اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے،
وہی ہمیں رزق دیتا ہے، اسی کی بنائی زمین و کائنات میں ہم رہتے ہیں اور
ہماری زندگی کے تمام اسباب و وسائل اسی نے مہیا کیے ہیں، ان نعمتوں پر مزید
یہ کہ اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے والے دل اور عقل عطا فرمائی۔غرض خدا کی
نشانیوں میں غور وفکر کیجیے تو جانیں گے کہ کائنات میں بلاشرکت غیرے بس
اللہ ہی کی حکومت،بادشاہی اور فرمانروائی چل رہی ہے اور ہماری زندگی کا ایک
ایک سانس خالص اور ہر ہر نعمت اسی کی عطا، کرم اور مہربانی ہے جس میں کسی
دوسرے کی کوئی شرکت نہیں اور اسی اقرار و عہد کا وہ ہم سے مطالبہ بھی کرتا
ہے کہ ہم بس اسی کی بندگی اور اطاعت کریں اور اس کی ذات، صفات، حقوق بندگی،
اختیارات، ارادوں، فیصلوں،بادشاہی اور حکومت میں کسی کو شریک نہ کریں۔اب اس
ایک ہی اللہ کی تخلیق ہو کر، اس کا دیا ہوا رزق کھا کر اور اس کے بنائے
زمین و آسمان کی حدود میں رہ کر جب ہم اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں
تو یہ وہ انتہائی سنگین جرم ہے جس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں إِنَّ الشِّرْكَ
لَظُلْمٌ عَظِيمٌ(بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے) اور یہ بات قرآن میں اپنے
محبوب بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کی زبانی ہمیں بتلائی گئي جن
کو اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی:
سورة لقمان (31 )
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن
يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ
غَنِيٌّ حَمِيدٌ {12} وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ
يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ {13}
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو ۔ جو کوئی شکر کرے
اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لے مفدَ ہے ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں
اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت
کر رہا تھا تو اُس نے کہا “ بیٹا! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ
ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔"
اسی مضمون پرکچھ احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ ہوں:
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد (سیدنا ابو بکر)ؓ سے روایت کرتے ہیں
کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں
تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپﷺ نے یہی فرمایا (پھر فرمایا
کہ)اللہ کے ساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے )
دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ
بولنا۔ اور رسول اللہﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار
بار یہ فرمانے لگے (تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں)
حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپﷺ خاموش ہو جائیں۔ (تاکہ آپ کو
زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں)۔
(صحیح مسلم)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات گناہوں سے
بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ کون
سے گناہ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔
2۔ جادو کرنا۔
3۔ اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ، لیکن حق پر
مارنا درست ہے۔
4 ۔ سود کھانا۔
5۔ یتیم کا مال کھا جانا۔
6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔
7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں،
تہمت لگانا۔
(صحیح مسلم)
اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے۔یہ
ایسا بھیانک و گھناؤنا کام اور ایسی خوفناک غلطی ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث
رہا اور توبہ کیے بغیر مر گیا اور اللہ کے ہاں اس حال میں حاضر ہو کہ ساتھ
میں شرک لیے ہوئے ہے تو اس کا یہ گناہ اس دوزخ میں لے جائے گا کیونکہ یہ
اللہ کی کتاب میں ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کے مرتکب پر اللہ نے جنت
حرام کر دی :
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ
لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا
{48}
اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ
جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک
ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔
سورة النساء (4)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ
لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا
{116}
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا
ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو
گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
سورة المائدة ( 5 )
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ
وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ {72}
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور
اس کا ٹھکانا جہنم ہے او ر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
شرک کی معافی کیوں نہیں اور مشرک پر جنت کیوں حرام ہے ؟
غور فرمائیے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے جو کہ ہمارا
سب سے پہلا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک ورب مانیں یا نہ
مانیں وہ بہرحال ہمارا خالق و مالک ورب ہے۔جس طرح کوئی اپنے والدین کے رشتے
سے انکار نہیں کرسکتا اسی طرح اپنے خالق کے رشتے کا بھی انکار بھی نہیں کر
سکتا۔ ہمیں کسی دوسرے کی شرکت کے بغیر پیدا تو اللہ کرتا ہے، رزق دیتا ہے،
ہم ساری زندگی اسی کے انتظام پر جیتے ہیں اور کہیں ایک لمحے کے لیے بھی
کوئی دوسرا حقیقتاً ہماری زندگی برقرار رکھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتا
توبھلا خدا کی غیرت کیوں یہ گوارا کرے کہ ہم اس کی مخلوق ہو کر اس کے ساتھ
کسی دوسرے کو شریک کریں ۔ ہمیں زندگی وہ عطا کرے اور ہماری نیاز مندیاں
دوسروں کے لیے وقف ہوں، ہم رزق کھائیں اللہ کا، زندہ رہیں اللہ کی مہربانی
سے اور ہمارا خوف اور ہماری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوں، ہمیں سب کچھ عطا
اللہ فرمائے اور ہم سر جھکائیں اوروں کے دروں پر جو خود ہمارے ہی جیسی بے
بس کمزور مخلوق ہیں ۔
کفر و شرک اللہ سے بغاوت ہے اور دستور ہے کہ باغی کی کوئی اچھائی و نیکی
نہیں دیکھی جاتی، اسے صرف سزا دی جاتی ہے۔ شرک کی بنیاد میں ہی یہ خیال اور
یہ عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی کمزوری ، محتاجی اور عیب کو
منسوب کیا جائے حالانکہ وہ ہر کمزوری، محتاجی اور عیب سے پاک ہے اور یہ
اللہ کی توہین ہے کہ اسی کا ساختہ پرداختہ کوئی شخص اٹھ کر اسی کی مخلوق
میں سے کسی کو اس کے ساتھ شریک کرے۔ اور اللہ کی یہ توہین ایک ایسا گناہ ہے
جسے وہ کبھی معاف نہ کرے گا۔
بس یہی وہ جرم عظیم ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جس کی معافی کوئی نہیں جیسا کہ
اوپر آیات میں ذکر آیا اور یہ معاملہ ایسا حساس ہے کہ:
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے پوچھا کہ یا رسول
اللہﷺ دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کو اس
حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں
جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا
ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔(صحیح مسلم)
اور نیتوں اور دلوں کے خیالات اور وسوسے تک جاننے والا اللہ صرف وہ اعمال
قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے لیے کیے جائیں۔ وہ کوئي بھی ایسا عمل قبول
نہیں کرتا جس میں اس کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کیا جائے۔جو کوئی ایسا
عمل کرے تو پھر اپنے عمل کی جزا کی جھوٹی توقع بھی اسی سے رکھے جسے اس نے
اس عمل میں اللہ کے ساتھ شریک کیا۔خدا کے ہاں اس کا یہ عمل مردود ہے۔ حدیث
مبارکہ ملاحظہ ہو:
سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا
عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور شریک کیا تو میں اس کو
اور اس کے شریک کےک کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی اللہ اسی عبادت اور عمل کو
قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔
(صحیح مسلم)
سارے اعمال کو برباد کر دینے والے اسی گناہ یعنی شرک سے بچنے کے لیے سارے
انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کی طرف یہ وحی کی گئي کہ:
سورة الزمر ( 39 )
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ
أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ {65}
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ {66}
(اے نبیؐ )تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی
بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم
خسارے میں رہوگے۔ لہٰذا تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں
سے ہو جاؤ۔
شرک وہ نجاست اور گندگی ہے جس کے ساتھ کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی:
سورة التوبة ( 9 ) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا
الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ۔۔۔ {28}
اے ایمان لانے والو!مشرکین ناپاک ہیں۔
شرک جنت کو حرام کر دینے والا ناقابل معافی گناہ ہے اس لیے اے ایمان والو
شرک سے بچنا:
سورة يوسف (12 )
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ {106}
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو
شریک ٹھیراتے ہیں۔
اور اگر اب تک اس جرم میں مبتلا رہے ہیں تو زندگي کی اگلی سانس سے پہلے ہی
توبہ کر لیجیے کہ توبہ ہر گناہ کو مٹا دیتی ہے:
سورة مريم ( 19 ) إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ
يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا {60}
البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ
جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ |