وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ایران میں دیے گئے بیان پر
’زبان پھسلنے‘ کی بحث ابھی کسی جانب لگی نہیں تھی کہ عمران خان نے وانا میں
جلسے سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ’بلاول بھٹو صاحبہ‘ کہہ
کر مخاطب کر دیا۔
|
|
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ 'میں بلاول بھٹو صاحبہ کی
طرح کوئی کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا کہ مجھے والدہ نے جائیداد میں پارٹی
دے دی ہے۔۔۔'
|
|
بلاول بھٹو نے کچھ دیر پہلے ٹویٹ کی کہ 'وہ کیا تھا بڑے عہدوں پر فائز
چھوٹے لوگ؟‘ اور ساتھ ہیش ٹیگ کیا ’پی ایم سلیکٹ‘۔
عمران خان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر فوراً ہی شدید تنقید شروع ہو گئی جس
میں پہلے ’صاحبہ‘ اور پھر ’بلاول صاحبہ‘ ٹرینڈ کرنے لگا۔
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا 'قابل نفرت
اور گھناؤنا۔'
|
|
اینکر مہر بخاری بے لکھا 'بہت ہی بدمزگی ہے بلاول بھٹو کو صاحبہ کہہ کر
بلانا۔ ایسا کسی سے متوقع نہیں مگر وزیراعظم عمران خان کا اس سطح تک گرنا
پاکستانی سیاست میں مزید گراوٹ ہے۔'
|
|
صحافی غریدہ فاروقی نے لکھا 'کیا یہ بھی زبان پھسلنے کا معاملہ ہے؟ اگر
نہیں تو یہ ہمارے معاشرے کے اس ذہنیت کی عکاسی ہے جس میں دوسری جنس کے نام
پر مردوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ نر کے بچے کے بعد صاحبہ۔۔۔ صرف پی ٹی آئی
ہی کیوں، آخر کیوں؟'
|
|
ایسا پہلی بار نہیں کہ موجودہ حکومت کے وزرا نے بلاول بھٹو کے بارے میں اس
قسم کا طرز عمل اختیار کیا ہو۔ اسد عمر پہلے ہی ’نر کا بچہ‘ پر تنازعے کا
شکار ہو چکے ہیں۔
ندیم فاروق پراچہ نے لکھا 'احمقانہ بیان۔ پاکستان کو قابل حکمرانوں کی
ضرورت ہے نہ کہ دیوانے ملاؤں کی۔ اور یقیناً ایسے وزیراعظم کی نہیں جو
تنقید پر عورت سے نفرت پر مبنی مذاق کر کے جواب دے۔۔۔‘
|
|
نازنینہ حکیم نے ٹویٹ کی کہ 'میرے طلبا اکثر مجھے سر کہہ کر پکار لیتے ہیں
اور میں نے کبھی اس کا برا نہیں منایا کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہ ان کی زبان
پھسل جاتی ہے مگر عمران خان کا صاحبہ جان بوجھ کر بولا گیا۔ عورت سے نفرت
بند کریں۔'
|