پھر کیوں نہیں ؟ کیا یہ معاشرہ ہمیں رُوکتا ہے ؟یا ہم خود
؟ میرا تعلق ایک ایسے شہر سے ہے جس کی آبادی 16ملین ہے ۔ میں روشنیوں کے
شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی لڑکی ہوں جو روز مرہ میں ہونے
والی حادثات، مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دن کا آغاز اور اختتام
کرتی ہوں ، اس شہر کی آباد ی کی تعداد کو دیکھ کر اس شہر کے مسائل پر بھی
غور کرنا ضروری ہے ۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک نہیں بہت سے مسئلے ہیں جیسے صحت ، صفائی اور
تعلیم کی سہولتوں میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ ، کنسٹرکشن ورک، ٹریفک اور
ٹرانسپورٹ کا ہے ۔ کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک ور ٹرانسپورٹ کا ہے
کراچی شہر کاروباری مرکز اور تعلیم کے حوالے سے ایک اہم قردار ادا کرتا ہے
لیکن ٹریفک اور ٹرانسپورٹ میں مشکلات پیدا کی وجہ سے کاروباری مرکز اور
تعلیم پر بہت اثر پڑتا ہے ۔ کاروباری مرکز اور دفاتر میں 40فیصد خواتین کام
کرتی ہیں جن کو روز مرہ میں آنے والی مشکلات جیسے بس کا وقت پر نہ ملتا جس
کی وجہ سے اپنے تعلیمی مرکز اور دفاتر وقت پر نہ پہنچا بھی اپنے آپ میں ایک
مسئلہ ہے نہ صرف دفتری کاموں کی وجہ سے خواتین اپنے گھروں سے اور بھی
وجوہات کی وجہ سے گھروں سے باہر نکلتی ہیں ٹرانسپورٹ کی ان مشکلات کی وجہ
سے عورتوں کو روز بُرے تجربے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ بس اسٹاپ اور
بس میں مردوں کا عموماً گھورنا اور بس ڈرائیوروں کا عورتوں کے ساتھ بُرا
راویا رکھنا۔ ان سارے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے عورتوں کو وہ سہولت فراہم
کی جائے جن کے ساتھ وہ باآسانی سفر کرسکتے۔
مثلاً:
موٹر سائیکل چلانے کی آزادی، اس معاشرے میں عورت کو موٹر سائیکل کیوں نہیں
چلانے کی اجازت ہے ؟ جب کوئی عورت ہمت کرکے ، موٹر سائیکل چلانے کی کوشش
کرتی ہے تو یہ معاشرے کی لوگ اس کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ اس معاشرے
میں عورتوں کو فضا میں سانس لینے کی حق ہیں ؟ یہ سہولیات اور یہ آزادی ہمیں
تب ہی مل سکتی ہے جب ہمارے گھر کے مرد افراد اپنی ماں بہنوں بیٹیوں کے لئے
اپنی سوچ بدلے تب ہی اس معاشرے کی سوچ بدل سکتی ہیں
|