حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایااے لوگو!کیامیں تمہیں ان کے
بارے میں خبرنہ دوں جو(اپنے )نانا،نانی کے اعتبارسے سب لوگوں سے بہترہیں ؟میں
تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو(اپنے)چچااورپھوپھی کے لحاظ سے سب لوگو ں
سے بہترہیں؟کیامیں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو(اپنے)ماموں اورخالہ کے
اعتبارسے سب لوگو ں سے بہترہیں؟کیامیں تمہیں ان کے بارے میں خبرنہ دوں
جو(اپنے)ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہترہیں؟وہ حسن اورحسین رضی اﷲ
تعالیٰ عنہماہیں ۔ان کے نانااﷲ کے رسول،ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد،ان کی
والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ ،ان کے والدعلی ابن ابی طالب،ان کے چچاجعفربن ابی
طالب،ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب،ان کے ماموں قاسم بن رسول اﷲ اوران
کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب،رقیہ اورام کلثوم ہیں۔ان کے
نانا،والد،والدہ،چچا،پھوپھی،ماموں اورخالہ (سب)جنت میں ہوں گے اوروہ دونوں
(حسنین کریمین)بھی جنت میں ہوں گے۔(امام طبرانی،امام ابن عساکر،امام محب
طبری)
قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"اور(وہ وقت یادکرو)جب ابراہیمؑ کوان کے
رب نے کئی باتوں میں آزمایاتوانہوں نے وہ پوری کردیں (اس پر)اﷲ پاک نے
فرمایا"میں تمہیں لوگوں کاپیشوابناؤں گاانہوں نے عرض کیا(کیا)میری اولادمیں
سے بھی ؟ارشادہوا(ہاں مگر)میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔(البقرہ ۱۲۴)اﷲ
تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنے اولی العزم اوربزرگ پیغمبرحضرت
سیدناابراہیم علیہ السلام کومختلف آزمائشوں میں مبتلاکرنے اوران سے کامیابی
سے گزرنے اورپھراس پرانعام کاتذکرہ فرمایاہے جولوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں
وہ پست رہتے ہیں اورجولوگ آزمائش کوسینے سے لگاتے ہیں وہ عظیم ہوجاتے ہیں
آزمائش ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی آزمائش میں ڈالابھی اسی کوجاتاہے جس سے اﷲ
پاک کوپیارہوتاہے اوروہ اپنے محبوب بندوں کوآزمائش میں ڈالتاہے اﷲ تعالیٰ
نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پیارکیااوراس پیارکے نتیجے میں انہیں
آزمائش میں ڈالااوروہ ہرآزمائش میں سُرخرو رہے سلسلہ آزمائش جوحضرت
سیدناابراہیم علیہ السلام سے شرو ع ہواتھااورسیدالشہداء،راکب دوش مصطفی صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پرآکرختم
ہوا۔امام عالی مقام ،سیدالشہداء،راکب دوش مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ،سیدناحضرت
امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کواپنے جدامجدفاتح خیبر،امیرالمومنین
سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم سے اس قدروالہانہ
لگاؤاورعشق تھاکہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے تین بیٹوں کے نام اپنے
والدگرامی کے مبارک نام پررکھے اوریہ بات بھی آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہی کے
لئے خاص ہے کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پہلے کسی نے اپنے بیٹوں کے نا
م’’علی‘‘نہیں رکھے۔
قارئین کرام !آج ہم جس عظیم ہستی کاذکرخیرکرنے جارہے ہیں ۔وہ خاندان اہلبیت
کے چشم وچراغ ،امت مسلمہ کافخراورسیدالشہداء راکب دوش مصطفی صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔ جن
کانام ’’علی‘‘کنیت’’ابومحمد،ابوالحسن‘‘اورلقب’’اکبر‘‘ہے۔شہزادہ حضرت علی
اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوسیدناحضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورسیدہ
زینب سلام اﷲ علیہاکے بھتیجے ،سیدناامام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
اورشہزادہ سیدناعلی اصغررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بھائی ہیں ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی والدہ ماجدہ ’’لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعودثقفی‘‘ ہیں۔آپ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت 11شعبان المعظم 43ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی ۔آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تعلیم وتربیت والدماجدسیدالشہداء،راکب دوش مصطفی صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورچچاحضرت عباس
علمداررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انتہائی اعلیٰ اورشاندازاندازسے فرمائی ۔آپ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ انتہائی حسین وجمیل اورہم شکل مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
تھے ۔جس کی وجہ سے اہلبیت اطہارسمیت ہرجگہ انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے
دیکھے جاتے ۔ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی زیارت کے اشتیاق اہل
محبت شہزادہ علی اکبربن حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زیارت کرکے لذت
دیدارمصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے اشتیاق کی ایک جھلک محسوس کرتے ۔آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت کے موقع پرآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
چچاسیدناحضرت امام حسن مجتبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اورہمشکل مصطفی
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کواپنی آغوش میں لیکربوسہ لیا۔اورپھراپنے بھائی
سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ کی گودمیں شہزادہ سیدناعلی اکبررضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کودیکرکہاپیارے بھیا!آپ کومبارک ہو اﷲ تعالیٰ نے آپ کوبہت
خوبصورت بیٹاعطافرمایاہے ۔اوردعاؤں سے نوازا۔شہزادہ حضرت علی اکبررضی اﷲ
تعالیٰ عنہ عبادت گزاراورتقوی وطہارت کے پیکرتھے ۔سیدالشہداء راکب دوش
مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے
تمام شہزادوں سے بہت محبت فرماتے تھے ۔مگرشہزادہ علی اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ
سے خصوصی پیارومحبت فرماتے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے جدامجدفاتح
خیبرسیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم سے علم حدیث حاصل
کیا۔علم حدیث کے ساتھ ساتھ سپہ گری،نیزہ بازی اورعرب کی روایات کے مطابق
تمام فنون وکمالات کے ماہرتھے۔(تاریخ اہل بیت ،تاریخ الخمیس ،تاریخ طبری)
دس محرم الحرام 61 ہجری کومیدان کربلا میں تاریخ اسلام کاانتہائی دردناک
اوردلوں کوہلاکررکھ دینے والا سانحہ رونماہوا۔یزیدیوں نے نواسہ رسول صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم لخت جگرسیدۃ النساء العالمین،سیدہ،عابدہ،زاہدہ فاطمۃ
الزہراسلام اﷲ علیھاوفاتح خیبرحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ
الکریم،نواسہ رسول راکب دوش مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم حضرت سیدناامام
حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،ان کی اولاد،اقرباء اوردیگرساتھیوں کوانتہائی
مظلومیت کے عالم میں شہید کیا۔کربلاکے میدان ہمشکل مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم شہزادہ علی اکبربن حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اپنے خاندان کے ہمراہ تھے
۔اس وقت شہزادہ علی اکبربن حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکی عمرمبارک اٹھارہ سال
تھی۔میدان کربلامیں اپنے اباجان امام عالی مقام سیدالشہداء سیدناحضرت امام
حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضرہوتے ہیں۔اورعرض کرتے ہیں اباجان
!مجھے اجازت دیں ۔نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سیدناحضرت امام حسین
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے لخت جگرکی پیشانی پرالوداعی بوسہ دیکرسینے سے
لگایااورحسرت بھری نظروں سے دیکھااوردعائیں دیکرمقتل کی طرف روانہ کیاکہ
بیٹاجاؤ!اﷲ کی راہ میں اپنی جان کانذرانہ پیش کرو۔شجاعت حیدری کے
پیکرشہزادہ علی اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ برق رعدبن کریزیدی عساکرپرحملے کرنے
لگے ۔اورصفیں کی صفیں الٹ کررکھ دیں۔یزیدیوں کے لشکرمیں شامل کئی
افرادکوواصل جہنم کرکے دس محرم الحرام 61 ہجری کوجامِ شہادت نوش کیا۔
تاریخ اسلام میں اوربھی بہت سی جانیں اﷲ کی بارگاہ میں قربان ہوئی ہیں
ہرشہادت کی اہمیت وافادیت مُسلمّ ہے مگرشہادت سیدناامام عالی مقام حضرت
امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت وشہرت
اس لئے بڑھ کرہے کہ کربلاکے میدان میں شہیدہونے والوں کی آقائے دوجہاں
سرورکون ومکان صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے خاص نسبتیں ہیں۔یہ داستانِ شہادت
گلشنِ نبوت صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں۔تاریخ کے
کسی دورمیں بھی امت مسلمہ کربلاکی داستان کوبھول نہیں سکتی ۔امام عالی مقام
سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان تواﷲ کے نام پرقربان
کردی مگرباطل کے آگے سرنہ جھکایا۔اس معرکہ کے واحدراہنماراکب دوش مصطفی صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم امام عالی مقام سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
ہیں ان کے گردایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم ونسل کے افرادشامل نہیں
تھے۔بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی ۔ان میں آزاد،غلام ،عربی
،قریشی،غیرقریشی غرض ہرنسل،ہرقبیلے کے سرفروش شامل تھے ۔
آج کے پرفتن دورمیں ہماری نئی نسل فیشن کے نام پربے راہ روی کاشکارہورہے
ہیں۔مغرب ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت ہماری نوجوان نسل کوتباہی کے دہانے
پرپہنچارہی ہے ۔قرآن وحدیث سے دوری امت مسلمہ کے زوال کاسبب بنتی جارہی ہے
۔نئی نسل کودینی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دیناہوگی ۔علماء حق کی عزت
واحترام اوران کی خدمت کرناہوگی۔آج کی نوجوان نسل کومغربیت کی بجائے شہزادہ
علی اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سیرت پرچلنے کی ضرورت ہے ۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاپیغام نوجوانوں کے لئے ایک نمونہ عمل ہے ۔آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی ذات وفاکی پیکراوراطاعت والدین میں ثانی تھے ۔آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ میدان کربلامیں اپنے والدگرامی کے ساتھ اپنی جان کانذرانہ
بارگاہ خدامیں قربان کرکے تاقیامت امت مسلمہ کووالدین کی اطاعت وفرماں
برداری کاسبق دیا۔
اﷲ عزوجل کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی
الامین |