ مجھے دومرتبہ گھر سے سکول جانااور پھرواپس آنا
پڑتا ۔ محمد عمر کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ بہت ہی نفیس اور پرکشش
بچہ ہے ‘ گھر میں داخل ہوتے ہی اکثر میری زبان پر محمد عمر کانام ہوتا ہے ‘
جیسے ہی اسے میری آمد کی اطلاع ملتی وہ دوڑاچلاآتا اور میری ٹانگوں سے چمٹ
جاتا ۔مجھے علم تھا کہ اسے کیا کیا چیز پسند ہے اس لیے اس کے کہنے سے پہلے
ہی وہ چیز لاکر دے دیتا اور وہ مجھے پیار کرکے کھیل میں مصروف ہوجاتا ۔ اسے
نانی گھر جانے کا بے حد شوق تھا جبکہ میں اسے اپنی نظروں سے دور نہیں
کرناچاہتا ‘ میں اکثر اسے اس شرط پر پسندیدہ چیزیں لاکر دیتا کہ وہ اپنی
نانی گھر نہیں جائے گا ۔ وہ میرے سامنے تو حامی بھر لیتا لیکن جب اس کی ماں
اپنے میکے جانے لگتی تو وہ سیاہ رنگ کا کوٹ پہنے آنکھوں پر عینکیں لگا کر
میرے سامنے آ کھڑاہوتا اور سیلوٹ مار کر کہتا دادا میں نانی گھر ککڑ کھانے
جارہا ہوں ۔ میں ازراہ مذاق اسے روکتا لیکن وہ کہاں رکنے والا تھا ‘ بھاگتا
ہوا بائیک پر جابیٹھتا اور نظروں سے اوجھل ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب وہ واپس
آیا تو اس کے نانا ( محمد صدیق )نے اسے ایک تین پہیوں والی سائیکل تحفہ میں
دی ۔یہ سائیکل اسے بے حد پسند تھی وہ سائیکل کو ہر لمحے چلاتااور دوڑاتا
دکھائی دیتا ۔ سکول جانے کے بعد اس کے معمولات تبدیل ہوگئے اب اسے تین چار
گھنٹے سکول میں رہنا پڑتا ۔ جب میں اس کے لیے جوس لے کر سکول کے دروازے پر
اس کا منتظر ہوتا تو دوڑتا ہوا میرے دامن گیر ہوجاتا ۔اس لمحے ایک سرسراہتی
ہوئی لہر سی پیدا ہوتی اور پورے جسم میں پھیل جاتی یقینا یہ خوشی کی وہ لہر
تھی جو عمر سے ملنے کے بعد مجھے حاصل ہوتی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اصل
سے سود زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔ایک سال یوں معاملات چلتے رہے پھر بڑے بیٹے
شاہد کی دوسری بیٹی رومساشاہد بھی قربان سکول میں داخل ہوگئی ۔اب واپسی کا
ٹائم ٹیبل تین حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔اس کے باوجود کہ رومسا شاہد دوسرے
بچوں کی نسبت خاموش طبع ہے لیکن اس کی یہی عادت اچھی بھی لگتی ہے ‘ وہ بھی
میری توجہ کا مرکز بن گئی ۔ دو سال میں رومسا شاہد ‘ محمد عمر زاہد اور
شرمین فاطمہ کو سکول سے گھر لاتا رہا اور راستے میں ان کی ہر جائز خواہش کو
پورا بھی کرتا رہا وہ بھی مجھے اپنی اپنی محبت سے نوازے رہے ۔
میرے گھر میں ابھی دو چھوٹے بچے باقی تھے ‘ جن کی عمریں ابھی سکول جانے کی
نہیں تھیں لیکن میں ذہنی طور پر انہیں سکول جانے کی تیاری کراتا رہا ۔جب وہ
اپنے بڑے بہن بھائیوں کو وردی پہن کر سکول جاتے دیکھتے توان کے دل میں بھی
شوق پیدا ہوتا ۔ میں جب ان سے پوچھتا کہ تم سکول کیسے چل کے جاؤ گی تو
فریسہ فوجی انداز میں پریڈ کرتی ہوئی میرے پاس آتی اور سیلوٹ مارتی ۔ محمد
موسف بھی اس کی تقلید کرتا ۔گویا ذہنی طور پر دونوں بچے بھی سکول جانے کے
لیے تیار ہوچکے تھے ۔ ایک کا نام محمد موسف شاہد اور دوسری بچی کانام فریسہ
زاہد ہے۔جب بڑے تینوں بچے سکول چلے جاتے تو میری تنہائی کو شیئر کرنے اور
مجھے محظوظ کرنے کا ذمہ ان چھوٹے بچوں نے لے لیا تھا۔ مجھے پتہ ہے کہ انہیں
ٹوفیاں ‘ چاکلیٹ ‘ جیلی اور کیک پسند ہیں کبھی کبھی آئس کریم کھانے کی بھی
ضد کرتے ہیں اس لیے میں ایسی تمام چیزیں زیادہ مقدار میں لاکر اپنی الماری
میں محفوظ کرلیتا تاکہ جب وہ فرمائش کریں تو میں ان کو دے دوں ‘ ان کو
مایوسی کاشکار نہیں ہونے دینا چاہتا ۔کئی مرتبہ میری اہلیہ نے کہا کہ بچے
تو اکثر روتے رہتے ہیں آپ کیوں پریشان ہوجاتے ہیں ۔میں نے جواب دیا میں
چاہتا ہوں میری زندگی میں انہیں کوئی دکھ نہ پہنچے ۔ ہر نماز کے بعد انہی
کی صحت یابی اور کامیابی کے لیے دعا کرتا ہوں۔
بہرکیف 15اپریل 2019ء وہ دن بھی آپہنچا جب صبح سویرے محمد موسف اور فریسہ
زاہد اپنے اپنے والد کے ساتھ خوشی خوشی بائیک پر سوار ہوکر سکول جارہے تھے
‘بچوں کو سکول چھوڑ کرشاہد اور زاہد اپنے اپنے دفتر چلے گئے لیکن اس دوران
زاہد کی تین فون کال موصول ہوئیں وہ بھی فریسہ کے لیے بے چین تھا کہ کہیں
سکول میں رو نہ رہی ہو جبکہ شاہد کی کیفیت مختلف نہ تھی ۔ ایک جانب ان بچوں
کے والدین پریشان تھے اور دوسری جانب میں اور میری اہلیہ سخت اضطراب میں
تھے کہ کیسے چھٹی کا وقت قریب آئے اور ہم سکول کے دروازے پر جا بیٹھیں
۔قربان سکول کی انتظامیہ بے رحم ثابت ہوئی۔ بھلا چھوٹے اور معصو م بچے (
جنہوں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی گھر کے افراد کے سوا کسی اور کو نہیں
دیکھا وہ تین گھنٹے کیسے والدین کے بغیر گزاریں گے ۔ دس بجے تو ہم دونوں
میاں بیوی ہاتھوں میں جوس پکڑے سکول کے دروازے پر جا پہنچے جہاں کتنی ہی
عورتیں اور مرد موجود تھے جو یقینا ہماری ہی طرح پریشان ہوں گے ۔
ٹھیک گیارہ بجے محمد موسف شاہد زارو قطار روتا ہوا سکول گیٹ سے باہر نکلا
وہ خوف کے عالم میں اپنوں کو تلاش کررہا تھا جیسے ہی اس کی نظر اپنی دادی
پر پڑی تو دوڑ کے اس کے گلے لگ گیا ۔ وہ مسلسل روئے جارہا تھا ‘ معصوم بچوں
کے لیے تین گھنٹے جدائی محال تھی ۔میں نے بھی اسے پیار کیا اور آغوش میں
اٹھا کر بائیک پر لابیٹھایا اس کے ہاتھ جوس تھمایا تو وہ رو بھی رہا تھا
اور جوس بھی پی رہا تھا کہتا میرے پاپا سے بات کراؤ وہ مجھے چھوڑ کر کیوں
چلے گئے ‘ میں نے بیٹے شاہد کو کال کی اور موبائل موسف کو پکڑا دیا ۔پتہ
نہیں موسف اپنے والد کو کیا کیا کہا رہا تھا‘ غصے کے عالم میں کچھ کہتا ہی
جارہا تھا ۔اپنے والد سے بات کرنے کے بعد قدرے پرسکون ہوگیا ۔ ابھی فریسہ
نمودار نہیں ہوئی تھی دس پندرہ منٹ جب گزر گئے تو میں نے گارڈ سے شکایت کی
‘ وہ سکول کے اندر گیا اور فریسہ کو باہر لے کر آیا فریسہ زاہد کی کیفیت
موسف سے الگ نہ تھی وہ بھی روتی ہی جارہی تھی ہم نے اسے پیار کیا سینے سے
لگایا اور دلاسہ دیتے ہوئے جوس پینے کو دیا تو وہ ہچکیاں لیتے ہوئے جوس
پینے لگی۔اسی اثنا ء میں زاہد اسلم کا فون آگیا میں نے موبائل فریسہ کو دے
دیا وہ بھی موسف کی طرح نہ جانے کیا کچھ اپنے باپ سے شکایت کے انداز میں
کہے جارہی تھی ۔
گھر پہنچے تو ماں کی آغوش میں دوڑ کر جاچھپی ۔بہت دیر تک ماں سے چمٹی رہی
۔جب کچھ نارمل ہوئی تومیں نے ازراہ مذاق پوچھا فریسہ سکول کیسے جائے گی ذرا
چل کے تو دیکھاؤ ۔ پہلے وہ فوجی انداز میں لیفٹ رائٹ کرتی ہوئی میرے پاس
آکر سیلوٹ کیا کرتی تھی اب اس کا انداز تبدیل ہوچکا تھا ‘ اس کی یہ مستانی
چال دیکھ کر فریسہ کی والدہ زور دار قہقہہ مار کر ہنسی اور اپنی بیٹی کو
سینے سے لگالیا ۔دوسرے دن نارمل طریقے سے اپنے اپنے باپ کے ساتھ دونوں بچے
سکول گئے ۔ چھٹی کے وقت جب ہم دونوں لینے کے لیے گئے تو آج وہ بہتر دکھائی
دیئے ۔جس پر میں نے اﷲ کاشکر اداکیا ۔
اس کے باوجود کہ میں اب 65سال کا ہوچکا ہوں ۔ زندگی کے آخری ماہ و سال چل
رہے ہیں کب موت کا فرشتہ سامنے آکھڑا ہوتاہے اس کے بار ے میں کچھ نہیں
کہاجاسکتا لیکن اﷲ تعالی نے میری وہ خواہش پوری کردی جو محمد موسف اور
فریسہ زاہد کے سکول جانے کے بارے میں میرے دل میں بار بار پیدا ہو رہی تھی
۔ میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر اداکرتا ہوں کہ اس وقت میرے دو پوتے (محمد عمر
زاہد ‘محمد موسف شاہد ) اور تین پوتیاں ( شرمین فاطمہ ‘ رومسا شاہد اور
فریسہ زاہد ) زیور تعلیم سے آارستہ ہونے کے لیے سکول جارہے ہیں ۔ میں اپنے
ان پوتے اور پوتیوں کی تربیت فوجی انداز میں کررہاہوں لیکن میری خواہش ہے
کہ شرمین فاطمہ ڈاکٹر بنے ‘ رومسا شاہد فوجی افسر ‘ فریسہ زاہد فائٹر پائلٹ
بن کر پا ک فضائیہ میں شامل ہواور وطن عزیز کے دفاع میں اپنا کردار ادا
کرے۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فریسہ غصے کی بہت تیزہے جب اسے غصہ آتا ہے تو
وہ کھانے کو دوڑتی ہے میں مذاق سے اسے فریسہ چنڈال کہتا ہوں ۔ جبکہ محمد
عمرزاہد اور محمد موسف کو میں آٹی ٹی انجینئر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں
۔ اب یہ بچے بڑے ہوکر کیا بنتے ہیں اس کاانحصار ان کی ذاتی دلچسپی ‘ تعلیمی
معیار اور قدرت کے فیصلوں پر ہے ۔
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا |