بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ـ ــ’’کئی خوش نصیب انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موت صرف چند نفوس کے لئے
غم کا باعث نہیں ہو تی بلکہ ایک وسیع خلقت ان کی موت سے متاثر ہوتی ہے اور
ہزاروں کو ان کی موت رُلا دیتی ہے حضرت ڈاکٹر حفیظ اﷲ صاحب رحمہ اﷲ ایسے ہی
تھے وہ کتنے دلوں کا سکون تھے اور نہ جانے کتنے مالی اور دینی اعتبا ر سے
مفلسوں کا سہارا تھے، اﷲ تعالیٰ نے ان کو اوصاف حمیدہ سے مالا مال فرمایا
تھا، شریعت اور طریقت ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی ،ان کی زندگی کا نقطہ
اپنے خالق ومالک کی عبادت تھی، بس ان کو راضی رکھنا اور ان سے لو لگانا ان
کا خاص شعار تھا، وہ جہاں رہے با برکت بن کر رہے ،جواِن سے ملتا ان سے محبت
کرتا اور ان کی دینداری اور تواضع سے متاثر ہوتا وہ ہر ایک کو نفع پہنچانے
کی کوشش فرماتے ‘‘
یہ الفاظ ہیں میرے مربی ومحسن مصلح الامت حضرت مولانا مفتی عبد القادر صاحب
رحمہ اﷲ (سابق شیخ الحدیث دارلعلوم کبیر والا ) کے جو انہوں نے حضرت ڈاکٹر
حفیظ اﷲ صاحب مہاجر مدنی رحمہ اﷲ کی وفات پر اپنے تعزیتی مضمون میں ارشاد
فرمائے ہیں ان الفاظ کو پڑھ کر بندہ سوچ میں ڈوب گیا کہ حق تعالیٰ نے یہ
الفاط حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کے قلم سے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اﷲ کے متعلق
کہلوائے ہیں یا خود حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی اپنی ذات کے متعلق، کیونکہ
حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ خود بھی بعینہ انہی الفاظ کا نمونہ ومصداق تھے،حضرت
مفتی صاحب رحمہ اﷲ واقعتاعالم ربانی ،مصلح الامت اور نمونہ اسلاف تھے حضرت
کی طبیعت میں بھی شریعت و طریقت رچی بسی تھی، آپ کی زندگی کا مرکزی نقطہ ء
نظر بھی حق تعالیٰ کی رضاء ومحبت تھی ،آپ کی ذات بھی مخلو ق خدا کے دلو ں
کے لئے سکون کا باعث تھی آپ کاوجود بھی لوگوں کے لئے زندگی بھر بابرکت بن
کر رہا آپ رحمہ اﷲ سے ایک مرتبہ ملنے والا بھی دینی نفع اور آپ کی محبت سے
محروم نہ رہا آپ کی دینداری اور تواضع بھی مسلّم تھی اورآپ سراپامتبع سنت
تھے اور اسی نہج پر طالبین اور سالکین کی تربیت فرماتے تھے ۔
حق تعالیٰ کے بندہ پر اَن گنت احسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حق تعالیٰ
نے محض اپنے فضل واحسان سے بندہ کو بھی حضرت رحمہ اﷲ کے محبین میں شامل
فرمایا ہے اﷲ تعالیٰ آخرت میں بھی آپ کی محبت ومعیت نصیب فرمائے آمین۔
احب الصالحین ولست منھم لعل اﷲ یرزقنی صلاحا
دارالعلوم کبیر والا کے زمانہ ء طالب علمی کے دوران حضرت رحمہ اﷲ سے
باقاعدہ اصلاحی تعلق قائم کرنے کاتو موقع نہیں مل سکا اور اس کا اب تک دکھ
ہے لیکن اس دوران حضرت رحمہ اﷲ کی زیارت سے مشرّف ہونے اور بیانات سے
مستفید ہونے کا خوب موقع ملا ہے اور گاہے بگاہے سلام و مصافحہ اور دعاء
لینے کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا ہے اس زمانہ کی حضرت سے متعلقہ اَن گِنت
یادیں بندہ کے ذہن میں نقش ہیں،منجملہ ان یادوں کے حضرت رحمہ اﷲ کی دو خو
بیاں بندہ زندگی بھر نہیں بھلا سکے گا ۔
(۱) حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سا ل بھر حضرت رحمہ اﷲ کی اقتداء میں
نمازیں پڑھنے کا موقع عطاء فرمایا ہے حضرت کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا جو
لطف حاصل ہوتا تھا اور نماز میں جو کیفیت پیدا ہوتی تھی وہ بیان سے باہر ہے
اس روحانی کیفیت کو الفاظ میں ڈھالا نہیں جاسکتا ،خاص طور پر فجر کی نماز
میں لوگ دوسرے محلّوں سے چل کر نماز حضرت رحمہ اﷲ کی اقتداء میں پڑھنے کو
سعادت سمجھتے تھے اور بہت ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے اور حضرت رحمہ اﷲ عین
سنت کے مطابق ترتیل سے قرآن پاک کی قرأت کرتے تھے فجر کی نماز میں حضرت
رحمہ اﷲ کا معمول سنت کے مطابق طوال مفصل سے قرأت کرنے کا تھا حضرت رحمہ اﷲ
ترتیب سے سورۃ حجرات سے لیکر سورۃ بروج تک ہر روز ایک ایک سورۃ کی تلاوت
فرماتے اور دلوں میں عجیب سکون کاسماں باندھ دیتے تھے اور نمازیوں کو پہلے
سے معلوم ہوتا تھا کہ آج حضرت رحمہ اﷲ نماز میں کونسی سورۃ تلاوت فرمائیں
گے بہر حال حضرت رحمہ اﷲ کی اقتداء میں ادا کی گئی نمازیں اب تک یاد ہیں
اور شاید زندگی بھر بھلائی بھی نہیں جاسکیں گی ،حق تعالیٰ قبول فرمائیں
آمین ۔
(۲) دارالعلوم کبیر والا میں جب بھی کوئی نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی، تو
عام طور پر امامت حضرت رحمہ اﷲ ہی فرماتے تھے اور نماز جنازہ سے قبل حضرت
رحمہ اﷲ مختصر چند منٹوں میں فکر ِ آخرت پر بہت ہی موثر بیان فرماتے تھے
اور اس مختصر بیان کو بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا، دوران بیان ایسامحسو
س ہوتا تھا کہ دلوں سے دنیا کی محبت نکلتی جارہی ہے اور آخرت کی فکر پیدا
ہور ہی ہے، اس مختصر بیان کے دوران دلوں میں پیدا ہونے والی کیفیت کو بھی
الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حضرت رحمہ اﷲ کی بات دل سے نکلتی
تھی اس لیے سامعین کے دلوں پر اثر کرتی تھی ۔
سچ ہے کہ ع
ازدل خیزد بردل ریزد:
پھر رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے استاذِ مکرم
حضرت مولانا مفتی محمد صدیق صاحب رحمہ اﷲ کے حکم سے ۳شوّال ۱۴۲۰ھ کو حضرت
کی خدمت میں ان کے آبائی گاؤں کوٹ سلطان ضلع لیہّ حاضری ہوئی تو حضرت نے
تخصص فی الفقہ کا مشورہ دیا اور تخصص کے لئے کو ن سی جگہ زیادہ موزوں ہے اس
سلسلہ میں فرمایا کہ ’’ہم کراچی کے مدارس کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے کراچی
کے کسی بڑ ے مدرسہ میں داخلہ مل جائے تو بہتر ہے‘‘ بہرـحال اس سال حضرت
رحمہ اﷲ سے باقاعدہ اصلاحی تعلق قائم کرنے کا موقع مل گیا اور حضرت رحمہ اﷲ
نے بندہء ناچیز کو اپنے خدّام میں شامل فرمالیا۔
اس سلسلہ میں حضرت رحمہ اﷲ کی خدمت میں درج ذیل پہلا اصلاحی خط ارسال کیا ۔
حضرت جی ! آپ کی سرپرستی میں اپنی اصلاح کرانا چاہتا ہوں اب تک کسی عارف
کامل اہل اﷲ سے تعلق قائم نہیں کرسکا ،کسی اﷲ والے کی تلاش جاری تھی ،اب
مجھے شرح صدر ہوگیا ہے کہ اگر واقعتہً اصلاح کرانی ہے تو حضرت مفتی صاحب کا
پلہّ مضبوطی سے تھام لیا جائے انشاء اﷲ ضرور کامیابی ملے گی ۔
جواب ’’عزیز م سلمہ ۔اسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ: ابتدائی معمولات کاپرچہ
بھیج رہا ہوں، اس پر عمل شروع کردیں۔ حالات کی اطلاع دیتے رہیں ‘‘۔
عبدالقادر
محبت وعقیدت رکھنے والوں سے دلجوئی اور اصلاح کا عجیب انداز
ایک مرتبہ کراچی سے ملتان واپسی پربندہ کے دل میں تقاضہ ہوا کہ حضرت رحمہ
اﷲ سے ملاقات کی جائے لیکن مدرسہ سے گھر آنے کی خوشی اور سامانِ سفر کی وجہ
سے ہمت نہیں ہورہی تھی کہ کبیر والا کا سفر کروں پھر سوچا کہ چلو ٹیلی فون
پر حضرت رحمہ اﷲ سے بات کر لو ں چنانچہ ملتان اسٹیشن کے قریب ایک PCOپر
حضرت کا نمبر ملایا حضرت رحمہ اﷲ نے خود رسیور اٹھایا اور بات کی، تعارف
کرانے پر خوشی کا اظہار کیا اور حال واحوال پوچھااور خوب دعاؤں سے نوازا،
پھر فرمانے لگے، آپ سے تعزیت کرنی ہے آپ کے جامعہ فاروقیہ کراچی کے اساتذہ
شہید ہوئے ہیں، بندہ پانی پانی ہوگیا کہ کہاں میں ایک مدرسہ کا طالب علم
اور کہا ں حضرت کا مقام ومرتبہ، لیکن چونکہ میں اسوقت اس مدرسہ کا ایک فرد
تھا اس نسبت سے حضرت رحمہ اﷲ نے مجھے بھی قابل تعزیت سمجھا اور بہت دُکھ
اور غم کا اظہار کیا اور مجھ سے میرے شہید اساتذہ کے حالات پوچھے اور انکے
حق میں دعائے مغرفت فرمائی، چونکہ ُان دنوں میں یہ دہشت گردی کا تازہ واقعہ
پیش آیا تھا جن میں بند ہ کے تخصص کے استاذ حضرت مولانا مفتی محمد اقبال ؒ
بھی دیگر اساتذہ کے ساتھ شہید ہوگئے تھے اور بندہ کے دل پر اس کا گہرا اثر
تھا اس لئے حضرت کے ان کلمات سے غم کا بوجھ ہلکا ہوا او ر حوصلہ
بڑھا،درحقیقت حضرت نے اپنے اس طرز عمل سے سنت پر عمل کی اہمیت اور اپنے
متعلقین اور چھوٹوں سے دلجوئی کرنے کی طرف متوجہ فرمایا اور اپنے عمل سے
بند ہ کی عجیب انداز کے ساتھ اصلاح فرمائی اﷲ تعالیٰ حضرت کو جزائے خیر سے
نوازے آمین ۔
ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں چند دنوں کے لئے حضرت کی خدمت
میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ، حضرت دارالعلوم کی مسجد میں معتکف تھے،
متعلقین کثیر تعداد میں حضرت کے ساتھ اعتکاف کی برکات سمیٹ رہے تھے، بندہ
کو بھی چند دنوں کی یہ سعادت حاصل ہوئی حضرت معمولات کی ادائیگی میں خوب
مجاہدہ فرماتے تھے آپ کے معمولات کو دیکھ کر رشک آتا تھا اور متعلقین کی
اصلاح وتربیت بھی خوب فرماتے تھے اور ان کو بھی معمولات کا پابند رکھنے کی
فکر فرماتے تھے آپ کے کسی بھی معمول سے اگر متعلقین کو غلط فہمی کا اندیشہ
ہوتا تو آپ اسکی پہلے ہی وضاحت فرما دیتے تھے۔
بندہ کو خوب یاد ہے آپ نے ایک مجلس میں فرمایا آپس میں ایک دوسرے سے رنجشوں
کی اصل وجہ معاملات کو صاف شفاف نہ رکھنا ہے جس سے غلط فہمی جنم لیتی ہے
اور دلوں میں تکدر پیدا ہوتا ہے اور عقیدت میں کمی آتی ہے اکثر لڑائی
جھگڑوں کی وجہ غلط فہمی ہوتی ہے پھر فرمانے لگے ’’یہاں دو دسترخوان لگائے
جاتے ہیں ایک میں عام احباب ومتعلقین کھانا کھاتے ہیں جو اجتماعی تیار ہوتا
ہے اور دوسرے میں شہر کے چند احباب اپنے گھر سے کھانا منگواتے ہیں مجھے بھی
وہ شریک کر لیتے ہیں لیکن میرا کھانا بھی میرے گھر سے آتا ہے اور میں وہی
کھانا کھاتا ہوں ‘‘اﷲ اﷲ کس عجیب انداز سے اپنے متعلقین کی اصلاح فرمائی
تاکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہی نہ ہو ۔
چنداصلاحی خطوط ـ
الحمدﷲ :اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت رحمہ اﷲ کے ساتھ اصلاحی مکاتبت
کاسلسلہ حضرت کی وفات تک مسلسل جاری رہا ان خطوط سے بند ہ کو بے حد نفع
پہنچا ،چند ایک مکاتیب کا انتخاب پیش ِ خدمت ہے اﷲ تعالیٰ ان خطوط کو ہمارے
لئے نافع بنائے آمین ۔
حال : ارشاد ــ:
مدرسہ کے اوقات میں اصلاحی کتب کامطالعہ کرنا کیساہے ؟ مغرب اور عشاء کے
بعد بھی کیا ان کتب کامطالعہ ناجائز ہے؟
جب کہ چھٹی کے اوقات میں مطالعہ پابندی سے نہیں ہوپاتا۔ اصلاحی کتب
کامطالعہ تو علوم کی جان ہے اصلاحی کتب کامطالعہ
معمولات کا جزء سمجھیں ۔
حال: ارشاد:
غیبت اور مزاح سے بچنے کا کوئی آسان حل بتائیں ۔ ہمت اور صدور کے بعد توبہ
کے نفل۔
حال: ارشاد:
آنکھ اور زبان کے گناہوں سے بچنے کا کوئی علاج بتائیں ۔ گناہوں سے بچنا ہمت
کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ہمت کریں اور ہر بد
نظری پر دو نفل توبہ کے پڑھیں، پھر ہوجائے پھر پڑھیں ،دس دن
کے بعد حالت لکھیں ۔
حال: ارشاد:
نماز میں خیالات آتے ہیں وساوس اور خیالات سے بچنے کا نماز کے الفاظ ومعانی
کی طرف توجہ رکھیں سرسری توجہ کافی ہے
علاج بتائیں ۔ کاوش نہ کریں ۔
حال: ارشاد :
ذکر و اذکار کی تعداد بڑ ھ نہیں رہی اب تک جتنے معمولات کام میں لگے رہیں
جب ذکر کو دل نہ چاہے دواسمجھ کر استعمال
کرتا رہا ہوں بس ایک کام سمجھ کر کرتا ہوں کوئی دل میں نشاط کریں رفتہ رفتہ
پھر محبو ب غذا کی طرح ہوجائے گا ۔
پیدا نہیں ہوتا ۔
حال: ارشاد :
دل چاہتا ہے کہ ہر دس دن کے بعد آپ کو خط لکھا کروں اور کبھی کبھی شیخ کی
صحبت ضروری ہے، کام میں لگے رہیں، خط
جلد جواب موصول ہو،کیونکہ اس سے گناہوں سے بچنا آسان پابندی سے لکھیں،
احیاناًملاقات بھی کریں،انشاء اﷲ حق تعالیٰ کا
ہوجاتا ہے ہر خط کے بعد کئی دنوں تک اس کا اثر رہتا ہے کبھی تعلق نصیب ہوگا
،سالک کے لیے احیاناً شیخ سے ملاقا ت اور
یہ خیا ل ہوتا ہے کہ حضرت کے پاس ہی رہ کر زندگی گزاروں ۔ اس کا بیان سُننا
بھی نافع ہوتا ہے ۔
حال : ارشاد:
حضرت جی ! معمولات الحمد ﷲ پورے ہورہے ہیں لیکن کبھی مختصر کردیاکریں ،بہت
تھکان ہوتو دس دفعہ ہی پڑھ لیا کریں ۔
کبھی سفر یا حضر میں معمولا ت پوراکرنے کو دل نہیں چاہتا
بہت زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے اس وقت کیا کروں ۔
حال: ارشاد :
جب یہاں کراچی میں ہوتا ہوں تو یہاں سے یہ عزم مصمم یہ طلب کی کمی ہے اور
ہمت کی بھی۔ نفس کا مقابلہ کریں ۔میں دعا
لے کر گھر جاتا ہوں کہ ان چھٹیوں میں آنجناب کی خدمت کرتاہوں ،آپ بھی ہمت
کریں ۔
میں ضرور حاضری دونگا لیکن گھر جاکر ہمت وفرصت نہیں
ہوتی، کوئی علاج تجویز فرمائیں اور دعا بھی ۔
حال: ارشاد:
بندہ کو حضرت والا سے ذہنی قلبی مناسبت ہے، سوچتا ہو ں کہ استخارہ کر لیجئے
۔
سال چھ ماہ حضرت کی خدمت میں رہوں لیکن آئندہ سا ل
تعلیم کامسئلہ ہے پھر سوچتاہوں کہ یہ تعلیم وہاں بھی حاصل
ہوجائے گی ۔
حال: ارشاد:
گزشتہ سال’’اکابر کارمضان ‘‘نامی کتاب پڑھی تھی بہت میں دعاکرتا ہوں آپ ہمت
کریں، پابند ی کریں، دل لگ جائے
فائدہ ہوا تھا ،لیکن اس سال رمضان میں معاملہ اسکے برعکس گا۔
ہے عبادت میں دلی لگاؤ ابھی تک نہیں ہے ،دعافرمائیں ۔
حال: ارشاد:
حضر ت والا! بچپن سے میرے نام کے ساتھ میرے استاذ چھوڑدیں استاذصاحب سے ادب
سے کہیں اور علماء کا حوالہ دیں
نے بطور تخلص نیاز کا لاحقہ لگایا تھا میں نے پورا قرآن انہی سے کہ یہ
بزرگوں کا طرز نہیں اس میں تفاخر کاشبہ ہوتا ہے نیاز ناز کی
حفظ کیا ہے ان کی خواہش ہے کہ میں یہ تخلص اپنے نام کے ساتھ ضد ہے ۔
لکھاکروں ۔
حال: ارشاد:
نماز باجماعت سے سستی بلکل بعون اﷲ تعالیٰ ختم ہوگئی ہے لیکن الحمدﷲ۔ بہتر
۔ جب ایسا خیال آئے تو یہ سوچ لیا کریں کہ میں
ایک مرض یہ پیدا ہوگیا ہے کہ کمرہ کے ساتھی جب نماز میں سستی تو کچھ بھی
نہیں ہوں یہ سب حق تعالیٰ کا فضل ہے وہ چاہیں تو یہ
کرتے ہیں تو میرے دل میں عجب پیدا ہوتا ہے کہ میں نے نعمت سلب کرلیں ۔
الحمد ﷲ جماعت سے نماز پڑھ لی ہے اور اکثر ایسے ہوتا ہے
جیسے میں چاہتا ہوں ویسے کام ہوجاتا ہے سونے سے قبل اگر
یہ نیت کرلو ں کہ یااﷲ سبق سے دس منٹ پہلے جگا دینا ،تو
پورے دس منٹ قبل آنکھ بلکل کھل جاتی ہے سا تھی حیران
ہوتے ہیں کہ نیند اس کے تابع ہے اس میں مجھے تکبر کا شائبہ
محسو س ہوتا ہے کوئی علاج تجویز فرمائیں کہ حالت تو برقرار
رہے لیکن عجب ختم ہوجائے ۔
حال: ارشاد :
مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میری یہ حالت تبدیل نہ ہوجائے ،میں دعا کرتا ہوں ،
اعمال صالحہ کا اہتمام کریں
چاہتا ہوں کہ میر ی یہ حالت ہمیشہ رہے اس لئے آپ دعا ع
بھی فرمائیں ۔ چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد
حال: ارشاد :
حضرت جی! خط لکھنے میں تاخیر ہوجاتی ہے کاہلی اور سستی کا ہمت اور خط لکھنے
کا فائدہ سوچیں ۔
علاج فرمائیں ۔
حال: ارشاد :
یہاں کراچی میں حضرت مفتی رشید احمدصاحب اور مفتی محمد تقی عثمانی اپنے شیخ
کے علاوہ اصلاح کے لیے کسی شیخ کے ہا ں جانا
صاحب کی مجالس میں جانے کی خواہش ہوتی ہے، مگر عین موقع اصول طریقت کے خلاف
ہے ہاں نیک صحبت اور وعظ سننے
پر یہ خیال آتا ہے کہ عمل توتجھ سے ہوتا نہیں خواہ مخوا ہ وہاں کی نیت سے
جانا درست ہے ۔
جانے کا کیا فائدہ ۔
حال: ارشاد:
حضرت جی! ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان سے سب سے خوش خلقی سے پیش
آئیں مگر کسی سے دوستی اور دشمنی
میل جول تعلق اور واسطہ کیسے رکھو ں ۔ سے بچیں دوستوں سے اعتدال کے ساتھ
ہنس بول لینے میں
دوستوں کے ساتھ ہنسی مزاح کس حد تک ہونی چاہیے ۔ کوئی حرج نہیں مگر اعتدال
سے تجاوز نہ ہو ۔
حال: ارشاد:
ابتدائی مدرس کے لیے کونسی باتیں ضروری ہیں ؟ محنت ،اخلاص ، دعاء۔
حال: ارشاد :
حضرت جی! لوگ زبانی مسائل پوچھتے ہیں کبھی کسی مسئلہ یوں کہیں کہ ذہن میں
اس طرح آرہا ہے پوری تحقیق کتاب
میں یقین نہیں ہوتا لیکن ظن ّ غالب ضرور ہوتا ہے اگر ظنّ دیکھنے کے بعد
ہوگی ۔
غالب پر عمل کرکے بتادوں تو صحیح ہے ؟
ْحال: ارشاد :
حضرت والا! جب تک شیخ زندہ ہو اور استفادہ ممکن ہو اسی سے کرنا چاہیے ،
بندہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں مدرس ہے استاذ معظم مولانا مولانا عطاء اﷲ
سے مشورہ کرسکتے ہیں بندہ لاہور میں علاج
عطاء اﷲ صاحب مدظلہم سے کبھی اصلاحی مشورہ کرتا ہوں کے لیے آیا ہوا ہے ایک
ماہ سے بیمار ہوں اب طبیعت درست
کوئی حرج تو نہیں ۔ ہورہی ہے مکمل صحت وقوت کے لئے دعا ء کریں ۔
حضرت رحمہ اﷲ کے چند ملفوظات عالیہ
۱۔ بیعت کامعنیٰ ہے بِک جا نا، اصلاح ضروری ہے بیعت ضروری نہیں ایک اﷲ والے
سے ایک آدمی بیعت ہونے کے لیے آیا، حضرت نے کہا کہ استخارہ کرلو ،اس نے ایک
منٹ میں استخارہ کیا اور آگیا، حضرت نے کہا اتنی جلدی استخارہ کیسے کرلیا؟
تو کہا: کہ میں نے اپنے نفس کو کہا ہے کہ اب تیری نہیں چلے گی، اب حضرت کی
چلے گی اور حضرت دین پر چلائیں گے جس سے اﷲ میاں ملے گا، بزرگ نے کہا کہ
ضروری نہیں اﷲ میاں ملیں ،ہاں امید ہے ۔
۲۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ دل میں اخلاص پیدا ہوجائے اسی کا نام تصوف ہے کہ
ہر عبادت کو اس طرح کرو جیسے اﷲ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں یہی چیز بزرگوں سے
ملتی ہے اور اس سے بہت سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں ۔
۳۔ اﷲ والوں کی صحبت سے خاتمہ اچھا ہوتا ہے، تجربہ یہی ہے۔
۴۔ ظاہر کا باطن پر اثر ہوتا ہے اگر ظاہر ٹھیک نہیں تو باطن بھی ٹھیک نہیں
ہوگا
۵۔ انسان دوقسم کے ہوتے ہیں(۱) نیک بخت (۲) بدبخت ،انسان بدبخت ہوتا ہے
گناہ کرنے سے ،کثرت کلام کرنے سے اور بُرے ماحول سے ۔
۶۔ جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھنے کاحکم ہے جمعہ کے دن اعلیٰ درجہ تین
ہزار مرتبہ درود شریف پڑھنا ،درمیانہ درجہ ایک ہزار مرتبہ اور ادنیٰ درجہ
تین سو مرتبہ پڑھناہے ۔
۷۔ جمعہ کے دن اوّل وقت میں مسجد میں جانا افضل ہے ہمارے حضرت ڈاکٹر
عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ گیارہ بجے جمعہ کے لئے تشریف لے
جاتے تھے ۔
۸۔ دین سیکھنے کے لیے کسی اﷲ والے سے تعلق قائم کرنا انتہائی ضروری ہے،
جیسے دنیاوی کام بغیر استاذکے نہیں سیکھا جاسکتا ایسے ہی دین کامعاملہ ہے،
جس باغ کاکوئی مالی نہیں اس باغ کاکوئی حال نہیں، ایسے ہی جس شخص کاکوئی
مربی نہیں اس کابھی کوئی حال نہیں ،دینی ترقی کے لیے کسی اﷲ والے سے تعلق
پیدا کرنا ضروری ہے ۔
۹۔ اﷲ والے میں دو نشانیاں پائی جاتی ہیں، ایک علم، دوسری اﷲ کی محبت کی
گرمی، جس میں یہ دونشانیاں پائی جائیں، اس کے ہاتھ میں ہاتھ دو ہر آدمی کے
ہاتھ میں ہاتھ نہ دو، جسکے پاس بیٹھنے سے اﷲ کی یاد پیدا ہو وہ قابلِ تعلق
ہے ۔
۱۰۔ ذکر واذکار سے اصل مقصد تو اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے کبھی کبھی کیفیات
بھی پید ا ہوجاتی ہیں ،کشف وکرامت،اچھے خواب دیکھنا،کبھی رونے کی کیفیت اور
یہ کیفیات مقصود بھی نہیں ،کبھی اﷲ تعالیٰ سالک کو کچھ مٹھائی کھلا دیتے
ہیں کہ اعمالِ صالحہ ہوتے رہیں۔
اﷲ تعالیٰ حضرت کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین ۔
الّٰلھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنابعدہ |