پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے
ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ کے مالی معاملات پر
سوال اٹھاتے ہوئے الزامات عائد کیے ہیں کہ انھیں مختلف مقامات پر احتجاج کے
لیے انڈیا کے خفیہ ادارے را اور افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس سے
رقوم موصول ہوتی رہی ہیں۔
|
|
انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے مالی معاملات پر سکیورٹی اداروں کے کئی
سوالات ہیں اور وہ یہ بتائیں کہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ
موومنٹ کے علاوہ پاکستان انڈیا کشیدگی اور دیگر امور پر بات کی۔
پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)
کے مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا ’پی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر چندے کی
تفصیلات دی گئی ہیں، جو تفصیل وہاں موجود ہے اس سے بہت زیادہ پیسہ اکٹھا
ہوا ہے، یہ بتائیں کتنا پیسہ اکٹھا ہوا ہے؟ اور یہ رقم کہاں سے آئی ہے؟‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی ایم کو انڈیا کے خفیہ
ادارے را اور افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس سے رقوم موصول ہوئیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ’ 22 مارچ 2018 کو این ڈی ایس نے آپ کو احتجاج جاری
رکھنے کے لیے کتنے پیسے دیے؟‘
اس کے علاوہ انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ’اسلام آباد میں سب سے پہلا دھرنا
ہوا اس کے لیے انڈین خفیہ ایجنسی را نے پی ٹی ایم کو کتنے پیسے دیے، وہ کس
طریقے سے پہنچے اور انھوں نے کہاں استعمال کیے؟‘
|
|
ڈی جی آئی ایس پی آر نے قندھار اور جلال آباد میں قائم انڈین قونصل خانوں
سے مبینہ روابط پر بھی سوال کیے۔
انھوں نے پوچھا ’ 8 مئی 2018 کو جلال آباد میں قائم انڈین قونصل خانے نے
طورخم میں ہونے والی احتجاجی ریلی کے لیے کتنے پیسے دیے، وہ پیسے کس طریقے
سے پہنچے اور کہاں استعمال ہوئے؟‘
انھوں نے پی ٹی ایم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ موومنٹ شروع
ہوئی تو میں نے سب سے پہلے ان سے بات کی۔ ان کے مطابق آرمی چیف نے ہدایت دی
تھی کہ ’اگر وہ غلط بات بھی کریں تو ان کے ساتھ سخت ہاتھ نہیں رکھنا‘
کیونکہ یہ ان نوجوان کی بات کرتے ہیں جنھوں نے شروع سے جنگ دیکھی ہے۔
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انھوں
نے کہا کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا ’ان کا پہلا مطالبہ بارودی سرنگیں (مائنز) کا تھا،
اس پر ہم نے کام بھی کیا اور 48 انجینئرز کی ٹیمیں تعینات کی جنھوں نے 45
فیصد علاقے کو مائنز سے کلیئر کر لیا ہے اور اس دوران فوج کے 101 جوان ہلاک
ہوئے‘۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ ’چیک پوسٹیں ختم کرنے کا تھا،
اس پورے آپریشن کے دوران پاک فوج کے چھ ہزار جوانوں نے جانوں کا نذرانہ دیا،
محسن داوڑ، منظور پشتین اور علی وزیر اس وقت کہاں تھے جب وہاں پر لوگوں کے
گلے کاٹے جا رہے تھے؟ آج ڈیویلپمنٹ اور بحالی کا کام ہو رہا ہے تو تحفظ کی
بات آ گئی؟‘
|
|
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پی ٹی ایم 'جن لوگوں کے مسائل کو بنیاد بنا
کر کام کر رہی ہے ان مسائل میں پیش رفت کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا۔
'ہم وہاں کے عوام کے لیے ہر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ جو لوگوں کے ہاتھوں
میں کھیل رہے ہیں ان کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ لیکن آرمی چیف کی ہدایت پر عمل
ہوگا، لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی غیر قانونی راستہ
اختیار کیا جائے گا۔۔۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس کے ردعمل میں پشتون تحفظ موومٹ نے
سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
مدارس مرکزی دھارے میں لائے جائیں گے
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر
ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں 30 ہزار مدرسے قائم ہیں جن میں سے
100 سے بھی کم ایسے ہیں جہاں ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو بچوں کو انتہا پسندی
کی جانب راغب کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مدارس میں سے کچھ مدرسے ہم عصر تعلیم بھی مہیا کر رہے
ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کوشش کر رہی ہے کہ ان مدارس کو مرکزی دھارے میں لایا
جائے تاکہ جو بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی ڈاکڑ اور انجینئیر بن
سکیں۔
فوجی ترجمان کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے نئے اساتذہ بھی بھرتی کرنے
پڑیں گے اور اس کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی
ہے جس کے بعد فوج اس قابل ہو گی کی فنڈز کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کر
سکے۔ انھوں نے بتایا کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے اور تعلیم کی سہولت
بہتر کرنے کے لیے ابتدائی طور پر دو ارب روپے کی ضرورت ہو گی۔
انڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انڈیا انگنت جھوٹ بول
رہا ہے اور پاکستان ان کی لفظی اشتعال انگیزی کا جواب نہیں دے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس انڈیا کے حوالے سے بتانے کو بہت کچھ ہے
مگر ہم صرف اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب حالات مناسب ہو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا یاد رکھے کہ یہ سنہ 1971 نہیں ہے۔ ’آج نہ وہ فوج
ہے، نہ وہ حالات اور نہ ہی وہ میڈیا۔ اگر آج کا پاکستانی میڈیا اس وقت ہوتا
تو حالات کی رپورٹنگ کرتا تو مشرقی پاکستان کبھی علیحدہ ہوتا۔‘
|