اردوادب کی صنف طنز و مزاح دیگر اصناف سے مختلف ہی نہیں
بلکہ اس کا دامن اپنے اندر شوخی، چنچل پن، قہقہے، طنز، پھپتی، ہنسی مزاق
لیے ہوئے ہے۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کے پھول بکھیرنا کوئی آسان کام
نہیں۔خاص طور پر آج کے دور میں جب کہ ہر کوئی کسی نہ کسی اعتبار سے مختلف
مسائل اور ٹینشن لیے ہوتا ہے۔اس صورت حال میں اگر کوئی قلم کار یا شاعر
اپنی مزاحیہ تحریر یا شاعری سے سامعین اور قارئین کو وقتی طور پر ہی سہی
قہقہوں اور مسکراہٹوں سے نواز دیتا ہے تو گویا اس نے بہت بڑا کام سر انجام
دیا۔ طنزاور مزاح دو مختلف نوعیت کی چیزیں ہیں، مزاح نگار کو اپنی تحریر یا
شعر قرطاس پر منتقل کرتے وقت بہت احتیاط اور اپنے قاری کے حس مزاح کو مدِ
نظر رکھنا ہوتا ہے۔ طنز میں دل آزاری، بیہودہ گوئی، پھکڑ پن، ستم گاری طنز
کی بنیادی خوبصورتی کو تہس نہس کردیتی ہے اسی طرح مزاح میں شائستگی، سادگی،
زبان و بیان میں لطافت، ادب و آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ توہین کا پہلا
کسی طور نہ نکلتا ہو۔ شگفتہ بیانی مزاحیہ شاعر کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔
معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ”چراغ تلے“ میں طنز و مزاح
کے بارے میں لکھا ہے کہ ”مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھر نے کا نام ہے
لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ
باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتی ہیرا بن جاتا ہے“۔ ڈاکٹر
طارق کلیم نے اپنے مضمون ”طنز کیا ہے؟“ میں طنز کی خوبی بیان کرتے ہوئے
لکھا ہے کہ ”طنز کی سب سے بڑی خوبی اس کا ناقابل گرفت ہونا ہے۔ جس کے متعلق
بات کی جائے وہ کوشش کے باوجود کہے والے کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے“۔
اردو ادب میں طنز و مزاح کہنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔غالب سے پہلے اور
پھر غالب ؔ کے یہاں بھی ظرافت پائی جاتی ہے۔ لیکن اکبر الہٰ آبادی اردو کے
ایسے شاعر ہیں کہ جنہوں نے شاعری میں طنز و مزاح کو بام ِعروج پر پہنچایا۔
ان کے مزاح کا انداز نرالہ اور اچھوتا ہے۔ مزاح نگاری کا جو انداز انہوں کے
ہاں ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اکبر نے شاعری کی ابتدا تو سنجیدہ شاعری سے
کی تھی بعد میں طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اختیار کیا اور اس میں اتنے معروف
ہوئے کہ انہیں مزاحیہ و طنزیہ شاعر کے طور پر ہی جانا پہچانا جانے لگا۔اکبر
ؔ کے چند اشعار ؎
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
الہٰی کیسی کیسی صورتیں تونے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجے سے لگالینے کے قابل ہے
بت کدہ میں شوور ہے اکبر مسلمان ہوگیا
بے وفاؤں سے کوئی کہہ دے کہ ہاں ہاں ہوگیا
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
پیدا ہواوکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے
اکبر کے بعد ظرافت نگاری کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک مزاحیہ
شاعر اپنی مزاحیہ شاعری اور شگفتہ بیانی سے اردو کا دامن وسیع سے وسیع تر
کرتا چلا گیا۔ سید ضمیر جعفری، دلاور فگار،ابن انشاء، امیر الا سلام ہاشمی،
انور مسعود، پروفیسر عنایت علی خان، حکیم ناصر، زاہد فخری، حیدر حسنین
جلیسی، ڈاکٹر انعا م الحق جاویداور دیگر کے بعد یہ سلسلہ خالد عزیز اور ان
کی بیگم بینا خالد تک آپہنچتا ہے۔ مزاحیہ شاعر یقینا اور بھی ہوں گے۔
خالد عزیز کنیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔ وطن سے دور رہ کر اردو کی
ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔”بیگم نامہ“ ان کی مزاحیہ شاعری کا
پہلا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں ان کی شاعری کا محور و منبع ان کی بیگم بینا
خالد ہیں جو خود بھی شاعرہ ہیں، اس لیے انہوں نے اس مجموعے کو اپنی بیگم کے
نام اس طرح معنون کیا اور اس کا نام ہی ”بیگم نا مہ“ رکھا۔ اب دیکھنا یہ ہے
بیگم صاحبہ ”شوہر نامہ“ کب منظر عام پر لاتی ہیں۔ ویسے بیگم نامہ میں انہوں
نے شکووں کا جواب ’جواب شکوہ‘ کے تحت دیا ہے۔ چند مثالیں دیکھے لیتے ہیں ؎
شکوہ (خالد عزیز)
جب سے میری بیگم کا میں منظور نظر ہوں
تب سے ملا اعزز کہ میں صاحب گھر ہوں
جواب شکوہ (بینا خالد)
جیسے بھی ہیں میرے ہیں وہ منظور نظر ہیں
میں دل سے یہ کہتے ہوں کہ وہ صاحب گھر ہیں
شکوہ (خالد عزیز)
میں فون آزادی سے کہیں کر نہیں کرسکتا
ای میل میں سنسر کے کے بنا پڑھ نہیں سکتا
جواب شکوہ (بینا خالد)
ای میل پہ بیٹھیں گے تو گھنٹوں نہ اٹھیں گے
فی میل جو مل جائے تو چیٹنگ بھی کریں گے
شکوہ (خالد عزیز)
خود تو شوقین ہیں گانوں کی مگر میرے لیے
عالم آن لائن وہ ٹی وی پہ لگادیتی ہیں
جواب شکوہ (بینا خالد)
جب بھی اچھا سا کوئی شعر سنانے کو کہوں
اپنے ہی شعر ترنم سے سنا دیتے ہیں
شکوہ (خالد عزیز)
میری بیگم کی بے جا دھونس سختی عام عادت ہے
ہمارے دیس میں یہ کام تھانے دار کرتے ہیں
جواب شکوہ (بینا خالد)
نہیں کوئی حقیقت ان کے شکوں اور شکایت میں
جو میرے ظلم کے چرچے سربازار کرتے ہیں
تخلیق کار نثر نگار ہو یا شاعر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول، حالات اور واقعات
سے متاثر ہوتا ہے، حساس ہونے کے باعث وہ ان کا درد محسوس کرتے ہوئے اپنی
دلی کیفیت کا اظہار شاعری کے ذریعہ یا نثر میں کرتا ہے۔ شاعری تو ہے ہی دلی
جذبات کا اظہار۔ رشید احمد صدیقی کا شعر اس حوالے سے حقیقت کی عکاسی کرتا
ہے ؎
شاعری کیا ہے، دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگر بیکار ہے تو شاعری بے کار ہے
بعض بعض صورتوں میں تو ادھر کوئی واقع رونما اہوا ادھر شاعر نے قطعہ کہا۔
طنز و مزاح تو نام ہی انہیں باتوں کا ہے۔ خالد عزیز کی شاعری طنز و مزاح کے
حسین پیرائے میں ہے۔وہ طنز بھی کرتے ہیں تو دل کش پیرائے میں دیکھئے یہ شعر
اس وقت کا ہے جب نواز شریف حاکم وقت تھے اور عمران خان دھرنے دے رہے تھے ؎
جب سے عمران نے دھر نے میں بٹھا رکھا ہے
حاکم وقت کی نیندوں کو اڑا رکھا ہے
عقد ثانی کا ارادہ ہے بس اس جیت کے بعد
سارے ارمانوں کو سینے میں دبا رکھا ہے
شاعری کے حوالے سے خالد عزیز نے ”کچھ اپنی کہانی۔۔ میری اپنی زبانی“ میں
لکھا کہ ’میری شادی کے بعد میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ جو تمہیں پسند ہو یا
نا پسند ہو ابھی بتادو تاکہ ہماری زندگی خوشگوار گزرے تو وہ فوراً
بولیں،”مجھے شاعری بالکل پسند نہیں۔۔ شاعر مجھے زہر لگتے ہیں“۔ خالد عزیز
لکھتے ہیں کہ ”آپ خود ہی سوچیں میرے دل پر کیا گزری ہوگی، لیکن نئی نئی
شادی تھی اور پھر میں نے یہ سوچا کہ زندگی تو اسی بیوی کے ساتھ گزرنی
ہے،شاعری کو خیر باد کہہ دوں، سو میں نے شاعری ترک کردی لیکن چند مہینے بعد
ایک دن خود ہی کہنے لگیں آپ شاعری کیوں نہیں کرتے۔ کبھی مجھ پر بھی تو کوئی
شعر کہیں۔ میں نے برجستہ یہ قطعہ کہہ دیا ؎
دیکھو تو کبھی خود کو تم میری نظر سے
یہ چاند اتر آیا ہے دھرتی پہ کدھر سے
آنکھیں ہیں نشیلی تو تیرے ہونٹ رسیلے
پلکو سے کرو چھاؤں گزرجاؤ جدھر سے
خالد عزیز لکھتے ہیں کہ یہ قطعہ سننا تھا کہ بس انہیں یہ بہت پسند آیا
چونکہ اس میں ان کی تعریف تھی بس پھر کیا تھا انہیں بھی شاعری سے لگاؤ پیدا
ہوگیا اور آہستہ آہستہ وہ بھی شاعری کرنے لگیں۔خالد عزیز آگے لکھتے ہیں کہ
’میں نے جب شاعری میں منظوم’شکوہ نامہ‘ لکھا اور ٹیلی ویژن کے افتتاحی
مشاعرے میں جب میں اپنا شکوہ نامہ پڑھ کر اسٹیج سے اترا تو میری اہلیہ
اسٹیج پر آئیں اور فوراً مائک میرے ہاتھ سے لے کر کہا بہت دنوں سے میں آپ
کے شکوے سن رہی ہوں آج میں ان شکوؤں کا جواب دونگی۔ ان کا یہ جملہ سننا تھا
کہ سامعین پر سناٹا چھا گیا پھر جو انہوں نے ”جواب شکوہ“ سنایا اور خوب
پذیرائی ہوئی سامعین نے بے حد پسند کیا۔ بس وہ دن اورآج کا دن ہر مشاعرے
میں لوگ مجھ سے شکوہ اور بیگم سے جواب شکوہ کی فرمائش کرتے اور یوں ہم
دونوں منظوم شکوہ اور جواب شکوہ پر بے پنا ہ داد حاصل کرتے ہیں“۔
چند دن ہوئے 13اپریل کو انجمن ترقی اردو پاکستان نے پاکستان کے سفارتکار
کرامت اللہ غوری اور ان کی بیگم کو اردو باغ میں مدعو کیا، جہا ں کرامت
اللہ غوری کی کتاب ”روزگار سفیر“ اور ان کی بیگم پروین سلطانہ صبا کے شعری
مجموعے ”موجِ صبا“ کی تقریب اجراء منعقدہوئی،میں انجمن کی تقریبات میں جانا
میرے معمولات میں ہے۔ چنانچہ کرامت اللہ غور کو سنا، ان کی کتاب کے بارے
میں دیگر کو سنا اور ان کی بیگم نے اپنی شاعری سنائی۔ غوری صاحب کی یہ
دوسری تصنیف ہے اس سے قبل ان کی کتاب ”بار، شاسائی“ شائع ہوچکی ہے۔ اس سے
قبل خالد عزیز صاحب کے شعری مجموعے میں غوری صاحب کے تاثرات اور موج صبا کی
شاعرہ پروین سلطانہ صبا کا خالد عزیز کے مجموعے پر قطعہ تازہ تازہ پڑھا تھا
اس لیے تقریب اجراء میں بھی دلچسپی ہوئی اور خالد عزیز صاحب کے مزاحیہ
مجموعے پر کچھ لکھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایک وجہ یہ بھی کہ خالد عزیز
صاحب کا قرض بھی تھا انہوں نے ہمارے دوست مرتضیٰ شریف کی فرمائش پر ہمارے
بارے میں ایک قطعہ کینیڈا سے لکھ بھیجا۔ اس کا شکریہ کیسے ادا کریں۔ممکن
نہیں۔
کرامت اللہ غوری، پیشہ سفارت کاری رہا، خود کو سفارتی بنجارہ کہا ہے،اب وہ
بھی کینیڈا کے باسی ہیں، گزشتہ دنون کراچی میں تھے، انجمن ترقی اردو نے
اردو باغ میں ان کی دوسری کتاب ”روزگار سفیر“ کی تقریب اجراء منعقد کی،
مجھے اس تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا، غوری صاحب نے بیگم نامہ اپنا
اظہاریہ ”بیگم نامہ والے۔۔خالد عزیز“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ”خالد
عزیز کے کلام میں کواکب کہیں نہیں ہیں جو دیکھنے یا پڑھنے والے کو دھوکہ
دیں۔ سیدھے ساتھے الفاظ میں روز مروہ ک مشاہدات ان کے کلام کا خمیر ہیں۔ ان
کے کلام میں زیادہ تر تو وہ مشاہدات اور تجربات ہیں جو ایک عام شادی شدہ
شخص کی زندگی میں آئے جسے نہ دانشوری کا زعم ہے نہ بقراط ہونے کا دعویٰ
سوسہ شعر بھی اسی سادگی اور روانی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں جیسے جائیدا کے
متلاشی خریدار کو گھر کھول کے دکھارہے ہوں کہ دیکھ لو۔۔۔اچھی طرح سے دیکھ
لو۔ سب کچھ تمہارے سامنے ہے نہ اس میں کوئی گول مال ہے نہ ہیر پھری“۔ دراصل
خالد عزیز صاحب کنیڈا میں جائیداد کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ کرامت
اللہ غوری اور خالد عزیز میں ایک بات قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں کی
بیگمات شاعرات ہیں۔ کرامت اللہ غوری کی بیگم پروین سلطانہ صبا کا شعری
مجموعہ ”موج صبا“ ہے۔ پروین سلطانہ صبا شاعرہ ہونے کے ساتھ افسانہ نگاراور
مصورہ بھی ہیں۔ خالد عزیز کی شاعری کے حوالے سے انہوں نے منظوم خراج تحسین
اپنے قطعات میں پیش کیا ہے۔ان کا ایک قطعہ پیش ہے ؎
پیرہن تحریر کو شوخی کا پہناتے ہیں یہ
قہقہوں کے سلسلے محفل میں پھیلاتے ہیں یہ
راج کرتے ہیں دلوں پر بزم کے خالد عزیز
سب اسی جانب سمٹتے ہیں جدھر جاتے ہیں یہ
آخر میں اپنے اس قطعہ پر تحریر کا اختتام کرتا ہوں ؎
خالد عزیز کا ’بیگم نامہ‘ بھی ہر دل عزیز ہے
طنز و مزاح اور ظرافت سے یہ بھر پور ہے
چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیریں خالد عزیزنے
بیگم کو دی عزت شہرت بھی خوب پائی ہے
(18اپریل2019ء) |