’’ تم اُداس کیوں بیٹھے ہو؟ خیریت ہے؟‘‘ حنا نے اپنے
چھوٹے بھائی علی سے پوچھا ۔ وہ جب سے اسکول سے آیا تھا، چپ چپ سا تھا۔ وہ
تو آتے ہی شور مچا دیا کرتا تھا،اِس لیے حنا کو فِکر ہوئی۔ علی نے حنا کے
پوچھنے پر اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اب تو حنا اور
بھی پریشان ہوئی۔ ’’ کیا بات ہے علی؟ رو کیوں رہے ہو؟‘‘ وہ علی کے پاس بیٹھ
گئی اور اُس کے آنسو صاف کرنے لگی۔
’’ آپی! اُردو میں میرے نمبر بہت کم ہیں،اِس وجہ سے جماعت میں میری پوزیشن
بھی پانچویں ہے ،‘‘ علی نے روتے ہوئے بتایا۔ ’’ اوہ ہو! تو اس میں رونے کی
کیا بات ہے میرے پیارے بھائی۔‘‘ حنا نے اُسے پیار سے کہا۔’’ ہے ناں! پچھلی
بار میری دوسری پوزیشن تھی۔وہ بھی اُردو میں ہی نمبر کم تھے اس لیے۔‘‘ علی
نے رونی صورت بنا کر کہا۔حنا مسکرا دی اور پیار سے کہنے لگی: ’’ میرے پیارے
بھائی! اس میں اُردو کا تو کوئی قصور نہیں۔ اب تم نے جتنی محنت کی اُس کے
مطابق نمبر آگئے۔‘‘
’’ نہیں، میں نے محنت کی تھی۔ اسکول میں اُردو ہونی ہی نہیں چاہیے ،بہت
مشکل ہے۔‘‘ علی نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’غلط بات ہے۔ ایسے نہیں کہتے۔ اُردو
کے بغیر تو ہم سب گونگے ہو جائیں گے۔ ‘‘ حنا نے کچھ شرارت اورنرمی سے کہا۔’’
وہ کیسے؟ ‘ علی اس بات پر حیران ہوا،پھر کہنے لگا: ’’ مجھے نہیں سمجھ آتی
اس کی۔ میں کیا کروں آپی؟ کیوں پڑھاتے ہیں یہ اسکول میں؟ ‘‘ علی اب تک
پریشان تھا۔’’ اچھا چلو آج میں بتاتی ہوں کہ اُردو پڑھناکیوں ضروری ہے
ہمارے لیے؟ ‘‘ حنا نے کہا تو علی اُس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’ اُردو ہماری قومی زبان ہے نا؟‘‘ حنا نے علی کی طرف دیکھا تو اُس نے ہاں
میں سر ہلایا۔’’ قومی زبان کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہے۔ اُردو تو ہمارا
فخر ہے۔ ‘‘ حنا نے مسکراتے ہوئے اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’
قومی زبان سارے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ علاقائی زبانیں تو صرف
اپنے اپنے صوبے کے اندر بولی اور سمجھی جاتی ہیں جب کہ قومی زبان پورے ملک
میں سمجھی جاتی ہے۔ایک بات بتاؤ۔ اگر آپ کی زبان سمجھنے والا کوئی نہ ہو تو
کیا آپ اپنی بات دوسروں کو سمجھا سکو گے؟ ‘‘ حنا نے پوچھا۔علی اس سوال پر
سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا: ’’ نہیں! جب کوئی میری زبان کو
جانتا ہی نہیں تو سمجھے گا کیسے۔‘‘ علی نے بہت سوچ کر جواب دیا۔
’’ بالکل ٹھیک! اس کا مطلب ہے کہ جہاں آپ کی زبان کوئی نہ سمجھے وہاں آپ
بالکل ایسے ہیں جیسا کوئی گونگا انسان۔‘‘ حنا نے علی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ جی! ایسا ہی ہے۔‘‘ علی نے کہا۔’’ اب غور کرو۔ اگر اُردو نہ رہے تو ہماری
بات کوئی نہیں سمجھے گا۔ اب سوال یہ کہ اسکول میں اُردو کیوں پڑھنا ضروری
ہے؟‘‘ حنا نے کہا تو علی نے سر ہلایا۔
’’ تعلیم ہمیشہ اپنی زبان میں زیادہ اثر کرتی ہے۔اگر ہم اُردو بولنا تو
جانتے ہیں لیکن اُردو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تو کیا ہم آسانی سے اپنی
تعلیم پر توجہ دے سکیں گے؟ نہیں نا؟ پھر اُردو کو اچھّی طرح جاننے اور
سمجھنے کے لیے اُردو پڑھنا تو ضروری ہوا ناں۔ اُردو ہماری تہذیب کی زبان ہے
کیوں کہ تہذیب کی پہچان بھی زبان سے ہی ہوا کرتی ہے۔اپنے دین کو سمجھنے کے
لیے بھی ہمیں اپنی قومی زبان کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ہم قرآن مجید اور
احادیث کو سمجھنے کے لیے اُن کا اُردو ترجمہ پڑھتے ہیں۔‘‘ حنا نے علی کی
طرف دیکھا۔اب اُس کے چہرے پر پریشانی نہیں تھی۔
’’ ایسا تو میں نے کبھی نہیں سوچا۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ علی نے حنا کو
دیکھ کر کہا تو وہ مسکرائی اور بولی: ’’ علم حاصل کرنے کے لیے زبان کو
جاننا اور سمجھنا پہلی ضرورت ہے اور پھر ہماری اُردو تو اتنی میٹھی اور
پیاری زبان ہے۔ ہماری اُردو تو دنیا کی نہایت مہذب اور خوب صورت زبان
ہے۔زبانوں کا علم بہت دل چسپ ہوتا ہے۔‘‘
’’ کیا مطلَب؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’ مطلب یہ کہ اگر ہم اپنی زبان پڑھنا جانتے ہوں گے تب ہی کوئی اور زبان
سیکھ سکیں گے کیوں کہ دوسری زبان کے لفظوں کو ہم اپنی زبان کی مدد سے
سمجھتے ہیں، اُس کے معنی جان کر۔آپ کو ایک اور مزے کی بات بتاتی ہوں۔ہماری
اُردو زبان تُرکی کے اسکولوں میں پانچویں جماعت تک پڑھنے کا اختیاری مضمون
ہے۔تُرک عوام بہت شوق سے اُردو پڑھتے اور بولتے ہیں۔اِس کے علاوہ جاپان کی
یونیورسٹیوں میں بھی اُردو کا شعبہ موجود ہے۔ جاپان کے لوگ بھی اُردو سے
محبت کرتے ہیں اور اُردو پڑھنے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔‘‘ حنا نے بتایا تو
علی نے حیرا ن ہو کر کہا: ’’کیا واقعی؟‘‘
’’ جی! سچّ مُچ ایسا ہے۔‘‘ حنا نے فخر سے کہا۔ علی بھی یہ سن کر خوش ہوا
تھا۔’’ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں نے واقعی اُردوکے لیے محنت کم کی تھی۔ ہمیشہ
اُردو کو بوجھ سمجھا،اِسی لیے کبھی توجہ بھی نہیں دے پایا ۔اب میں اُردو پر
بھی اُتنی ہی توجہ دوں گا جتنی باقی مضامین پر دیتا ہوں۔ ‘‘
’’ایک بات یاد رہے میرے پیارے بھائی۔ دنیا میں آج تک اُنھی قوموں نے ترقی
کی ہے جنھوں نے اپنی قومی زبان کو اہمیت اور ترقی دی، جو اپنی زبان میں بات
کرنا فخر سمجھتے ہیں، جیسے چین اور جاپان کی شان دار مثال ہمارے سامنے
ہے۔‘‘ حنا نے کہا۔ اب علی کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بلا وجہ پریشان تھا۔در
اصل اُس نے اُردو کو بوجھ سمجھا جس وجہ سے اُسے یہ مشکل پیش آئی۔اُس نے سوچ
لیا تھا کہ اب وہ پوری توجہ سے اُردو کے لیے بھی محنت کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|