تعلیم وہ شعبہ ہے جو کسی بھی قوم اور معاشرے کی نمو،بہتری
اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے یہ تعلیم کی روشنی کے محرہون منعت
ہی ہے کے وہ خام ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخش کر انسان کو معاشرے کے لیے
کارآمد انسان بناتی ہے اور اسے انسانیت کی بھلاہی کی طرف راغب کر کے ترقی
کی نئی منزل کی جانب گامزن کرتی ہے یعنی تعلیم انسانی سوچ کو خوبصورت اور
تعمیری بنا تی ہے ۔ اب اگر بات کی جائے نصاب کی جو کہ اب تک پورانا ہی ہے
تو یوں کہنا بھی مشکل نہ ہوگا کہ نصاب میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہاں میں
مانتا ہوں کہ نصاب میں تبدیلیاں کرنا ایک کٹھن اور مسلسل عمل ہے مگر ہمارے
یہاں اس مسئلے کوفن تعلیم کے بجائے نظریاتی اور سیاسی مصلحتوں سے جوڑ سے
دیکھنے کی غلط روایت موجود ہے ، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہی ہوتا ہے کہ
آخر کار فن تعلیم کے مسئلے پر ہی سمجھوتہ کرنا پڑ جاتا ہے اس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہے کہ نصاب تعلیم کے مسئلے پر اساتذہ، طلبہ اور تعلیمی سرگرمیوں پر
کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو " تبدیلی نصاب " اور تعلیم کی بہتری کے
اس عمل میں شامل ہی نہیں کیا جاتا یہ وہ ہی لوگ ہیں جن کے لیے فن تعلیم کا
مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔مگر دنیا کو بدلتے دیکھ کر ہم نے ابھی تک
کوئی عملی بندوبست نہیں کیا جس کی سزا آج ہم نقل کی صورت میں بھی بھگت رہے
ہیں اگر ماضی کے جھرکوں میں جھانکے تو ہم پر اب تک ضیاء الحق کے ساحوں کو
ہٹانے کی کوشش نہیں کی اور مشرف دور میں جنرل مشرف پر بجا طور پر " دہرا
نظام تعلیم " اپنانے کی تہمت بھی لگی تھی یوں 2017 میں انھوں نے 1998 کی
تعلیمی پولیسی کا وسعت مدتی جائزہ لیا اور اس کا آغا ز تو کر دیا اگراس اہم
ترین اور متنازع کام میں مقبول عام سیاسی جماعتوں کو شامل نہ کرنے کا عندیہ
دے کر نصاب میں تبدیلی کے اس عمل کو روک دیا اور اسی طرح جب اگلی حکومت
2008 میں جب پیپلز پارٹی کی آئی تو انھوں نے تعلیمی پولیسی کا جائزہ لیتے
ہوئے نئی تعلیمی پولیسی 2009 اٹھارویں ترمیم کابل قومی اسمبلی سے پاس کر
والیا اسطرح تعلیمی نصاب صوبائی مسئلہ قرار دے ڈالا اور اس طرح بحث شروع
ہوگئی کہ چاروں صوبے الگ الگ تعلیمی ترجیحات اپنائے گے اور ہر صوبے کا نصاب
الگ ہوگا اور اسی طرح نئی ٹیکس بک پالیسی کا آرڈینس بھی آیا اور نجی پبلیشر
ز کو نصاب کی چھپائی میں شامل کر لیا گیا جو اب تک نا مکمل عمل ہے اور نصاب
بھی پرانا ہی ہے دیکھاجائے تو موجودہ نصاب فرسودہ اور خامیوں سے بھرپور ہے
، اسی طرح اسی نصاب سے تعلق پر اس وقت کی امتحانی ترجیحات کو دیکھا جائے تو
وہ بھی ناقص ہوچکی ہے کیونکہ تعلیمی تنائج کا انحصار امتحانی سسٹم پر منحصر
ہوتا ہے مگر نقل کے رجحان نے لائق اور نالائق کے طلبہ کی پہچان کو ختم کر
دیا ہے بوٹی مافیا سوالاتی پرچے اور ان کے جوابات مناسب قیمت پر فراہم کر
دیتا ہے اس سلسلے میں دوران امتحان تعلیم کی عزت بچانے کے لیے پولیس سے بھی
مدد لی جاتی ہے مگر یہ طریقہ مناسب نہیں ہے بوٹی مافیا کے خلاف کاروائی کی
جائے مگر پہلے تعلیمی نصاب کو مزید موثر بنایا جائے تاکہ اس قسم کی بوٹی
مافیا جو کہ نقل میں ملوث ہے اسے اتنی آسانی سے سوالات کے جوابات نہ مل
سکیں کیونکہ کسی بھی تعلیمی نظام میں امتحانات بنیادی اہمیت کے ہامل ہوتے
ہیں یہ طلبہ کی ذہنی اور علمی استعدادکو جانچنے کا آئنہ ہوتے ہیں ۔مگر غیر
معیاری سوالاتی پرچے، غلطیوں کی بھرمار،نا اہل استاتذہ کا پرچے چیک کرنا
نہایت غلط عمل ہے جس طرح اب تک نصاب تبدیل نہیں کیا جاسکا بالکل اسی طرح
امتحانی پولیسی بھی جوں کی طوں ہے جو کہ نئی نسل کو بگاڑنے میں مزید موثر
ثابت ہورہی ہے مطالقہ تعلیمی بورڈز نا اہل لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اندر
بیٹھ کر گروپ بندیوں میں مصروف عمل ہیں اس صورت حال میں یہ لوگ خاک تعلیمی
مثائل پر قابو پا سکتے ہیں موجودہ عمران خان حکومت کو چاہیے کہ فوری طورپر
نئی تعلیمی پولیسی بنائے اور چاروں صوبوں میں یکساں نیا نصاب بنا کر پڑھانے
کے لیے اچھے استاتذہ بھرتی کیئے جائے کیونکہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی
نسل ملک اور قوم کی بقاء کی خاطر کام کرے اور ترقی یافتہ کاموں کی صف میں
سر اٹھا کر کھٹرے ہوں تو ہمیں تعلیم ساتھ ساتھ آگاہی اورمعلوماتی نصاب اور
کتاب دوستی کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ تعلیم یافتہ انسان ہر
معاشرے میں ترقی کر سکتا ہے اور پاکیزہ روشنی میں عقل و شعوراور انسان کی
جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ترقی کے روشن راستے پر گامزن کر سکتے ہیں
اسطرح ملک اور قوم مزید ترقی کرسکتے ہیں ۔ |