عقائد اہل السنت والجماعت : مولانا الیاس گھمن

عرضِ مؤلِف
ہر مذہب میں عقائد کی حیثیت مرکزی رہی ہے اسی پر تمام ادیان کے افراد اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔اسلام نے بھی عقائد کی درستگی پر بہت زور دیا ہے ہمارے علماء کرام نے اصلاح عقائد پر جو محنت فرمائی ہے وہ کسی عقلمند سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص ساری عمر اعمال اچھے کرتا رہے لیکن اس کے عقائد یا ان میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی درست نہ ہو تو روزِ قیامت اس کے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے ۔ ہماری جماعت” اتحاد اہل السنة والجماعة“ کی اوَّلین کوشش یہی ہے کہ امت مسلمہ کو صحیح عقائد سے روشناس کرایا جائے اور ہمارے اس راستے میں اہل باطل کی جو رکاوٹیں آتی ہیں ہم بحمداللہ ان کو ہٹانے کی ہمت بھی رکھتے ہیں ۔اسی سلسلہ میں بندہ نے ایک کتابچہ بنام” عقائد اہل السنة والجماعة “ترتیب دیا تھا جس پر اکابر اہل السنة والجماعة کی تصدیقات ثبت تھیں وہ چونکہ بالکل مختصر تھا اس لیے اس میں چند ایک عقائد کا مزید اضافہ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
ناظم اعلیٰ : اتحاد اہل السنة والجماعة پاکستان

وجود باری تعالیٰ:
کوئی بھی چیز خودبخود وجود میں نہیں آتی بلکہ وہ کسی بنانے والے کی محتاج ہوتی ہے اس لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ کائنات بھی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کو بنانے والی بھی کوئی ذات موجود ہے اوروہ” اللہ تعالیٰ“ کی ذات ہے۔

توحید باری تعالیٰ :
اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہیں کسی کے باپ ہیں نہ بیٹے ،کائنا ت کا ہر ذرہ ان کا محتاج ہے ،وہ کسی کے محتاج نہیں اور کل جہان کے خالق و مالک ہیں۔

تقدیسِ ذات و صفات ِباری تعالیٰ:
اللہ تعالی جسم ،اعضاءجسم (جیسے ہاتھ ،چہرہ ،پنڈلیاں اور انگلیاں وغیر ہ )اور لوازم ِجسم (جیسے کھانے ،پینے ،نیز اترنے ، چڑھنے اور دوڑنے وغیر ہ )سے بھی پاک ہیں قرآن و حدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاءجسم یا مخلوق کی صفات کی نسبت ہے ،وہاں ظاہر ی معانی بالاتفاق مراد نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کی تعبیرات ہیں پھر متقدمین کے نزدیک وہ صفات متشابہات میں سے ہیں ان کی حقیقت اور مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا جبکہ متاخرین کے نزدیک ان کی حقیقت و مراد درجہ ظن میں معلوم ہے ۔جیسے یداللہ سے مراد قدرت باری تعالیٰ اور اترنے سے مراد رحمت کا متوجہ ہونا۔

صدق باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ کا کلام سچا اور واقع کے مطابق ہے اور اس کے خلاف عقید ہ رکھنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جھوٹ کا وہم رکھنا بھی کفر ہے ۔

عموم قدرت باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ اپنے کیے ہوئے فیصلوں کے تبدیل کرنے پر قادر ہیں اگرچہ وہ اپنے فیصلوں کو بدلتے نہیں۔

تقدیر باری تعالیٰ:
اس عالم میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا وہ سب کچھ ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے موافق ہر چیز کو پیدا فرماتے ہیں ۔تقدیر علمِ الہی کا نام ہے نہ کہ امر ِالہی کا ۔

اللہ کا عدل وفضل:
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کے خالق ہیں بندوں کے افعال کے بھی خالق ہیں البتہ بندوں کے بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے کے ارادہ،اختیار،خواہش ورغبت کا دخل نہیں ہوتا اور کچھ افعال اختیاری ہیں جن میں بندے کے طبعی شوق ورغبت یا طبعی نفرت وکراہت کا دخل ہوتا ہے ان اختیاری افعال میں بند ہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اس پر اس کا اجر و ثواب ملے گا اور جو برا کام کرے گا اس پر اسے سزا ملے گی یہ اللہ کا عدل ہے البتہ اللہ اپنے فضل سے جس گناہ گار کو چاہے معاف کردے اللہ ہی سے ہدایت کی مغفرت مانگنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں :
ہر چیز کا وجود اور عدم اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ہر چیز کی کیفیت ،خاصیت اور اس کی تاثیر کا ہونا اور نا ہونا بھی اسی کے اختیار میں ہے وہ مسبب الاسباب ہے،کائنات کے اسباب اسی کی مخلوق ہیں اور اسباب کی سببیت بھی اس کی مخلوق اور اسی کی مشیت کے تابع ہے دنیا کی کوئی چیز اپنی ذات میں موثر نہیں نہ لطف وثواب نہ قہر وعذاب ۔وہ جسے چاہے عزت دے وہ ا س کی رحمت ہے اور جسے چاہے ذلت ومصیبت دے اور یہ اس کی حکمت ہے وہ مالک الملک جسے چاہے اختیار اور اقتدار دے اور جس سے چاہے چھین لے۔

شرک :
شرک یہ تو ہے ہی کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھے اور اس کے مقابل جانے لیکن شرک بس اسی پر موقوف نہیں ہے بلکہ شرک یہ بھی ہے جو چیزیں اللہ نے اپنی ذات والا صفات کے لیے مخصوص فرمائی ہیں اور بندوں کے لئے بندگی کی علامتیں قرار دی ہیں انہیں غیروں کے لیے بجا لایا جائے شرک کی کئی صورتیں ہیں۔
1:اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا ۔ مثلاً: عیسائیوں اور مجوسیوں کی طرح دو یا زائد خدا ماننا۔
2:کسی بھی بندے کے لیے ان غیب کی باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کی عطاسے ماننا جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔مثلاً:یہ علم کہ قیامت کب آئے گی؟ وغیرہ۔
3:کسی بندے میں تصرف وقدرت کو اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھے اور ساتھ یہ مانے کہ اس کا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ کا پابند ہے رکوع وسجدہ وغیرہ جیسے افعال کسی مخلوق کے لیے عبادت کے طور پر نہیں بلکہ صر ف تعظیم کے طور پر کرنا اس کو” فسقیہ شرک“ کہتے ہیں پھر شریک کرنے میں نبی ،ولی،جن ، شیطان وغیرہ سب برابر ہیں جس سے بھی یہ معاملہ کیا جائے گا شرک ہو گا اور کرنے مشرک ہو گا۔

چند کفریہ باتیں:
عقیدہ:ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سب باتوں کو سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے اللہ ورسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کسی بات میں شک کر نا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس میں مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔
عقیدہ:قرآن وحدیث کے کھلے واضح مطلب کو نہ ماننا اور اس میں سے اپنے مطلب کے معانی گھڑنا بد دینی کی علامت ہے۔
عقیدہ:گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے اول تو گناہ کے قریب بھی نہ جانا چاہیے لیکن اگر بد بختی سے اس میں مبتلا ہیں تو اس گناہ کو گناہ ضرور سمجھیں اور اس کی برائی اوراس کا حرام ہونا دل سے نہ نکالیں ورنہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
عقیدہ:گناہ چاہے جتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کو برا سمجھتا رہے ایمان نہیں جاتا البتہ کمزور ہو جاتا ہے ۔
عقیدہ:اللہ تعالیٰ سے بے خوف ونڈر ہو جانا یا نا امید ہو جانا کفر ہے مطلب یہ ہے کہ یہ سمجھ لینا کہ آخرت میں ہرحال میں مجھے بڑے درجات ملیں گے کوئی پکڑ نہ ہو گی یا یہ سمجھنا کہ میری ہر گز کسی طرح بخشش نہ ہوگی کفریہ غلطی ہے مسلمان کو چاہیے کہ خوف اور امید کے درمیان میں رہے۔
عقیدہ:کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور ان کا یقین کر لینا کفر ہے ۔
عقیدہ:یہ عقیدہ رکھیں کہ غیب کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا البتہ انبیاء کرام کو وحی سے اور اولیاءاللہ کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں کو نشانیوں سے بعض باتیں معلوم ہو جاتی ہیں لیکن یہ باتیں علم الغیب نہیں بلکہ انباءالغیب (غیب کی خبریں) کہلاتی ہیں۔
عقیدہ:کسی کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے ۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت ، جھوٹوں پر لعنت ہاں جن لوگوں کا نام لے کر اللہ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہے یا ان کے کافر ہونے کی اطلاع دی ہے ان کو کافر یا ملعون کہنا گناہ نہیں۔

حقیقت ِنبوت :
”نبی “ایسے انسان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو،معصوم عن الخطا ءاور اس کی اتباع اور پیروی فرض ہو ،یعنی وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو ،صغیر ہ اور کبیر ہ گناہوں سے پاک ہو اور اس کی تابعداری کرنا فرض ہو۔ان صفات کو انبیا کے علاوہ کسی انسان کے لیے ثابت کرنا اگرچہ اس کے لیے نبی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ،کفر ہے۔

نوٹ:نبی ہمیشہ مرد ہوتا ہے عورت نبی نہیں بن سکتی اور جنات کے لیے بھی انسان ہی نبی ہوتا ہے ۔نبوت وہی چیز ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے عطا ہوتی ہے ،اپنی محنت سے عبادت کر کے کوئی شخص نہ نبی بن سکتا ہے اور نہ ہی نبی کے مرتبہ اور مقام کو پہنچ سکتاہے ۔

صداقتِ نبوت:
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے نبی اور رسول آئے سارے برحق اور سچے ہیں ۔

دوامِ نبوت:
انبیاء کرام وفات کے بعد بھی اپنی مبارک قبروں میں اسی طرح حقیقتاً نبی اور رسول ہیں جس طرح وفات سے پہلے ظاہر ی حیات مبارکہ میں نبی اور رسول تھے البتہ اب باقی تمام انبیاء کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے اور قیامت تک کیلیے نجات کا مدار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر ہے ۔

ختم نبوت :
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عالم دنیا میں کسی بھی قسم کی جدید نبوت کے جاری رہنے کا عقید ہ رکھنا کفر ہے ۔

عظمت انبیاء:
کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ اور مقام حضرات انبیاء کا ہے اور انبیمیں سے بعض بعض سے افضل ہیں اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  تمام انبیاء سے افضل اور اعلیٰ اور تمام انبیا ء کے سردار ہیں ۔

توہین رسالت:
انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی و بے ادبی کرنا یا گستاخی اور بے ادبی کو جائز سمجھنا کفر ہے ، مثلاً آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے صرف اتنی سی فضیلت کا قائل ہونا جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہے ،کفر اور بے دینی ہے ۔

انبیا  کی نیند :
نیند کی حالت میں انبیاء کی آنکھیں تو سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا اس لیے ان مبارک ہستیوں کا خواب بھی وحی کے حکم میں ہے اور نیند کے باوجو د انبیاء کا وضو باقی رہتا ہے ۔

حیات ِانبیا:
تمام انبیاء کرام اپنی مبارک قبروں میں اپنے دنیاوی جسموں کے ساتھ بتعلق روح بغیر مکلف ہونے اور بغیر لوازم دنیا کے زندہ ہیں اور مختلف جہتوں کے اعتبار سے اس حیات کے مختلف نام ہیں جیسے حیات دنیوی،حیات جسمانی،حیات حسی،حیات برزخی حیات روحانی۔

ذکر ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
وہ تمام حالات و واقعات جن کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  سے ذرا بھی تعلق ہے ان کاذکر کرنا نہایت پسندید ہ اور مستحب ہے۔

فضیلت وزیارت روضہ اطہر:
زمین کا وہ حصہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے کائنات کے سب مقامات حتیٰ کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔
فائدہ: روضہ اطہر کی زیارت کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کرکے کھڑاہونا روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے آداب میں سے ہے اور اسی حالت میں دعا مانگنا بہتر اور مستحب ہے۔

سفرِ مدینہ منورہ:
سفرِ مدینہ منورہ کے وقت روضہ مبارک مسجد نبوی اور مقامات مقدسی کی زیارت کی نیت کرنا افضل اور باعث اجروثواب ہے البتہ خالص روضہ پاک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کی تعظیم زیادہ ہے۔

صلوة وسلام :
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  پر صلوة وسلام پڑھنا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کا حق اور نہایت اجرو ثواب کا باعث ہے کثرت کے ساتھ صلوة و سلام پڑھنا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے قرب اور شفاعت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور افضل درود شریف وہ ہے جس کے لفظ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  سے منقول ہوں ۔ سب سے افضل درُود،درُودِابراہیمی ہے۔
فائدہ :زندگی میں ایک مرتبہ صلوة وسلام پڑھنا فرض ہے اور جب مجلس میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک آئے تو ایک دفعہ صلوة وسلام پڑھنا واجب ہے اور ہر ہربار پڑھنا مستحب ہے ۔

عر ضِ اعمال:
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  پر روضہ مبارک میںامت کے اچھے اور برے اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں

مسئلہ استشفاع:
آنحضرتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس حاضرہوکر شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ حضرت! آپ میری مغفرت کی سفارش فرمائیں،جائز ہے ۔

حقیقتِ معجزہ:
معجزہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جونبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتاہے اور اس میں نبی کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا اس لیے معجزے کو شرک کہہ کر معجزے کا انکا ر کرنا یا معجزے سے دھوکہ کھا کر انبیاء  کے لیے مختارِ کل اور قادر ِ مطلق ہونے کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں ۔

معجزاتِ انبیا :
انبیاء  کے معجزات (مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کا حالت نماز میں پشت کی جانب سے سامنے کی طرح دیکھنا وغیر ہ ) برحق ہیں۔

عظمت ِعلومِ نبوت:
ہر نبی اپنے زمانے میں شریعت ِ مطہرہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے،اور ہرنبی کو لوازم ِنبوت علوم سارے کے سارے عطا ہوتے ہیں اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  چونکہ اوّلین و آخرین کے نبی ہیں اس لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کو اوّلین و آخرین کے اور تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطا کیے گئے۔

توہین علمِ نبوت:
اس بات کا قائل ہونا کہ فلا ں شخص کا علم حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے علم سے زیادہ ہے ،یا علوم نبوت یعنی علم دین کو باقی علو م و فنون کے مقابلے میں گھٹیا سمجھنا ،یا علمائے دین کی بوجہ ِعلم دین تحقیر کرنا کفر ہے ۔

ملائکہ:
اللہ تعالیٰ نے ان کو نور سے پیدا فرمایاہے یہ ہماری نظروں سے غائب ہیں نہ مرد اورنہ ہی عورت ہیں جن کاموں پر اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے ان کو سر انجام دیتے رہتے ہیں اور اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے البتہ ان میں حضرت جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل اور عزرائیل مقرب اور مشہور ہیں۔
فائدہ:رسل بشر،رسل ملائکہ سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ باقی تمام فرشتوں اور انسانوں سے افضل ہیں اور عام فرشتے عام انسانوں سے افضل ہیں۔

کتبِ سماویہ:
جس زمانے میں جس نبی پر جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی و ہ برحق اور سچی تھی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات ،حضرت داود علیہ السلام پر زبور ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ البتہ باقی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں اور اب قیامت تک کے لیے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔

صداقت ِقرآن:
سورة فاتحہ سے لے کر” و الناس“ تک قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اس میں ایک بھی لفظ بلکہ حرف کے انکا ریا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔

صحابہ کرام :
صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس کو حالت ایمان میں نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کی صحبت حاصل ہوئی ہو اور اسی حالت پر اس کا خاتمہ ہوا ہو صحابہ کرام معیار حق وصداقت ہیں یعنی وہی عقائد اور اعمال مقبول ہوں گے جو صحابہ کے عقائد اعمال کے مطابق ہو ں گے صحابہ کرام ہر قسم کی تنقید سے بالا تر ہیں قبر اور آخرت کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ ہیں وہ معصوم نہیں البتہ محفوظ ضرور ہیں یعنی ان کی ہر قسم کی خطا بخش دی گئی ہے اور وہ یقینی طور پر جنتی ہیں انبیاء معصوم عن الخطاءہیں اور صحابہ محفوظ عن الخطاءہیں معصوم عن الخطاءکامطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے نہیں دیتا اور محفوظ عن الخطاءکا مطلب یہ ہے کہ صحابی سے گناہ ہو تو جاتا ہے لیکن اللہ تعالی ان کے نامہ اعمال میں گناہ باقی نہیں رہنے دیتے ۔

حب ِصحابہ و اہل بیت :
صحابہ کرام اور اہل بیت کے ساتھ محبت، رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور صحابہ کرام اور اہل بیت ، دونوں سے بغض یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت اور دوسرے کے ساتھ بغض، رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  سے بغض کی علامت اور گمراہی ہے ۔

معیار حق وصداقت:
پوری امت کے لیے صحابہ کرام معیار حق وصداقت ہیں۔یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرام کے عقائد اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔

عفت امہات المومنین :
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے اہل بیت، جن کا اولین مصداق امہات المومنین ہیں، کو پاکدامن اور صاحب ایمان ماننا ضروری ہے ۔

مقام صحابہ :
انبیاء کے بعد انسانوں میں سب سے اعلیٰ ترین درجہ بترتیب ذیل :
1:خلفائے راشدین علی ترتیب الخلافة
2:عشرہ مبشرہ
3: اصحاب بدر
4:اصحاب بیعت رضوان
5: شرکاء فتح مکہ
6:وہ صحابہ جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے صحابہ کرام کا ہے اور قرآن کریم میں اہل ایمان کی جس قدر صفات کمال کا ذکر آیا ہے ان کا اولین اور اعلی ترین مصداق صحابہ کرام ہیں ۔

خلافت ِراشدہ موعودہ:
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد اس امت کے خلیفہ اول بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں دوسرے حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تیسرے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں چوتھے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان چاروں کو خلفائے راشدین اوران کے زمانہ خلافت کو خلافت راشدہ کادورکہتے ہیں۔ آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے شروع ہو کر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ختم ہوگئی لہذا دور خلافت راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ(چار وں خلفاء) کادور ہے اور حضرت امیرمعاویہ کی خلافت ، خلافت عادلہ ہے۔

مشاجرات ِصحابہ :
مشاجرات ِصحابہ میں حق حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جانب تھا اور ان کے مخالف خطاپر تھے ، لیکن یہ خطاء، خطاء عنادی نہ تھی بلکہ خطاء اجتہادی تھی اور خطا ءاجتہادی پر طعن اور ملامت جائز نہیں بلکہ سکوت و اجب ہے اور اس پر ایک اجر کا حدیث پاک میں وعدہ ہے ۔

حق حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ :
حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور یزید کے باہمی اختلاف میں حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حق پر تھے اور یزید کی حکو مت نہ خلافت راشدہ تھی اور نہ خلافت عادلہ ، اور یزید کے اپنے عملی فسق سے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بَری ہیں ۔

اولیا ءاللہ :
ولی اللہ: اس شخص کو کہتے ہیں وہ گناہوں سے بچے۔ولی کی بنیادی پہچان اتباع سنت ہے جو جتنا متبع سنت ہو گا اتنا بڑا ولی اللہ ہو گا ولی سے کرامت اور کشف کا ظہور برحق ہے۔
ولایت: کسبی چیز ہے ، کوئی بھی انسان عبادت کر کے اللہ تعالیٰ کا ولی بن سکتا ہے اور ولایت کا مدار کشف و الہام پر نہیں بلکہ تقوی اور اتباع ِسنت پر ہے ۔

کرامات اولیا:
اولیاءاللہ کی کرامات برحق ہیں اور کرامت چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے ،اور اس میں ولی کے اپنے اختیار کو دخل نہیں ہوتا ،اس لیے کرامت کو شرک کہہ کر اس کا انکا ر کرنا یا کرامت سے دھوکہ کھا کر اولیاءاللہ کے لیے اختیارات کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں۔غیر متقی سے خرق عادت کام کا صدور استدراج ہے نہ کہ کرامت کرامت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے استدراج شیطان کی طرف سے ۔

تصّوف: روحانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نام تصوف ہے جس کو قرآن کریم میں ”تزکیہ نفس“ اور حدیث میں لفظ ”احسان“ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

بیعت:عقائد و اعمال کی اصلاح فرض ہے جس کے لےے صحیح العقیدہ سنت کے پابند دنیاسے بے رغبت اور آخرت کے طالب ، مجاز بیعت ،شیخ طریقت سے بیعت ہونا مستحب بلکہ واجب کے قریب ہے ۔

وسیلہ جائز ہے :
دعا میں انبیا  اور اولیا ءاللہ کا وسیلہ ان کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد (مثلاً یو ں کہنا کہ اے اللہ !فلاں نبی یا فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میر ی دعا قبول فرما )جائز ہے کیونکہ ذوات صالحہ کے ساتھ توسّل درحقیقت ان کے نیک اعمال ِکے ساتھ وسیلہ ہے اور اعمال صالحہ کے ساتھ وسیلہ بالاتفاق جائز ہے ۔

جنات :
اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو آگ سے پیدا فرمایا ہے جن کو” جنات“ کہتے ہیں۔ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح احکام شریعت کے مکلف ہیں اور مرنے کے بعد انسانوں کی طرح ان کو بھی عذاب وثواب ہو گا اور جنات میں کوئی نبی نہیں ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور اور معروف ابلیس لعین ہے یہ فرشتے اور جنات اگرچہ ہمیں نظر نہیںآتے مگر ہم ان کے وجود کو ایمان بالغیب کے طور پر مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی احادیث میں ان کا ذکر فرمایاہے۔

اجتہاد وتقلید:
اکمال دین کی عملی صورت مجتہد کا اجتہاد اور مجتہد کے اجتہاد پر عمل یعنی تقلید ہے پس مطلق اجتہاد اور مطلق تقلید ضروریات دین میں سے ہے جس کا انکار کفرہے البتہ متعین چار ائمہ (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اﷲ علیہ ،اما م مالک رحمتہ اﷲ علیہ ،امام محمد بن ادریس شافعی رحمتہ اﷲ علیہ اور اما م احمد بن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ) کی فقہ اور تقلید کا انکار کر نا گمراہی ہے۔

چونکہ حق اہل السنة و الجماعة کے مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی) میں بند ہے اس لےے نفس پرستی اور خواہش پرستی کے اس زمانے میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔

نوٹ:
ہم اور ہمارے سارے مشائخ تمام اصول وفروع میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اﷲ علیہ کے مقلد ہیں ۔

اعتقادی و اجتہادی اختلاف :
اعتقادی اختلاف امت کے لےے زحمت ہے جبکہ مجتہدین کا اجتہادی اختلاف امت کے لےے رحمت ہے اور مقلدین و مجتہدین دونوں کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے مگر درست اجتہاد پر دو اجر ہیں اور غلط اجتہاد پر ایک اجر ،بشرطیکہ اجتہاد کنندہ میں اجتہاد کرنے کی اہلیت ہو

اصول اربعہ :
دین اسلام کے اعمال و احکام اور جامعیت کےلےے اصول اربعہ یعنی چار اصولوں (۱)کتاب اللہ (۲)سنت رسول اللہصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  (۳) اجماع امت (۴)قیاس شرعی کاماننا ضروری ہے اوران اصول ِ اربعہ سے ثابت شدہ مسائل کا نا م فقہ ہے ،جس کا انکار حدیث کے انکار کی طرح دین میں تحریف کا بہت بڑا سبب ہے ۔

جہاد فی سبیل اللہ:
دین اسلام کی سر بلندی کے لیے دشمان اسلام سے مسلح جنگ کرنااور اس میں خوب جان ومال خرچ کرنا ”جہاد فی سبیل اللہ“ کہلاتا ہے ۔دین اسلام کی سربلندی،دین کا تحفظ،دین کا نفا ذ دین کی بقائ، مسلمانوں کی عزت وعظمت ،شان وشوکت اورجان ومال کا واحد ذریعہ” جہاد فی سبیل اللہ“ ہے۔
اللہ تعالی قرآن کریم کی سورة توبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
(التوبہ:۱۱۱)
ترجمہ:بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں(مجرموں کو)قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورة صف میں فرماتے ہیں :
(سورہ صف:۴)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے:
ترجمہ:جو شخص تھوڑی دیر کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرتا ہے جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے ۔حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے ۷۲مرتبہ خود جہاد کا سفر کیا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمنا فرمائی ہے۔

جہاد کی اقسام:
جہاد کی دو قسمیں ہیں :
1:اقدامی جہاد 2: دفاعی جہاد

اقدامی جہاد :
کافروں کے ملک میں جا کر کافروں سے لڑنا اقدامی جہاد کہلاتا ہے اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکارکردیںتو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے عام حالات میں جہاد اقدامی فرض کفایہ ہے اوراگر امیر المومنین نفیر عام( یعنی سب کو نکلنے) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔

دفاعی جہاد:
اگر کافرمسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمانوں کا کافروں کے حملے کو روکنا دفاعی جہاد کہلاتا ہے اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوںمگر سستی کرتے ہوں تو ہمسایہ ممالک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں۔

جہاد دفاعی فرض عین ہے:
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت کرنا بھی ضروری ہے جہاد کی تربیت کرنا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورہ انفال میں ارشاد فرمایاہے:
(الانفال:۰۶)
ترجمہ: اور کافروں کے ساتھ لڑنے کے لیے جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو، کرو۔

اللہ تعالی ہم سب کو جہادکی توفیق عطاءفرمائے اور لڑتے ہوئے میدان جہاد میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔(آمین)

موت اور موت کے بعد کے متعلق عقیدہ:
جب انسان مر جا تا ہے تو اس کو جس جگہ دفن کیا جا تا ہے اس کو ”قبر“ کہتے ہیں اوراگر کوئی مردہ جل کر راکھ ہو جائے یا کوئی انسا ن پانی میں غرق ہو جائے یا کسی انسان کو کوئی جانور کھا جائے تو جہاں جہاں اس کے ذرے ہوں گے ان کے ساتھ روح کا تعلق قائم کرکے اسی جگہ کو اس انسان کے لیے قبر بنا دیا جاتا ہے ۔ مردے سے قبر میں سوالا ت کے لیے دو فرشتے ”منکر“ اور” نکیر “آتے ہیں وہ تین سوال کرتے ہیں:
1: مَن رُبُّکَ؟ تیرا رب کون ہے؟
2: مَن نَبِیُّکَ؟ تیرا نبی کون ہے؟
3: مَادِینُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟

جو انسان ان تین سوالات کادرست جواب دیتا ہے اس کو قبرمیںسکون اور آرام ملتا ہے اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی قبر کوجنت کا باغ بنا دیا جاتا ہے اور جوان تین سوالوں کا درست جواب نہیں دیتا اس کی قبر کو اس کے لیے تنگ کر دیا جاتاہے اور قبر کو جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد ہے
”قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔“

قیامت:
اللہ تعالیٰ جب اس عالم کو فنا کرنا چاہیں گے تو جناب حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا وہ صور پھونکیں گے جس کی آواز شروع میں نہایت دھیمی اور سریلی ہو گی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی جس سے انسان،جنات، چرند، پرند سب حیرت کے عالم میں بھاگنے لگیں گے جب آواز کی شدت اور بڑھے گی تو سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ،پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ اسرافیل کو زندہ کرکے دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے جس سے پورا عالم ایک بار پھر وجودمیں آجائے گا،مردے قبروں سے اٹھیں گے،یہی قیامت کا دن ہو گا،ہر بندے کو بارگاہِ الہی میں پیش ہونا ہوگا رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا،درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہو گا،دنیا میں کیے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی انسان کا ہر عمل اللہ کے علم ،لوح محفوظ اور کراماً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔

جس طرح ٹیپ ریکارڈر انسان کی آواز کومحفوظ کر لیتا ہے اسی طرح زمین بھی انسان کے ہر قول وفعل کو ریکارڈ کررہی ہے اور قیامت کے دن وہ سب کچھ اُگل دے گی اور گواہی دے گی کہ اس انسان نے فلاں وقت فلاں جگہ یہ کام (اچھایابرا) کیا تھا،انسانی اعضاءوجوارح کو بھی اس دن زبان مل جائے گی جو انسان کے حق میں یا اس کے خلاف بولیں گے۔ اس دن نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  شفاعت فرمائیں گے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کے پیروکاروں کو یہ سعادت نصیب ہوگی، گمراہ اس سے محروم رہیں گے ۔

اس دن ایک ترازو قائم ہوگا جس کے ذریعہ اعمال تو لے جائیں گے جبکہ جہنم کی پشت پر پل صراط قائم ہو گا جوبال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا،ہر شخص کی رفتار ا س کے اعمال کے مطابق ہوگی قےامت کا دن دنیا کے دنوں کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔اس دن موت کو ایک دنبے کی شکل میں لا کر ذبح کر دیا جائے گاجو اس بات کی علامت ہو گی کہ اس کے بعد کسی کو موت نہیں آئے گی،اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ہمیشہ رہنا ہے یہ فیصلے کا دن ہے انجام کار جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے ۔

قیامت کی علامات صغریٰ:
یہ وہ علامات ہیںجن میں بعض کا ظہور تو آج سے کافی عرصہ پہلے ہو چکاہے اور بعض کا ظہور ہو رہا ہے اور بڑی علامات ظاہر ہونے تک سلسلہ جارے رہے گا علامت صغریٰ بہت ساری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
1: چرواہے اور کم درجے کے لوگ فخر ونمود کے طور پر اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔
2: ظلم وستم عام ہو جائے گا۔
3: شرم وحیا اٹھ جائے گی۔
4: شراب کو” نبیذ “ سود کو” خرید و فروخت“ اور رشوت کو” ہدیہ“ کا نام دے دیا جائے گا۔
5: علم اٹھ جائے گا اور جہل زیادہ ہو جائے گا۔
6: سرکاری خزانہ کو حکومتی لوگ لوٹیں گے۔
7: زکوٰة کو ٹیکس سمجھا جائے گا۔
8: دین کو دنیا کے لیے استعما ل کیا جائے گا ۔
9: شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافر مانی کرے گا۔
10: دوست سے پیار کرے گا اور باپ سے بے توجہی کرے گا۔
11: ذلیل اور فاسق شخص قوم کے سردار بن جائیں گے۔
12: گانا گانے والیوں کا بول بالا ہوگا۔
13: مسجدوں میں زور زور سے باتیں ہو ں گی۔
14: شراب عام ہو گی۔
15: اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے۔
16: مردوں میں ریشم عام ہو جائے گا۔
17: جھوٹ کارواج عام ہو جائے گا۔

قیامت کی علاماتِ کبریٰ:
وہ نشانیاں جن کی نسبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی جیسے امام مہدی کا ظہور اور دجال کا خروج اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور یا جوج ماجوج اور دآبة الارض کا خر وج وغیرہ۔

1: ظہور مہدی :
قیامت کی علامات کبریٰ میں پہلی علامت امام مہدی کا ظہور ہے۔ ”مہدی“ لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں لغوی معنی کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو اس کو مہدی کہا جا سکتاہے بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جا سکتا ہے لیکن جس” مہدی موعود“کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے اخیر زمانہ میں اس کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے ایک خاص شخص مراد ہے جو حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں سے ہوگا اس کانام محمد اور اس کے باپ کا نام عبداللہ ہو گا۔ سیرت میں رسول اللہصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہوگا مدینہ کے رہنے والا ہوگا مکہ میںظہور ہوگا شام اورعراق کے اولیاءاور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جو خزانہ خانہ کعبہ میں مدفون ہے وہ نکال کر مسلمانوں پر تقسیم فرمائیں گے۔پہلے عرب اور پھر تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جیساکہ اس سے بیشتر ظلم وستم سے بھری ہوگی شریعت محمدیہ کے مطابق ان کا عمل ہو گا امام مہدی کے زمانہ میں دجال نکلے گااور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کے مشرقی منارہ پر عصر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے امام مہدی نصاری سے جہاد کریں گے اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔

2:خرو جِ دجال:
قیامت کی علامات کبریٰ میں دوسری علامت خروج دجال ہے جو احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔دجال دجل سے مشتق ہے جس کے معنی لغت میں بڑے جھوٹ،مکر ، فریب اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں۔لغوی معنی کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکا رکو دجال کہہ سکتے ہیں لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج کی خبر دی گئی ہے وہ ایک خاص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہو گااور مسیح لقب کا ہوگا اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا اور مسیح کا مطلب ہو ا جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کر صاف اور ہموار کر دی گئی ہو ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخونہ ہوگا، دونوں آنکھوں کے درمیان” ک ف ر“ لکھا ہواہوگا۔

سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہو گا اور نبوت کا دعویٰ کرے گاپھر اصفہان آئے گاوہا ں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہو جائیں گے بعدازاں وہ خدائی کا دعوی کرے گا اورزمین میں فساد پھیلاتا پھرے گا حق تعالی بندوںکے امتحان کے لیے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کر کے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کر نا چاہے گا لیکن اس کے قتل پر ہر گز قادر نہ ہو گا تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعوے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے ۔

اول تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بین دلیل تھی ۔دوم یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ک ف ر لکھا ہوگا سوم یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے جب اس میں اب یہ قدرت باقی نہ رہی کے وہ دوبارہ قتل کر سکے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتا ہے؟ اور یہ جو چندروزاس کے ہاتھ سے احیاءموتیٰ کا ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل تھاجو اس کے ہاتھ سے محض استدراج، ابتلاءاور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔

خروج دجال کب ہو گا؟
امام مہدی ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد قتال کریں گے یہاںتک کہ جب قسطنطنیہ کو فتح فرما کر شام واپس ہو ں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوںکے انتظام میں مصروف ہوں گے اس وقت دجال کا خروج ہوگا دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فسادمچا تا پھرے گا یمن سے ہو کر مکہ مکرمہ کارخ کرے گا مگر مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہو گا اس لیے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا ۔مدینہ منورہ کے دروازوں پر بھی فر شتوںکا پہرہ ہوگا اس لیے دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر دوفرشتوں کے بازﺅں پرہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کریں گے جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا۔

3:نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام:
قیامت کی علامات کبریٰ میںسے تیسری علامت یہ ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کاآسمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے جو حق اور سچ ہے اور قرآن کریم اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض اور ضروری ہے ۔

کانے دجال کا خروج ہو چکا ہوگا اور امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں نما زکے لیے تیاری میں ہوں گے یکایک عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اورنماز سے فراغت کے بعد امام مہدی کی معیت میں دجال پر چڑھائی کریں گے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ کافر اس کی تاب نہ لاسکے گا اس کے پہنچتے ہی مر جائے گا اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ”باب لُد “جا کر اس کو اپنے نیز ہ سے قتل کریں گے اور اس کا خون مسلمانوں کا دکھائیں گے بعد از لشکر اسلام دجال کا لشکر کا مقابلہ کرے گا جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اسی طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی جن کا دعویٰ ہے تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسی بن مریم علیہ السلام کو قتل کر دیا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے لیے قتل کے لیے زمین پر اتر ے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو الگ الگ شخصیات ہیں:

ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلامکے بارہ میں جو احادیث آئی ہیںان سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو شخصیتیں علیحدہ علیحدہ ہیں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے وقت سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والا مسیح اور ظاہر ہونے والا مہدی ایک ہی شخص ہوں گے ۔کیونکہ ....
1:حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام نبی اور رسو ل ہیں اور امام مہدی امت محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے، نبی نہ ہوں گے۔
2:حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت مریم کے بطن سے بغیر باپ کے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  سے تقریباً 600 سال پہلے بنی اسرا ئیل میں پیدا ہوئے اور امام مہدی قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
3:حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میں سے ہیں اور امام مہدی حضرت فاطمة الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی اولا د سے ہوں گے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ لاَمَھدِی اِلاَّ عِیسَی بنُ مَریَمَ نہیں ہیں کوئی مہدی مگر حضرت عیسی بن مریم۔اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اورمہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں۔
جواب: یہ ہے اول تو یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمتہ اﷲ علیہ نے فتح الباری ج۶ ص۸۵۳ میں اس کی تصریح کی ہے۔دوم یہ کہ یہ روایت ان بے شماراحادیث صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کا دو شخص ہونا خوب ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی ۔

4:خروج یا جوج ماجوج:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد امام مہدی انتقال فرما جائیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے بیت المقدس میں ان کا انتقال ہو گا اور وہیں مدفون ہوں گے امام مہدی کی وفا ت کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہو گا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گزر رہا ہوگاکہ یکایک وحی نازل ہوگی کہ عیسی! تم میرے بندوں کو کوہ طور کے پاس لے جاﺅ!میں اب ایک ایسی قوم کا نکا لنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ کسی کولڑائی کی طاقت نہیں وہ قوم یا جوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولا د میں سے ہے۔

شاہ ذوالقرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی دیوار قائم کر کے ان کا راستہ بند کر دیا تھا قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف سے نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی (جس کا قصہ قرآن کریم کی سورہ کہف آیت ۳۹تا۸۹ میں مذکور ہے) اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کرکوہِ طور کی طرف چلے جائیں گے با رگا ہ خدا وندی میں یا جوج ماجوج کو طاعون کی ہلاکت کی دعا کرےں گے جب کہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بند اور محفوظ مکانوں میں بند ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو طاعون کی وبا سے ہلاک کرے گااور اس بلائِ آسمانی سے سب مر جائیں گے بعد ازاں اللہ تعالی لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اور بعض کو اٹھا کر سمند رمیں ڈال دیں گے اور پھر بارش ہوگی جس کے سبب ان مرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گزرے گی حضرت عیسیٰ علیہ السلام (۰۴) یا ( ۵۴ )سال زندہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام” جہجاہ“ ہوگا خوب اچھی طرح عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شراور فسا دپھیلنا شروع ہو جائے گا۔

5:خروج دُخان یعنی دھویں کا ظاہر ہونا:
جہجاہ کے بعد چند بادشاہ ہوں گے ۔کفرو الحاد، شر اور فساد بڑھنا شروع ہو گایہاں تک کہ ایک مکان مغرب میں اور ایک مکان مشرق میں جہاں منکرین تقدیررہتے ہوں گے وہ دھنس جائے گا اور انہیں دنوں آسمان سے ایک بہت بڑا دھواں ظاہر ہو گا جو آسمان سے لے کر زمین تک تما م چیزوں کو گھیر لے گا جس سے لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا وہ دھواں چالیس دن تک رہے گا مسلمانوں کو زکام سا معلوم ہو گا اور کا فروں پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی کسی کودو دن میںاور کسی کو تین دن میں ہوش آئے گا قرآن کریم میں اس دخان کا ذکر ہے ۔

(سورہ دخان: ۰۱)
ترجمہ : پس اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف سے ایک دھواں نمودار ہوگا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ دخان کی علامت گزر چکی ہے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  کی بددعا سے اس زمانہ میں ایک سخت قحط پڑا تھا جس کی شدت سے کفار زمین پر دھواں دیکھتے تھے۔

6:دآبة الارض کا نکلنا:
قیامت کی ایک بڑی نشانی زمین سے دآبة الا رض کا نکلنا ہے جو نص قرآنی سے ثابت ہے :
(سورہ نمل ۲۸)
ترجمہ : اور جب قیامت کا وعدہ پورا کرنے کا وقت قریب الوقوع ہو جائے گا تو اس وقت ہم لوگوں کی عبرت کے لیے زمین سے ایک عجیب و غریب جانور نکالیں گے جو لوگوں سے باتیں کرے گا(اور کہے گاکہ اب قیامت قرےب آگئی ہے یہ جانور ہم زمین سے اس لیے نکالیںگے) کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔

جس روز آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا اسی دن یہ عجیب الخلقت جانور زمین سے نکلے گا مکہ مکرمہ کا ایک پہاڑ جس کوکوہ صفا کہتے ہیں وہ پھٹے گا اس میں سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس طرح اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو پتھر سے نکا لا تھا اسی طرح اپنی قدر ت سے قیامت کی خبر دے گا۔مومنوں کے چہروں پر ایک نورانی نشانی لگا ئے گا جس سے مومنین کے چہرے روشن ہوجائیں گے اور کافروں کی آنکھوں کے درمیان ایک مہر لگائے گا جس سے ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے اور حسب ارشاد وَامتَازُوا الیَومَ اَیُّہَا المُجرِمُونَ مسلم اور مجرم کا امتیا ز اس طرح شروع ہو جائے گا اور پورا امتیا ز حساب وکتاب کے بعد ہوگا۔

7: ٹھنڈی ہواکا چلنا:
دآبة الارض کے نکلنے کے کچھ عرصے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان اور اہل خیر مر جائیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی مومن کسی غار یا پہاڑ میں چھپا ہواہوگا تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ شخص اس ہوا سے مر جائے گا۔ نیک لوگ سب مرجائیں گے اور نیک اور بدی میں فرق کرنے والا بھی کوئی باقی نہ رہے گا۔

8:حبشیوں کا غلبہ اور خانہ کعبہ کو ڈھانا:
بعدازاں حبشہ کے کافروں کا غلبہ ہو گا اور زمین پر ان کی سلطنت ہو گی ظلم اور فساد عام ہوگا بے شرمی اور بے حیا ئی کھلم کھلا ہو گی جوپایوں کی طرح لوگ سڑکوں پر جماع کریں گے ۔وہ خانہ کعبہ کی ایک ایک اینٹ کر کے توڑ دیں گے ۔
حدیث میں ہے:
ترجمہ : خانہ کعبہ کے(امام مہدی کے بعد جمع ہونے والے) خزانے کو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشہ کا رہنے والا نکالے گا۔

9:آگ کا نکلنا:
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کے وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشر ہوگا (یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہوگا)یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہوگی اور جب صبح ہوگی اور آفتاب بلندہو جائے گاتو یہ آگ لوگوں کو ہنکائے گی جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہو جائے گی۔

صحیح مسلم میں حذیفہ بن اسید غفاری سے مروی ہے کہ نبی اکرمصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم  نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائیں ان میں سے آخری علامت یہ ہے

ایک آگ یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ارض محشر یعنی سر زمین شام کی طرف ہنکاکر لے جائے گی۔

اس کے بعد کچھ عرصہ نہایت عیش وآرام سے گزرے گا۔کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اور زمین پرکوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ ہو گا اس وقت قیامت قائم ہو گی اور حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔

تنبیہ:
اکثر احادیث میں خروج نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیا ہے لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کے اول نشانی قیامت کی وہ آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گزشتہ علامتوں کے اعتبارسے یہ آخری نشانی ہے لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی بلکہ اس کے بعد متصل نفخ صور واقع ہوگااس کواول نشانی کہا گیا۔

اعتبار خاتمہ کا ہے:
عقیدہ:
عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا ہو مگر جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کا اچھا برابدلہ ملتا ہے۔

عقیدہ :
آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو اللہ کے یہاں مقبول ہے البتہ مرتے دم جب سانس ٹوٹنے لگے اور عذاب کے

فرشتے دکھائی دینے لگیں اس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 120761 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.