عمرِ گریزاں ! عمرِ گریزاں ! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو !

لاکھوں لوگ دُنیا وی مال ومتاع حاصل کرنے یانرم الفاظ میں یوں کہہ لیں،آنکھوں میں اہل وعیال کی آسودگی کے سپنے سجائے وطن کی مٹی،ماں باپ کی شفقت اوربیوی بچوں کاساتھ قربان کرکے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں،پھر زندگی کا بیشترحصہ اپنوں سے جدائی کی اذیت برداشت کرتے ہیں۔ اپنے حصے کی خوشیوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ پرائے دیس کاہرغم اوردُکھ خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ البتہ میرامعاملہ بالکل مختلف ہے،85,80 کے پیٹے میں اس بزرگ نے پُرنور چہرہ پرکسی معصوم بچے کے جیسی مسکراہٹ سجائے شفقت اور محبت سے ہمیں بتایا کہ آج سے کم وبیش60,55 سال قبل ایسے ہی دُنیاوی حسین سپنوں کی تعبیرکے لئے ہندوستان سے ہجرت کرکے سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض سے تقریباََ140کلومیڑ کے فاصلہ پرایک چھوٹے سے قصبہ رماح (Rumah) میں کام کی غرض سے آیا اور پھر یہیں کا ہوکررہ گیا۔

پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا،ہمارا منصوبہ کچھ ہوتا ہے،مگراﷲ کے ہاں کچھ اورطے ہوچکاہوتاہے۔ ہمیں تندرستی،بیماری،خوشی،غم ، فراخی، تنگدستی ہرحال میں اﷲ کا شکرادا کرنا چاہیے کہ وہی تما م تعریف کا حقیقی حقدار ہے۔ہرحال اﷲ کی طرف سے آتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صرف اور صرف اُسی کی طرف متوجہ ہوں۔اپنی ہراُمیداﷲ کی ذات پاک ہی سے وابستہ کریں اورہرحال میں اُسی ذاتِ کامل واقدس کی طرف رجوع کریں۔محمدعربی ﷺکی حیاتِ مبارکہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ،صرف اورصرف آپ ﷺ کی اتباع میں دوجہاں کی کامیابی کادارومدار ہے۔ ان کی ساری گفتگو ایمان ویقین ،اﷲ عزوجل کی کامل صفات اور محمد مصطفی ﷺ کی حیات مبارکہ سے متعلق تھی۔

اُنہوں نے بتا یا کہ میں تقریباََ 25,20سال کا تھا جب یہاں آیا۔میراتعلق ہندوستان کے کٹراورمتعصب ہندوگھرانے سے ہے۔ہمارے قبیلے والے اسلام کی مخالفت میں پورے علاقہ میں مشہورہیں۔اسلام قبول کرنے سے قبل کی زندگی پرپشیمانی کااظہار کرتے ہوئے ،ایمان لانے پرخوشی اورفخرکے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا واقعہ سنایا کہ بے شک اﷲ پاک جس سے محبت کرتا ہے اورجس کے لئے پسندکرتاہے ہدایت کی راہیں کھول دیتا ہے۔میں یہاں آیاتواتفاق سے میرا کام ایک مسجد کے قریب تھا۔ میں روزدیکھتا کہ جیسے ہی بلانے والا سپیکر پر لوگوں کو بلاتا یعنی موئذن اذان دیتا ، لوگ اپنے سارے کام چھوڑ کر مسجد کی جانب چلے جاتے اور تھوڑی دیر (یعنی نماز کی ادائیگی )کے بعدواپس آجاتے اور اپنے کاروبار میں نئے سرے سے مصروف ہوجاتے۔ میں لوگوں کے اس عمل سے متعجب ہوتا کہ آخراس طرح انہیں کیا حاصل ہوتا ہے؟جوروزانہ کئی باراپنا کام اورکاروبار چھوڑ کرمسجدمیں چلے جاتے ہیں۔ ایک دن ڈرتے سہمتے ہوئے میں بھی مسجد چلاگیااور مسجدکے آخری حصہ میں جا کرخاموشی سے بیٹھ گیا۔

اس علاقہ کے لوگ مجھے اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ اُس وقت یہ قصبہ بالکل چندگھروں پرمشتمل تھا۔انہیں یہ بھی معلوم تھاکہ میں غیرمسلم ہوں۔ مگران میں سے کسی نے بھی مجھے نہ توحقارت کی نظر سے دیکھا اور نہ ہی مجھ سے کبھی سوال کیا کہ مسجد میں تمھارا کیا کام؟آخرتم یہاں کیا کررہے ہو؟ یہاں تک کہ میں کم وبیش چھ ماہ تک اسی طرح متواتر مسجدمیں جاتا رہا۔خاموشی سے مسجدمیں جاکر بیٹھ جاتا اورانہیں اﷲ کے حضورحاضری دیتے غورسے دیکھتارہتا۔آخرکار اﷲ رب العزت نے مجھ پر ترس کھایا ، میرے دل میں دین ِ اسلام کی محبت ڈال دی اور مجھے دین اِسلام جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی میرے لئے ایک اور مشکل کھڑی ہوگئی کہ جیسے ہی میرے بیوی بچوں اورخاندان والوں کو اسلام قبول کرنے کا علم ہوا۔میرے خاندان والے میرے خلاف ہوگئے اور مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا۔میرے خونی رشتہ دار میرے خون کے پیاسے ہوگئے اور مجھے کہا گیا کہ میں گھرآیا تو قتل کردیا جاؤں گا۔

یہ میرے لئے بہت بڑی آزمائش تھی۔میں اپنے بیوی بچوں اور اہل خاندان سے آئندہ زندگی بھرنہ مل پاؤں گا،یہ سوچ کربہت دُکھی اور افسردہ تھا، مگرمیں اپنے اﷲ پاک سے ہمیشہ دُعا کرتا،اے میرے رب مجھے اس مشکل میں بے آسرا نہ چھوڑنا، میری مددفرمانا اور ہدایت کے بعد مجھے دین اسلام پرثابت قدم رکھنا۔بے شک اﷲ عزوجل نے میری مددفرمائی اورمجھے دین ِاسلام پراستقامت عطاء فرمائی ،جس کامیں جتنا شکرادا کروں کم ہے۔میں نے ہرحال میں اﷲ عزوجل کو شامل حال پایا اور کبھی بھی اپنے آپ کو تنہا،بے بس اوربے آسرا محسوس نہیں کیا۔حالانکہ انہیں اپنوں سے بچھڑے اک مدت بیت چکی تھی،ضبط کے باوجودان کی آنکھوں میں نمی صاف بتارہی تھی کہ وطن ،ماں باپ اوراولاد کی کشش کتنی ظالم ہوتی ہے۔ بڑھاپے ،کمزوری اوربیماری کی حالت میں اپنوں اورخاص کراولادکی ضرورت کے وقت، تنہائی کس قدراذیت ناک ہوتی ہے، اس درد کا اندازہ، جس پر بیتے وہی کرسکتا ہے۔

ضعف،بڑھاپا،جسم کا دایاں حصہ فالج زدہ،چلنے میں دشواری، کہ چھڑی زمین پرٹیک کربڑی مشکل اورتکلیف سے پاؤں زمین پرگھسیٹتے ہوئے مسجدمیں باقاعدگی سے نمازکی باجماعت ادائیگی اور عصر سے عشاء تک مسجدمیں اعتکاف کی نیت سے ذکر وفکرکے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری دیناسالہاسال سے ان کامعمول ہے۔ اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت میں گزرے ماہ وسال میں پیش آنے والے واقعات ومعجزات اوراپنے پراﷲ کے لطف وانعامات کے بارے میں عاجزی،انکساری اورشکرانے کے جذبات کے ساتھ بتا تے ہوئے کئی باروہ رودیئے۔اُن کی زیارت ہمارے لئے بہت بڑا شرف،سعادت اوراعزازکی بات تھی۔ اُن کی ایمان افروزداستان سنتے ہوئے،میری آنکھیں اشک بارتھیں ۔

ان کی میٹھی ،معصومیت اورمحبت بھری آواز نے میرے جسم میں کپکی طاری کردی اورمیں اسی سحرکی کیفیت میں سوچتارہاکہ یہ شخص دین کی خاطرکتنی بڑی آزمائش سے گزرا ہے۔مجھے اپنے آپ پر،دین اسلام کی ناقدری اورغفلت ولاپرواہی میں گزری اپنی زندگی پر افسوس ہورہاتھا،کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں،ہمیں ماں کی گود میں کلمہ مل گیا ، ہم نے اس نعمت کی قدر نہ کی۔ ہم لوگ نفسانی خواہشات ،دُنیا وی مال ومتاع اوردووقت کی روٹی کی خاطر وطن ،ماں باپ کی شفقت اوربیوی بچوں کاساتھ قربان کر دیتے ہیں مگر دین کی خاطرقربانی ہمیں خیال اور افسانہ محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اﷲ نے خواہش نفسانی کے تابع انسان کوجانورسے بھی بدترقراردیاہے،مگرہم پھربھی نہیں سمجھتے ۔ ہم اپنے رب کو بھول گئے اورمحض اپنی خواہش نفسی کی تکمیل میں ساری زندگی ضائع کردی۔ اخترہوشیارپوری نے کیا خوب کہا !
دامن خالی ، ہاتھ بھی خالی، دست ِ طلب میں گرد ِ طلب
عمرِ گریزاں ! عمرِگریزاں ! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 83715 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.