بل گیٹس نے ایک بار اس وقت سب کو حیران کر دیا جب اس نے
بھری محفل میں جہاں دنیا کے امیر ترین افراد جمع تھے اپنی جیب سے ایک ڈبیہ
نکالی اور یہ کہتے ہوئے کہ " صرف غریب ہی ملیریا سے کیوں مریں" اس ڈبیہ سے
مچھر نکال کر چھوڑ دیئے چونکہ مچھروں سے ملیریا پھیلتا ہے، اس لیے میں یہ
مچھریہاں چھوڑ رہا ہوں کہ صرف غریبوں کو ہی ملیریا سے مرنے کے لیے کیوں
چھوڑدیا گیا ہے ۔ مادہ مچھر سے پھیلنے والا ایک متعدی مرض ملیریاہے ۔
ملیریا کی بیماری قدرتی طور پر مچھر کی ایک قسم اینوفیلیز کی مادہ کے کاٹنے
سے پھیلتی ہے ۔ یہ مادہ مچھر کسی ملیریا سے متاثرہ شخص کو کاٹتی ہے ،
ملیریا کے جراثیم اس مچھر میں منتقل ہوتے ہیں ۔اور یہ مچھر جب کسی صحت مند
شخص کو کاٹ لے تو اس شخص کے جگر میں یہ جرثومے ہفتوں سے مہینوں یا سالوں تک
نمو پاتے ہیں اور جب ایک خاص تعداد میں جرثومے پیدا ہو جاتے ہیں تو ملیریا
حملہ کر دیتا ہے ۔اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا ہو سکتی
ہے ۔
صحت کے عالمی ادارے کی ملیریا رپورٹ 2018ء کے مطابق ملیریا کے دنیا بھر میں
212 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 000 ،429 افراد اس موذی مرض سے موت کا
شکار ہوئے۔عالمی یوم ملیریا ( Malaria Day World ) اقوام متحدہ کے ذیلی
ادارے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے 2008ء سے ہر سال دنیا بھر میں 25 اپریل
کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں ملیریا کے مرض سے آگاہی اور اس
سے بچاؤ کا شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس دن صحت سے وابستہ افراد اور ادارے
سیمینار، کانفرنس، پوسٹر، واک اور دوسری تقریبات منعقد کرتے ہیں اور
اخبارات و رسائل اپنے اشاعت خاص کے ذریعے ملیریاکے بارے میں آگاہی اور
احتیاطی تدابیر کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرتے ہیں۔
دنیا کے چندملکوں میں ملیریا عام ہے، افریقہ ،ایشیا،مشرق وسطیٰ ،جنوبی
ایشیا،وسطی امریکہ وغیرہ ۔ پاکستان میں سالانہ 16 لاکھ افراد براہ راست اس
سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور ہر سال 50 ہزار اموات ہوتی ہیں۔یہ تو پاکستان کا
حال ہے۔دنیا بھر میں اس کی صورت حال مزید خراب ہے کہ ہر 30 یا 40سیکنڈبعد
ایک مریض ملیریا سے لقمہ اجل بن جاتا ہے ۔ اور سالانہ 5 لاکھ سے افراد موت
کاشکار ہوجاتے ہیں ۔دنیا بھر میں ملیریا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے90 فیصد
افراد کا تعلق غریب ممالک سے ہے ۔
خیال رہے کہ بچوں میں ملیریا ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ملیریا کی
علامات عموماً مچھر کاٹنے کے 6 دن کے بعد نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔بعض
اوقات اس کی علامات ظاہر ہونے میں ایک سال بھی لگا دیتی ہیں ،علامات درج
ذیل ہیں ۔بخار،سردی ،سردرد،متلی ،الٹیاں ،پیچس ،شدید کمزوری ،پٹھوں کا
دکھنا،پیٹ، کمر اور جوڑوں میں درد،کھانسی ،گھبراہٹ وغیرہ ملیریا کے شدید
حملے میں اعصابی نظام بری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔علاوہ ان کے جسم میں شدید
درد، جلد پر خارش، سرخ دھبے ملیریا کی نشانیوں میں شامل ہیں۔اگر مریض کو ان
میں سے چند علامات دکھائی دیں تو ڈاکٹر کو دکھائیں ۔ملیریا کا علاج فوراََ
کروانا چاہیے ،بہت سے دیگر جراثیم بھی اور بیماریاں بھی ملیریا جیسی
علامتیں رکھتی ہیں ۔ جس وجہ سے ملیریا کی تشخیص میں دیر لگ سکتی ہے ۔
ملیریا سے بچاؤکے لئے احتیاطی تدابیر میں ماحول کو صاف رکھنے کے ساتھ کھلے
آسمان تلے سونے سے گریز کیا جائے ، مچھر دانی استعمال کی جائے اور مچھروں
کو دور رکھنے والا تیل جسم پر لگایا جائے پورے بازوں والی قمیض پہنیں ۔اس
بات کا خیال رہے کہ ملیریا کے علاج کا جدید طریقہ بسا اوقات مریض میں
انتڑیوں کی سوزش بھی پیدا کر دیتا ہے ۔ اس سوزش کے بعد مریض ملیریا کے بخار
سے نکل کر ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔صرف مادہ مچھر ہی انسانوں کو
کاٹتی ہے اور ملیریا پھیلاتی ہے اور اگر ان کی تعداد میں کمی آئے تو اس سے
ملیریا کے پھیلاؤ میں بھی کمی آئے گی ۔
اس طرح سوچتے سوچتے یہ بات بہت دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ سائنسدانوں نے
ملیریا کے خاتمے کے لیے ایک نیا ہتھیار تیار کر لیا ہے ۔یہ ہتھیار جینیاتی
طور پر تبدیل شدہ مچھر ہیں جو اپنی نسل میں زیادہ تر نر مچھر ہی پیدا کریں
گے جس کے نتیجے میں ان کی نسل آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی ۔یہ طریقہ کار
اختیار کرنے سے مچھروں کی آبادی میں مادہ مچھروں کی تعداد بہت ہی کم ہو
جائے گی اور جس کا نتیجہ ان مچھروں کی آبادی میں بتدریج کمی اور آخر کار
خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔ ملیریا کا جرثومہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک
منتقل کرنے والے ان مچھروں کے خاتمے کی وجہ سے اس بیماری کاپھیلاؤ بھی رْک
جائے گا۔جب نر مچھر صرف نر بچے ہی پیدا کریں گے جس سے ان کی آبادی کے ختم
ہونے کا امکان ہو سکتا ہے ۔اس پر کوئی بھی صاحب عقل خوش نہیں ہو سکتا کہ
سائنسدانوں کی یہ تھیوری کامیاب ہو سکے گی کہ اول تو ایسا ممکن نہیں ہے
،دوم یہ کہ جب صرف نر مچھر رہ جائیں گے تو ان کی نسل ختم ہو جائے گی۔
میں کوئی سائنس دان تو نہیں لیکن یہ کہنا چاہتا ہوں اگر دنیا بھر سے عورت
کا وجود ختم ہو جائے تو مرد حضرات کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں دیگر جنس کے
لیے۔ ایسا سوچیں تو یہ علم ہوتا ہے کہ جب مادہ مچھر کا خاتمہ کر دیا جائے
تو یہ نر مچھر کسی اور بیماری کا سبب بن جائیں گے جس کا علاج ملیریا سے بھی
زیادہ مشکل ہو ۔اس لیے میری سائنس دانوں سے اپیل ہے کہ فطرت سے ٹکرانے کی
بجائے ،اس پر غور کریں کہ اﷲ نے ہر بیماری کی شفا ء پیدا کی ہے ۔مثلاََ نیم
کے درخت ،عام کھانے کا نمک ،ہزاروں جڑی بوٹیاں ،وغیرہ پر تحقیق کی جا رہی
ہے ،اس طرح ان شاء اﷲ جلد ملیریا کاحتمی علاج دریافت کر لیا جائے گا ۔
جیسا کہ امریکی محققین کے مطابق وہ ایک ایسی نئی دوا تیار کرنے میں کامیاب
ہو گئے ہیں، جس کی ایک ہی خوراک ملیریا بخار کے تمام اثرات کو زائل کر کے
اسے ختم کر دے گی۔ اس نئی دوائی کے ابتدائی ٹیسٹ شروع کر دیے گئے ہیں۔علاوہ
ازیں کہا جا رہا ہے نیم کے پتوں سے کشید کردہ اجزا ملیریا کے علاج میں
مفیدہیں ۔
ملیریا کا سستا ترین علاج کتاب ’’گھر کا دواخانہ‘‘ حکیم عبدالقدوس (انڈیا)
کا تحریری ایک نسخہ ہے نمک کو صاف ستھری لوہے کی کڑاہی یا توے پر اچھی طرح
بھون لیں۔ وہ بھورے رنگ کا ہوجائے ۔بچے کے لیے آدھا اور جوان شخص کیلئے
سالم چمچہ بھر نمک لے کر اسے ایک گلاس پانی میں ابال لیں جب یہ نمک پانی
میں جذب ہوجائے تو مریض کو نیم گرم پانی پلائیں جب اسے بخار نہ ہو ۔ ان شا
اﷲ مریض کو فوراََ آرام آجائے گا ۔حکماء کو چاہیے اس کو آزما کرعوام الناس
کو اس کے نتیجے سے آگاہ کریں ۔
|