سمیع و علیم

نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا (الغافر:60)

زیادہ پرانی بات نہیں، 1992 کا سال تھا، کپمیوٹر میں ونڈو انسٹال کی، اس مشین میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ محنت کم اور نتیجہ رنگین۔ وہ کمپیوٹر جو میرے بچوں کے لیے معمہ تھا اب گھر میں ان کی پسندیدہ شے تھی۔ انٹرنیٹ نایاب نہیں مگر مہنگی تھی۔ اس کے باوجود بچوں کو کچھ دیر اس انٹرنیٹ نامی نئے کھلونے سے کھیلنے کی اجازت تھی۔ البتہ میرا ایک بیٹا اس پر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے -

لاہور سے ایک صاحب راولپنڈی تشریف لائے، ایک پروفیسرصاحب سے انھوں نے ملاقات کی۔ لاہور واپس جا کر انھوں نے اپنا طبی معائنہ کرایا۔ ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ پروفیسر صاحب جن کا طب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اوروہ بیماری جو مجھ سے بھی پوشیدہ تھی کیسے جان گئے۔

وہ لوگ جو حکمرانی کے خواہش مندوں کو خوش خبریاں سناتے ہیں یا وزیر اعظم ہاوس مین بیٹھ کر وقت کے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب اونٹوں کی قربانی کا وقت آں پہنچا ہے، یا وہ لوگ جو کسی میڈیا ہاوس میں بیٹھ کر دور کے ملک کے بارے میں پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دیتے ہیں یہ لوگ کوئی غیب دان نہیں ہوتے البتہ وہ علم کے بڑے درخت کی ایک شاخ کے ماہر ضرور ہوتے ہیں، امام محمد بن سیرین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ید طولی ٰ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ ابن سیرین نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمھارا ہاتھ کاٹا جائے گا، مذکورہ شخص کی موجودگی میں ایک اور شخص اسی محفل میں داخل ہوااور اس نے بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ امام نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ حج کو جائے گا۔ پہلا شخص حیران ہوا مگر وقت نے ثابت کیا کہ پہلے شخص کا ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرے شخص نے حج کیا۔

علم کیا ہے، کسے حاصل ہوتا ہے، کیسے حاصل ہوتا ہے، انسان کتنا علم حاصل کر سکتا ہے تشنہ بحث ہے مگر ایک بات پر سب صاحبان علم متفق ہیں کہ انسان کا علم ناقص اور ادہورا ہے۔ تمام علوم کی کی مکمل اجارہ داری خدا ہی کے پاس ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا موجد اول ہے۔

انسان کو دیکھنے کے لیے بینا آنکھ کے ساتھ ساتھ روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دن کو سورج آنکھ کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے اور حد نگاہ تک مناطر روشن ہو جاتے ہیں۔ رات کے اندہیرے میں آنکھ کی حد نگاہ مصنوعی روشنی کی لو تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔صاحب شمس الفقراء نے لکھاہے کہ انسان کو اندر سے دیکھنے کے لیے قلبی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس ضیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نور اسم ذات سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اسم ذات کے نور سے مستفید ہونے والا انسان دوسرے انسان کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ یہ تو صاحبان علم کی باتیں ہیں۔کچھ لوگ ان اقوال کی حقیقت تک پہنچتے ہیں اور بعض کا کم علم انھیں ان باتوں کے انکار پر پر اکساتا ہے۔ البتہ خالق کائنات ایسی ہستی ہے جس کے ہاں علوم کلی ازل سے سجدہ ریز ہیں اور تا ابد اس کی اجارہ داری مستحکم ہے۔

جب ابراہیم نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں تو رجوع کیا اور دعا کی اے ہمارے رب، ہم سے قبول فرما بے شک آپ سنتے اور جانتے ہیں (البقرۃ:127) ۔ علمائے دین کا کہنا ہے کہ نبیوں کا ہر عمل امر ربی کا مظہر ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں پوشیدہ اسباق قابل غور ہیں

۔ ا س دعا کے لیے رفع ید سے قبل خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بامقصد نیک عمل کو پورا کیا
۔ اپنے اللہ کی طرف رجوع ہو کر اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کیا
۔ عمل کرتے وقت دل میں اخلاص تھا۔ غافل دل کے ساتھ نہیں بلکہ دل کو مائل کر کے اپنے قلب کی کیفیت کو اللہ کے سامنے رکھ کر ہی دعا کا سلیقہ پورا ہوتا ہے
۔ دعا کے لیے مقام کی اہمیت بھی ظاہر کر دی گئی ہ
۔ اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ واسطہ بھی اسی قادر مطلق اور بے پرواہ کی صفات کا کارآمد ہے۔

نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا (الغافر:60)

دنیا میں بسنے والا انسان بھی سنتا ہے لیکن وہ دوسروں کے دل کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔سمیع تو ضرور ہے مگر علیم نہیں ہے۔ اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں بڑہا دیتا ہے (البقرہ:15,16)۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منافقین اس بہکاوے میں ہیں کہ شائد اللہ صرف سنتا ہے۔اہل ایمان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں کو بصارت عطا کی جاتی ہے تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمھارے آبا بھی نہیں جانتے تھے (الانعام:19)

حدیث قدسی ہے میرے بندو، تم سب کے سب گمراہ ہو، سواے اس شخص کے جسے میں ہدائت دوں، اس لیے مجھ سے ہدائت مانگو میں تمھیں ہدائت دوں گا۔ میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاوں، اس لئے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا۔ میرے بندو، تم سب کے سب بے لباس ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناوں، اس لیے مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناوں گا۔ میرے بندو، تم دن رات گناہ کرتے ہواور مین تمھارے گناہ معاف کر سکتا ہوں، اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو، میں تمھیں معاف کر دوں گا البتہ رسول اکرم ﷺ کی یہ ہدائت پیش نظر رہے اللہ کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں کرتاجو سہو و لہو مین مبتلاء ہو وہ سنتا اور جانتا ہے۔

ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے اور علیم تو جمیع علوم کا اجارہ دار ہے۔ دعا گو کے ذہن میں یہ بچپنا نہیں ہونا چاہیے ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 148940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.