آپ کراچی صدربازار میں جیولرمارکیٹ اور ہانک کانگ شاپنگ
مال کا رخ کریں آپ کی آنکھیں خیرہ رہ جائیں گیں۔ ایک الگ دنیا سے آپ کا
واسطہ پڑے گا۔ یہ ہے قیمتی پتھروں کی دنیا۔ دنیا جہاں کی ہر قسم کا پتھر
یہاں دستیاب ہے۔ اور ہر نوع میں دستیاب ہے۔
زمین کو رب العالمین نے مختلف خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے۔ اس میں قیمتی
پتھر بھی ہیں۔ دنیا کی سب سے قیمتی چیز یہی پتھر ہے۔ دس گرام کا پتھر پانچ
ارب ڈالر کی قیمت رکھتا ہے۔
کارآمد اور فائدہ مند پتھروں کی ہم تین کیٹیگریز بناسکتے ہیں۔ نمبر ایک وہ
پتھر جو عمارتوں اور ہینڈی کرافٹ میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے ماربل اور گرے
نائٹ کہا جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری کے پتھر زیورات اور ہینڈی کرافٹ میں
استعمال ہوتے ہیں۔ اسے سیمی پریشز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تیسری قسم جس سے
صرف زیورات اور نگینے بنتے ہیں اس کو ہریشز کہاجاتا ہے۔ پہلی قسم کی قیمت
فی کلو ایک روپے سے لے کر دوسو روپے تک ہے۔ دوسری قسم کی قیمت پانچ سو سے
پانچ کروڑ تک ہے اور تیسری قسم کے پتھروں کی قیمت کی کوئی حد نہیں۔ دس گرام
کا پتھر پانچ ارب ڈالر تک کا بھی ہوسکتا ہے۔ موخر الذکر دونوں قسم کے
پتھروں کا کاروبار ہمارے موصوف مفتی احسان الرحمٰن حجازی ثم جوہری صاحب
کرتے ہیں۔ پتھروں کی ان تینوں قسموں سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کی سرزمین
کو نوازا ہے۔ جس سے بلاشبہ لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ گلگت، کشمیر،
سوات، مردان ہزارہ وغیرہ کی سرزمین یہ خزانہ اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ صرف
ڈائمنڈ، اوپل، الیگزنرائٹ، تنزنائٹ وغیرہ پاکستان کی زمین میں نہیں۔ پتھروں
کی سب سے بڑی منڈی بینکاک میں ہے۔ رف مال سے نگینے بنانے کی عالمی منڈی
ہمارے پڑوس انڈیا کے شہر جے پور میں واقع ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے انڈیا کی
منڈی بڑی ہے۔ مفتی صاحب سعودی عرب متحدہ عرب امارات ملائیشیا اور سنگاپور
کا دورہ کرچکے ہیں۔ حال ہی میں تھائی لینڈ کی یاترا کرکے آئے ہیں اور رواں
مہینہ ہانک کانگ کے لیے پابہ رکابی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مفتی صاحب کا کہنا ہے جتنا یہ کام دل چسپ اور نفع بخش ہے اتنا ہی اس کا
سیکھنا مشکل ہے۔ دل چسپ ایسے کہ آپ بور نہیں ہوتے نت نئی معلومات آپ کو
ملتی رہیں گیں۔ نئے نئے پتھر دریافت ہوتے رہتے ہیں۔ نفع بخش ایسے کہ ایک
پتھر میں آپ لاکھوں کماکے پورا سال چین وسکون سے گزار سکتے ہیں۔ اور
انتہائی مشکل یوں ہے کہ جوہری حضرات یہ ہنر آگے منتقل کرنے میں ''ابخل ہیں''۔
موٹی موٹی باتیں بھی آپ سے چھپائیں گے۔ آپ خود ٹھوکر کھاکھاکے بتدریج
سیکھنے کے مراحل طے کرتے جائیں گے۔ ہمارے استاذ کا مقولہ ہے کہ آپ نے اس
میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کے سیکھنے لا سفر آپ کا پوتا اختتام تک
پہنچائے گا۔ ایک دن وہ جوہری کہلائے گا آپ مگر نہیں۔
مفتی احسان جوہری صاحب کے بیٹے فضل الرحمٰن جوہری بھی اسی فیلڈ سے وابستہ
ہیں۔ وہ پتھروں کے کاریگر ہیں۔ کٹائی اور فنشنگ میں کافی مہارت رکھتے۔
صدر ہانک کانگ شاپنگ مال میں واقع مفتی صاحب کی دکان حجازی جیمز اینڈ
جیولرز میں قیمتی پتھروں سے بنی تسبیح۔ انگھوٹیاں اور نگینے دستیاب ہوتے
ہیں۔ ان کی دکان کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے برعکس خریدا ہوا
مال خوشی سے واپس لیتے ہیں۔ ایک اور روایت شکن خاصیت یہ بھی ہے کہ نو
واردوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا جاتاہے اور کھلے دل سے ہنر سکھایا
جاتا ہے۔
مفتی صاحب نے ۱۹۹۰ میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے سند فراغت حاصل کی۔ جامعہ
احسن العلوم سے تخصص کے بعد دارالخیر اور معہد الفقیر میں بطور مدرس فرائض
انجام دیے۔ فیس بک کے ''ڈان'' رعایت اللہ فاروقی صاحب ان کے ہم جماعت۔۔۔۔۔۔
بلکہ لنگوٹیے یار تھے۔ کل کی مجلس میں انہوں نے فاروقی صاحب کی طالب علمی
کے کافی قصص ولطائف سنائے۔ جو کسی اور موقع پہ صحیح۔ یار زندہ صحبت باقی۔
عقیق پتھر سے متعلق ان کا کہناتھا مشہور ہے کہ عقیق کی انگھوٹی پہننا سنت
ہے۔ یہ درست نہیں۔ یہ موضوع اور منگھڑت حدیث ہے۔ پتھروں کی تاثیر بارے مفتی
صاحب کا کہنا تھاکہ نجومیوں نے اسے اپنی کمائی کا ذریعہ بنایاہوا ہے۔ ہر
انسان کی تاریخ پیدائش کے مطابق ایک ستارہ نکالتے ہیں پھر اس کے لیے ایک
خاص قسم کا پتھر انگھوٹی میں پہننے کا کہتے ہیں۔ یہ سب بدعقیدہ اور کم زور
ایمان والوں کی باتیں ہیں۔ ہمارے پاس قرآن وحدیث کی صورت میں بابرکت کلام
موجود ہیں۔ ہم اس پاکیزہ کلام کے ذریعہ اپنی قسمت چمکاسکتے ہیں۔ اس ذات
بابرکات کے کلام کے ذریعہ ہی ہماری قسمت چمکے گی بشرطیکہ کوئی صدق دل سے
پیارے اللہ کے در پہ جائے تو سہی۔ |